سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ پوہ زانت نشست کا انعقاد مورخہ 26فروری 2017پروفیشنل اکیڈمی میں 4بجے ہوا۔ جس کی صدارت وحید زہیر نے کی اور نظامت کے فرائض عطااللہ بزنجو نے سرانجام دیئے۔
حسن ناصر نے اپنا افسانہ ’’تیرونک ‘‘ پیش کیا جو براہوئی زبان میں تھا۔افسانہ علامتی زبان میں تھا۔ جس میں ایک گنگ کردار دوسرے کو اپنی بات نہیں سمجھا سکتا تھا کیو ں کہ وہ بہر ہ تھا۔یہ افسانہ اس پس منظر میں پیش کیا گیا جس میں مواصلاتی نظام کی اعلیٰ ترقی کے باوجود ایک انسان کا دوسرے سے رابطہ اور رشتہ کٹ گیا ہے۔تنہائی ، بیگانگی اور دُوری کے احساسات انسان کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں ، جس کے سماجی رشتے انتہائی کمزور اور شکست وریخت کا شکار ہیں۔ افسانے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں نے کہا کہ افسانے میں ڈرامائی تاثر ، خو ب صورت علامات اور زبان وبیان کی شیر ینی اس کے تاثرات میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس افسانے میں گنگ انسان کہہ نہیں پاتا ہے اور بہرہ انسان سُن نہیں پاتا ہے۔ وحید زہیر نے کہا کہ افسانہ بہت اچھا ہے اور علامتی زبان میں ہے ۔ افسانہ نگار نے صورت حال کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر عطااللہ نے کہا کہ افسانہ تیرونک زبان وبیان کے لحاظ سے بہت خوب صورت ہے اور اس میں موجودہ دور کی کیفیات کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔ دیگر شرکا نے بھی افسانے کی بے حد تعریف کی ۔
اس کے بعد عطااللہ بزنجو نے اعلان گوادر (Gawadar Declaration)پڑھ کر سنایا جو گزشتہ دنوں گوادر بک فیئر میں منظور کیا گیا تھا ۔
غریب شاہ انجم نے براہوئی اور اردو میں اپنی شاعری سنائی اور سامعین سے بہت داد وصول کی۔ بعدازاں عابدہ رحمن نے اپنی ایک نظم ’’میں آزاد ہوں‘‘ پیش کی ۔ جسے حاضرین نے سراہا۔ اس کے بعد ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں نے دانیال طریر کی یاد میں ایک نظم ’’زود قدم ‘‘ پڑھ کر سنائی ۔ جو بہت سوگوار تھی۔ جس نے قارئین کو غم زدہ کردیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر عطااللہ بزنجو نے دانیال طریر مرحوم پر اپنی ایک نظم بہ عنوان ’’دانیال کے لیے‘‘ پڑھی ۔
اس کے بعد میر گل خان نصیر کی صاحبزادی گل بانو اور ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں کے عزیزوں کی وفات پر فاتحہ خوانی کی گئی اور ان کے لیے تعزیتی دعا کی گئی۔ آخر میں وحید زہیر نے صدارتی کلمات ادا کیے اور کہا کہ اعلان نا مہ گوادر اہم دستاویز ہے ۔ حسن ناصر کا افسانہ اچھا تھا۔ غریب شاہ انجم ، عابدہ رحمن ، منیر رئیسانڑیں اور عطااللہ بزنجو کی نظمیں بہت خوب صورت تھیں، جنہیں سن کر بہت خوشی ہوئی ہے۔
اس کے بعد چائے نوشی کے ساتھ اس نشست کے اختتام کا اعلان کیا گیا ۔

گل بانو مینگل
میر گل خان اور محترمہ گوہر ملک پر ریسرچ کرنے والوں کی آخری ریسورس پرسن، محترمہ گل بانو کا انتقال ہوگیا۔ وہ میر گل خان کی بیٹی تھی، اور اس لحاظ سے اس صدر الشعرا پر ایک اتھارٹی تھی۔ اسی طرح بلوچی زبان و ادب کی ایک اور روشن ستارہ محترمہ گوہر ملک کی وفات کے بعد اس کی اِس چھوٹی بہن نے اُس کے شائع شدہ یا غیر مطبوعہ مواد کی خوب دیکھ بحال کی ا ور انہیں چھپوانے اور محفوظ رکھنے میں اہم رول ادا کردیا۔
محترمہ گل بانو ہمیشہ ہمیں ٹیلی فون پر ’’ منی برات، برات‘‘ کہہ کر دھمکی دیتی تھی