کوئٹہ کے تباہ کن زلزلے نے سنڈیمن ہائی سکول کو پشین منتقل کروایا تو اُس سکول کا طالب علم عبداللہ جان بھی وہاں شفٹ ہوگیا۔ وہاں علامہ اقبال نے بہت ہی غیر محسوس طور پر اپنے خیالات کی رنگت عبداللہ جان پرچڑھادی۔یہ رنگ پختہ جاکراسلامیہ کالج پشاور کے اُستادوں کے ہاتھوں ہوا۔ اور وہاں ماما عبداللہ جان سیاسی بن گیا۔یہ تو معلوم بات ہے کہ اگر چرواہا علا مہ اقبال ہو تو ریوڑ، دائیں بازو کی چراگاہ ہی کا رخ کرے گا۔ چنانچہ عبداللہ جان نے بھی شروعات رائٹسٹ سیاست سے کی ۔مگر بعد میں تعلیم مکمل ہوتے ہوتے اُس کے فکر وشعور کی سمتیں بائیں طرف سرکنے لگیں۔ اور پھر تکمیلِ علم کے بعد واپسی کے سفر میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک حجام نے سیاست میں اُس کی ملاّ گیری کے رجحان کی داڑھی کے آخری بال بھی تراشنے میں اس کی مدد کی۔ ژوب، کوئٹہ، اور نوشکی کے تجربوں تھپیڑوں نے شفق کی لالی مزید گہری کردی۔ اورانقلابی خیالات نے اپنی شکل اُس وقت حتمی کرلی جب ماما عبداللہ جان نائب تحصیلدار بن کرپٹ فیڈر میں ہیردین کے نہری زرعی علاقے میں چلا گیا۔
پٹ فیڈ کا یہ نہری علاقہ عبداللہ جان کے لیے بالکل ایک نئی دنیا تھی ۔وہ خود توبے آب وگیاہ نوشکی کے قبائلی سماج کا فرزند تھا ۔ ایسی سخت جان قبائلیت جسے جدید سائنس نے اندر سے تو کھوکھلاکر کے رکھ دیا تھامگر اِس کے نخر ے ابھی سلامت تھے۔وہ قبائلیت تو آج بھی اکڑی گردن کے ساتھ موجود ہے۔ اور نامردی کی دواکی ملاوٹ کے شبہ میں پولیو ویکسین مسترد کر کے لنگڑے لولے بچے جنتی رہتی ہے۔مگروہاں نہری جاگیرداریت میں ،تو اُس نے ظلمت واندھیر،محکومی او رتواہم پرستی دس گنی گہری پائی۔ وہاں تو کلف لگے لباسوں میں بلوچی تھیریم جیسی توندوں اور بے محابا مونچھوں والے بے تَرس جاگیردار تھے۔دوسری طرف استحصال زدہ خلقِ خدا تھی، بے یار و مدد گار اور غلامی کی حد تک دبے کچلے لوگ تھے۔ جن کی ہر دعا اورفریاد اِنہی جاگیرداروں کے اوطاقوں کے فلٹر سے ہوکرہی دارالحکومت یاآسمان کی طرف جاتی تھی۔ اُن دہقانوں کے ڈھورڈ نگر سے لے کر ماں بہن تک، ووٹ اور رائے سے لے کر اکٹھ اجتماع تک، اور عقیدہ و ایمان سے لے کر ذاتی پسند نا پسند تک سب کا اختیار بھوتار کے پاس تھا۔ مُلّا،ملازم اُسی بھوتار کے، اے سی ڈی سی اُسی آقا کے، اور تھانہ کچہری سب اُسی وڈیرے کے مقرر کردہ تھے۔عوام الناس کے پاس ناتکمیل شدہ حسرتیں تھیں،نیچی کی ہوئی مونچھیں تھیں اوربے سامان جھونپڑیاں تھیں۔ مقابل جگمگ کرتے محل تھے ،کیکڑے نما ڈراؤنی گاڑیاں تھیں اور سؤرآنکھوں والے باڈی گارڈ تھے ۔
اس سب کچھ پہ ہمارا تحصیلدار عبداللہ جان حیران پریشان کہ اُس کی آنکھوں کے سامنے جاگیردار اُن کسانوں کے بیچ آپسی لڑائیاں کرواتا تھا ، پھر انہیں تھانے بندکرواتا تھااوراپنے تھانے دار سے دونوں فریقوں کو پٹواتا تھا۔وہ بالخصوص یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ یہاں سازشیں ،جبر واستبداد ، اطاعت وبغاوت ، غم واندوہ ، غیرت وسیاہ کاری اور جرگہ ممبری اور ووٹ باہم سختی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ ایسے مناظر جہاں کوئی یونین ، ٹریڈ یونین نہ تھا، کوئی انجمن ،سیاسی پارٹی نہ تھی، کوئی حامی مددگار نہ تھا۔بس،آدم کی اولاد تھی اور ننگا ظلم تھا۔
ایسی غیر انسانیت دیکھ کر عبداللہ جان کی طرح کے باضمیر شخص کے شعورکی گردن نے شرم سے جھک جانا ہی تھا۔ اس انقلابی نوجوان اور تعلیم یافتہ تحصیلدار کا فخر بھراپاک دل ہل کر رہ گیا اور اولادِ آدم کی اس بے بسی نے اُ سے جھنجھوڑ ڈالا۔ وہ کچھ عرصہ تو اپنی سرکاری افسری استعمال کرکے یہاں وہاں پیوندیں لگا تارہا۔ مگراُسے جلد ہی اندازہ ہوگیاکہ لوہے کی تاروں سے بُنا ہوا ظلم کا یہ سماج اس قدر وابستہ وپیوستہ ہے کہ ایک فرد ، یا ایک آدھ جھٹکے سے اس کی مضبوطی میں کوئی فرق نہ پڑے گا ۔چنانچہ اس نے انفرادی کے بجائے اجتماعی سبیل کا سوچا۔ اُس نے اس سارے جاگیرداری نظام سے ہی استعفےٰ دے دیا۔تحصیلداری چھوڑ دی اور کوئٹہ جاکر باقاعدہ سیاست شروع کردی ۔
لیکن وہ کسی مشہور اور مین سٹریم‘ خان صاحب نواب صاحب کی پارٹی میں نہ گیا۔اس کوپتہ چل چکا تھا کہ ساری شخصیات ، سارے ادارے ،اور ساری پارٹیاں پٹ فیڈر کے انہی جاگیرداروں کے نظام کی حفاظت کے لیے قائم تھیں۔ او ریہ سب ایک دوسرے کی حفاظت اور خدمت کرتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک متبادل سیاسی پلیٹ فارم چاہتا تھا۔ اُس وقت یعنی1950سے لیکر 2016کو اپنی موت تک کے چیا سٹھ سال اس نے اِسی متبادل سیاسی تنظیم کھڑی کرنے کی جدو جہد میں لگادیے۔
اس نے ، پہلا کام یہ کیا کہ اپنے دوسرے مستعفی تحصیلدار دوستوں سے مل کر دس روپے ماہوار پر ایک کمرہ کرایہ پرلے لیا۔ان سب تحصیلداروں کی رہائش گاہ بھی وہی تھی اور پارٹی ہیڈ کوارٹربھی وہی واحد کمرہ تھا۔محلہ کے لوگ حیران کہ یہ تھری پیس سوٹ والے لوگ اپنا کھانا خود پکاتے تھے ، کپڑے خود دھوتے تھے اور کمرہ خود جھاڑو کرتے تھے۔ اِس کمرہ پر لٹ خانہ کا نام پڑنا تھا۔ لٹ خانہ بہت جلد ایک ٹھوس مادہ یعنی مکان کے بجائے ایک تصور کی شکل اختیار کرگیا۔یہ لٹ خانہ ایک طرح کا بحث خانہ تھا۔ یہ ایک مطالعہ گاہ بھی تھی۔ اتالیق کامل القادری نے یہاں سٹڈی سرکل شروع کی۔یہیں پہ ان لوگوں نے مشہورِزمانہ کتاب ’’ کمیونسٹ مینی فیسٹو ‘‘ باجماعت پڑھی۔
لٹ خانہ سیاسی معاشی تجزیہ گاہ بھی تھا اورمتبادل سوچنے اورایک تھنک ٹینک جیسا ادارہ کھڑے کرنے کی منصوبہ گاہ بھی۔ جب یہ مرحلہ پورا ہوا تو پھر وہیں سے پمفلٹ نکلنے شروع ہوئے،اور کتابچے چھپنے شروع ہوئے۔وہیں سے ’’ بلوچی زبان وادبئے دیوان‘‘ نامی ادبی تنظیم ،لٹ خانہ کا اگلا ارتقائی مرحلہ بنی۔ لٹ خانہ کے اِن بڑے انسانوں نے پھر ’’فی الحال سٹیشنری مارٹ‘‘ کے نام سے روشن فکری کی کتابوں کی ایک دکان کھولی۔لٹ خانہ ہی سے ایک ماہو ار رسالہ جاری کیاگیا۔بعد کاارتقائی دور تو بالخصوص اہم تھا کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اُس مرکزی ہیڈ کوارٹر سے یہ لوگ اپنے اپنے آبائی علاقوں میں عوامی سیاسی کمیٹیاں بنانے جاتے رہے۔ژوب میں کمیٹی بنی، اسپلنجی میں بنی اور نوشکی میں بنی۔
واضح رہے کہ لٹ خانہ کی سوچ کے عین مطابق ،عبداللہ جان نے ہجوم کی سیاست کبھی نہیں کی۔ وہ توہجوم کو جگانے اور ہجوم کومنظم کرنے والی روحوں کی تلاش کی سیاست کرتا رہا ۔اوراُس سیاست کے لیے اُسی طرح کی ایک سیاسی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک ایسی سیاسی پارٹی جو موت کے سکوت میں پتھر مارتے رہنے کے لیے مامور ہو۔ایسی پارٹی جوولوں روحوں کو آزاد کرے ، جو کوہِ ماران کے ریوڑوں کی گھنٹیوں کی ژولید گی کو موسیقیت عطاکرے۔
میر عبداللہ جان اپنے سیاسی اصولوں کے معاملے میں بہت سخت تھا۔ 1953 میں ہمیں اُس کا ثبوت ملتا ہے ۔ہوا یوں کہ اُس وقت میر گل خان اور اس کے ساتھی خانِ قلات کی بادشاہی کی بحالی والا بلوچستان چاہ رہے تھے۔مگر عبداللہ جان بادشاہت کی بحالی کے سخت خلاف تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی راہیں جد اکرلیں ۔جمالدینی اور اس کے دوست خانی نہیں بلکہ ایک جمہوری بلوچستان چاہتے تھے۔ ان کے نقطہ نظر سے اُن کے’’ بلوچستان میں سرداری اور ریاستی نظام نہیں ہوگا۔ بلوچستان ایک صوبہ ہوگا جس میں سب لوگ جمہوری اور نمائندہ حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے۔ اس میں نہ مستجار علاقوں کا مسئلہ ہوگانہ ریاستی برٹش بلوچستان کا امتیاز ۔ یہ ایک عوامی اور جمہوری صوبہ ہوگا‘‘۔چنانچہ دوستوں سے الگ ہوکراُس نے اپنے فلسفہ اور نظریے کے مطابق ایک اور تنظیم قائم کی جس کا نام ’’ دیما رووک اولس ‘‘ ( پروگریسو عوام ) تھا ۔ بہادر خان بنگلزئی اس پارٹی کاصدرتھا اور ملک پناہ اس کا جنرل سیکرٹری۔ لالاغلام جان شاہوانی تو اس پارٹی کا روح رواں تھا۔
دیمارووک تو کیا ، عام عوام بھی ساتھ نہ ہوئے ۔ مگرتب بھی وہ مایوس نہ ہوا۔ اُس نے کراچی کا رخ کیا۔ جہاں ایک طرف وہ ماہنامہ بلوچی میں کام کرتا رہا،اور دوسری طرف دوسری قوموں کے ترقی پسندوں سے روابط کرتا رہا۔وہ ماہنا مہ طلوع میں شامل ہوکر سوویت یونین سے قریب رہا ۔یوں وہ ایک ایسا بلوچ کمیونسٹ بنا جس کی سوچ اور توجہ کی جڑیں تو بلوچ عوام میں تھیں،اور آکسیجن لینے کی اُس کی شاخیں حیدر بخش جتوئی سو بھوگیا نچندانی اور قادر بخش نظامانی تھے۔اگر کوئی سندھی ہاری رہنما کسی بلوچ سے ملے تو اُسے ضرور بتا ناچاہیے کہ ہمارا عبداللہ جان سندھ کے دیہاتوں میں پیدل گھوم گھوم کر سندھ ہاری کمیٹی منظم کرتا رہا تھا۔
اس بڑے اور صنعتی شہر کراچی میں اُس کو یہ معلوم ہوا کہ ملک کے سارے جاگیردار ایک ہیں او ریہ کہ، سیاست ثقافت صحافت سب پہ جاگیردارقابض تھے۔ اسی لیے ماما فیوڈلزم کے کسی بھی ہتھکنڈے میں نہ پھنسا۔ وہ نہ تومیڈیا کی نام نہاد آزادی کے کسی دعوے نعرے پر بھروسہ کرتاتھا، اورنہ ہی وہ خطیب وقاضی،ملّا مرشد، اور فلم ٹی وی کی چکنی چپڑی باتوں پہ کان دھرتا تھا۔ اُسے تو معلوم ہوچکا تھا کہ یہ سب لوگ، اوریہ سب ادارے فیوڈل سیاست کے ہتھیار اور سازو سامان ہیں۔اسی لیے تو اس نے لینن کی کتاب’’دیہات کے غریب ‘‘ کا اردوترجمہ کیا تھا ۔
روشنی کا ہمارا استعارہ عبداللہ جان جمہوریت کو عوام کی تقدیر اور منزل قرار دیتا تھا۔ وہ او راس کے ساتھی ون یونٹ کے خاتمے اور ملک میں جمہوریت کے قیام کے لیے زبردست جدو جہد کرتے رہے۔ماما عبداللہ جان ہمیشہ سے ون یونٹ کے خاتمے اور وفاقی یونٹوں کی زیادہ سے زیادہ خود مختاری کی جدوجہد میں شامل رہا۔وہ قومی جبر کی مخالفت کا کارواں کا رتھا۔ وہ بالائی طبقات کے ہاتھوں کھلونا بنے پنجابی عوام کی خاموشی، بے تنظیمی اور بے شعوری پر بہت کڑھتا تھا۔ مگروہ وہاں کے عوام کو جگانے والے ہرانسان کواپنا بھائی گردانتا تھا۔ وہ طبقاتی بھائی چارے اور انٹرنیشنلزم کا اس قدر ماننے والا تھا کہ’’ مزدور مزدور بھائی‘‘ تو چھوڑئیے وہ تو’’ سردار چودھری بھائی بھائی‘‘ کی بات پر بھی ایمان کی حد تک یقین رکھتا تھا۔
ایوبی مارشل لا کے خلاف اس نے زبردست اور سرگرم جدو جہد کی ۔ اس عوامی جدوجہد میں جو کچھ اُس سے بن پڑا وہ کچھ کرتا رہا۔ پمفلٹ پوسٹر ، میٹنگ جلسہ جو طریقہ بھی ممکن ہوا اُس نے آمریت کے خلاف استعمال کیا۔ یہاں تک کہ اُسے اُس کے قریب ترین ساتھی عثمان کاسی کے ساتھ ایک ہی ہتھکڑی اور جولان میں جوتا گیا او رلے جاکرشاہی قلعہ لاہور میں پٹخ دیا گیا۔
ستر کے الیکشنوں میں اُس نے نیپ کو جتوا تو دیا مگرپھر فوراً ہی ششک نامی سرداری ٹیکس کے خلاف ہوگیا۔اس نے اس جابرانہ ٹیکس کی شدید مخالفت کی ۔ او رششک لینے والے سرداروں اور اُن کی حکومت کے خلاف زبردست مہم چلائی ۔ ششک تو ختم نہ ہوا اور کسان تو آزاد نہ ہوا، البتہ کسانوں کی ترجمانی کرنے والا یہ خوبصورت انسان اپنے پرانے اور سنہرے دوستوں سے باقاعدہ الگ ہوگیا۔یوں حکمران حکمرانی کرتے رہے، اور اُن کے سابقہ سارے دانشور ساتھی عوام کی طرفداری کرتے رہے ۔
جس وقت بلوچستان یونیورسٹی قائم ہوئی توعبداللہ جان ٹیچر کے بطور اُس سے وابستہ ہوا۔ علمی فضا میں تو اس نے نکھر جاناہی تھا ۔ یہاں اُس کے ہم خیال علما موجود تھے۔ مگر نعمت دیکھیے کہ یوں وہ نوجوانوں سے براہ راست رابطے میں آیا۔ اُس زمانے میں سارے طلبا سیاسی ہوا کرتے تھے ۔اوروہ سب کے سب سامراج دشمن سیاست کرتے تھے ۔ماما فوراً ہی آٹو میٹک طور پر اُن کا امام بنا ۔ وہ ہر تنظیم کا محترم استاد اور گائیڈبنا، بالخصوص بی ایس او عوامی کا۔
پھر،اسی ستر کی دھائی میں1978میں افغان انقلاب کا نیک بخت سورج پھوٹا ۔ یہ ایک عظیم واقعہ تھا ۔ اُس کے سارے ساتھیوں نے اس انقلاب کو لٹ خانہ کی آدرشوں کی تکمیل قرار دیا۔ شادان ومسرور عبداللہ جان پھولے نہ سماتا تھا ۔ وہ ان تھک انداز میں نوجوانوں کے سامنے اُس انقلاب کی گرہیں کھول کھول کر بتاتا جاتا۔اُس انقلاب کے ہر آزاد بخش اقدام وفرمان عبداللہ جان کے دل کی آواز جو تھے۔۔۔۔ اور جب اس انقلاب کے دمکتے درخشاں چہرے کوتاریکی کی قوتوں نے گرہن لگانی شروع کی توماما اُن چند لوگوں میں سے تھا جو اس کے دفاع میں ڈٹ کرکھڑا رہا۔ اس انقلاب کے خلاف ساری سازشوں کا مرکز چونکہ اُس کا اپنا ملک تھا اور وہاں مداخلت اُس کے اپنے سرحدی صوبہ بلوچستان کوبنا دیا گیا تھا۔ اس لیے وہ دگنی ذمہ داری کے ساتھ ، ایک طرح کے کفارے کے بطور جوش وخروش سے انقلابِ افغانستان کی حمایت میں کام کرتا رہا۔وہ تحریر میں ، تقریر میں اور عام گفتگو میں اس انقلاب کے بارے میں دنیا بھر کے نشریاتی اداروں کے پیدا کردہ شکوک دور کرتا جاتا۔حتی کہ وہ ہمارے عوام کی سیاسی تحریک کا وزیرِ خارجہ بن کر ایک عدد خفیہ دورہ بھی قندہار وکابل تک کا کر چکا تھا اور وہاں کے لیڈروں سے مل چکا تھا۔ نہ سی آئی ڈی کو پتہ چلانہ نصیراللہ بابر کو۔ وہ آہٹیں تک دبا کر راستہ چلنا جانتا تھا۔
میر عبداللہ جان کو اپنی گل زمین سے جنون کی حد تک محبت تھی۔وہ بلوچستان کے لیے بے انت اختیار اور واک کی تمنا رکھتا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ استحصالی قوتیں اس خطے میں یا تو حب الواطنی کے پیچھے چھپ کر اپنی کارستانی کرتے رہتی ہے یا پھر عقیدہ کا سہارا لے کر ایسا کرتی ہے ۔چنانچہ بہانہ ون یونٹ کا ہوتا یاترقی کا‘ میر صاحب،ہر مشکوک قدم کی چاپ سے یوں بدک جاتا تھا جیسے پہاڑ کے گڈ اور گرانڈ کسی درندے کو دیکھ کر بدک جاتے ہیں۔بلوچ عوامی قومی تحریک سے اُس کی وابستگی اس قدر زیادہ ہوتی گئی کہ وہ پوری ایک دہائی تک بلوچستان کو ایک آزادریاست کے بطور قائم کرنے کی زیرِ زمین جدوجہد میں بھی شامل رہا۔
وہ زہر آلود ماحولیات، ملاوٹ زدہ خوراک، جنگی جنون الغرض ہر مردم دشمن مظہر کے خلاف تھا۔ نوازشریف کے دور میں جب چاغی کا پہاڑ راسکوہ ایٹمی دھماکوں کا شکار ہوا تو ماما عبداللہ جان کاروہانسی ہونا ہمیں یادہے۔ وہ ضمیر نیازی کی کتاب ’’ زمین کا نوحہ‘‘ کے بار بار حوالے دیتاتھا۔ اُس نے ایٹمی دھماکوں کے خلاف گودی گوہر ملک کا افسانہ ’’بلوچامناں تیلانک دات‘‘ (بلوچ نے مجھے دھکا دیا)سینکڑوں لوگوں کو پڑھوایا تھا۔اُسے غیر پیداواری اخراجات سے ، اسلحہ کی دوڑ سے اور بالخصوص ایٹمی اسلحہ کی دوڑ سے شدید نفرت تھی۔
میر عبداللہ جان کی سیاست کا ایک اہم حصہ ٹریڈیونین ازم تھا۔ اس نے سندھ اور بلوچستان کے نہری علاقوں میں کسانوں کو منظم و باشعور بنانے میں بہت کام کیا۔ کسانوں پر سرداری ٹیکس ’’ ششک‘‘ کے خلاف جدوجہد کی اور مزدوروں کی تنظیم کاری کے لیے بہت کوششیں کیں۔
وہ عورتوں کو سماجی تبدیلی کا بہت اہم حصہ سمجھتا تھا۔ عورتوں کی تعلیم، ان کو باشعور بنانے اور ان کے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے لیے انھیں منظم کرنا عبداللہ جاب کے مشن کا اہم حصہ تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کی ڈیوٹیاں لگاتا تھا کہ عورتوں کو سیاست میں شامل کرنے کا کام کرتے رہا کریں۔
جب سوویت یونین مستی اور اپنی ہی فربہی کے سبب ٹوٹ گیاتو بہت سے احباب کی سیاست کے اونٹ کا گویامہارٹوٹ گیا۔ وفاداریاں تبدیل ہوگئیں ، پارٹیوں کے نعرے اور منشور سبز رنگ کے ہوتے گئے اور خاک نشینوں کے کئی طرفداروں نے محل مکینوں کو سجدہ کرنا شروع کیا۔مگر عبداللہ جان کی سیاست کے سابقہ لاحقہ میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ ماما وہیں کھڑا رہا جہاں پچھلی صدی کے وسط میں نائب تحصیلداری جیسی اُس وقت کی بہت بڑی نوکری کو ٹھوکر مار کر کھڑا ہو گیا تھا ۔
موجودکو مسترد کرنے والایہ شخص کبھی بھی گزارش کرنے والا سیاسی ورکرنہ رہا۔عوام کا یہ طرفدارانقلابی طبقاتی سماج کا خاتمہ چاہتا تھا۔ وہ عوام الناس کی بے چینیاں بڑھاتا تونہ تھا، مگرانسانوں کی بڑھتی بے چینیوں کو ترتیب ضرور دیتا تھا۔وہ بے نان ولباس آدم زادوں کومایوسیوں میں بھٹکنے نہ دیتا تھا، وہ انہیں انسانیت کے روشن مستقبل کی متبادل راہ دکھاتا تھا۔
ہر وقت ایک متبادل سیاسی پارٹی کے قیام کی اُس کی کوششیں نعرے بازی سے پاک تھیں ۔ وہ سیاسی کام ڈنڈے اور دھمکی سے نہیں بلکہ قائل کرنے ، اور دل وذہن پر قبضہ کرنے سے کرتاتھا ۔ وہ صحافت، پبلشنگ ، اکٹھ اوراجتماع کے توسط سے اپنی سیاست آگے بڑھاتا رہا۔ وہ لفظ چیدغ سے لے کر پروگریسورائٹرز ایسوسی ایشن تک، اور وہاں سے لے کر سنگت اکیڈمی تک اِسی دھیمے پن کے ساتھ ایک پوری نسل کی سیاسی تربیت کرتا رہا۔
یوں،نوے کی دہائی میں وہ بالآخر سیاسی ذہن رکھنے والے دانشوروں کا ایک ٹھوس گروپ قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اُس گروپ پہ پہلے مامی زبیدہ جمالدینی کے ذریعے بلوچستان جمعہ پارٹی یعنی B J Pکا نام پڑا، بعد میں سرکاری چھٹی اتوار کو ہوئی تو ہماری یہ بی جے پی،بی ایس پی یعنی بلوچستان سنڈے پارٹی میں ڈھل گئی۔ اُس کی یہ سنڈے پارٹی اب چھبیسویں برس میں داخل ہوچکی ہے ۔
دونکات پہ یہ پارٹی چل رہی ہے۔ ایک: موجودہ سیاسی بساط جاگیرداروں کی بچھائی ہوئی ہے جس میں عوامی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے متبادل کی تلاش ۔ دو : ایسا متبادل جو فرقہ ونسل کے امتیازسے بلند ہو۔
ماما عبداللہ جان جسمانی طور پر اب ہم میں موجود نہیں ہے ۔ اُس کا کوئی سردوگرم چشیدہ ہم عمربھی اب ہم میں نہیں ہے ۔چنانچہ دانش و ادب اور سیاسی راہنمائی میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوچکا ہے ۔ مگر اس سب کے باوجود زندوں کو تو زندگانی گزارنی ہوتی ہے، یک نفری نہیں تو collectiveذہن کو بہر حال کام کرتے رہنا ہے۔
ہم محبت کے بجھتے جاتے مشعلوں کے محض ماتم کنندگان بالکل نہیں ہیں۔نہ ہمیں اپنے ہیروؤں استادوں کے پاؤں کے چھالوں پہ نوحہ خوانی نہیں کرنی چاہیے۔ ایسی محفلیں تو اس لیے برپا کرنی چاہییں تاکہ سائنسی فکر کا بستہ تھا مے اِن بنجاروں کی تعلیمات کو عام اور جاری رکھا جاسکے۔ عبداللہ جان انسان کی نجات کے جوخواب دیکھتا تھا اُن خوابوں کو لے جاکر روہانسی پلکوں پہ سجانے کی محنت کی جائے ۔ خود کو یہ یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ ابھی رات ہی ہے۔ گوہر جتنی کی ڈاچیوں کے شتر بچوں کے چرواہے ابھی بے تعلیم بے روزگار اور بے بس ہیں۔ شہ مرید کی محبت ابھی زورآ ور چاکر کی ماڑی میں بند ہے، مست کی سموکے پاؤں ابھی تک بے پاپوش ہیں۔۔۔ بھر پور انسانی جمہوری آزادیاں لانی ہیں۔
آج کا سماج وہی ہے جو عبداللہ جان کے وقت تھا۔کچھ بھی نہ بدلا۔ داخلی طور پر ہمارا معاشرہ اُسی طرح مکمل طور پر فیوڈل اور ما قبل فیوڈل دورکے زن کدن میں ہے۔ ہم سیاسی ، معاشی اور معاشرتی طور پر ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے ہیں۔مہنگائی کی تیز رفتار کے سامنے ہمل رند کی گھوڑی بھی کچھو الگے۔ بے روزگارروں کی تعداد سے چنگیز خان کی فوج تشکیل پائے اور سرکار کے جھوٹ کے سامنے سی این این بھی عاجزی مانگے۔
پڑوس میں دیکھیے تو افغانستان اُسی طرح بڈھے دانت کی طرح پنگھوڑے پینگ رہا ہے۔مودی کے دورکا ہندوستان فاشزم اور فنڈامنٹلزم کی ذلت میں ہم جیساہی ہوچکاہے اور مشرق وسطیٰ جوار کی روٹی کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہے ۔
لہٰذا ‘اگلے پانچ سال ہمیں وہی کچھ کرنا ہے جو کچھ عبداللہ جان کرتا چلاآرہا تھا۔ وژن وہی ماما کا رہے گا، پرچم و نعرے اور منشور اُسی کے ہوں گے، ہمارا کام بس مستقل مزاجی سے اُس پہ چلنا ہے، چلتے رہنا ہے ۔ سیاہ سرنگ سے نجات کاروشن دھانہ ضرور آئے گا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے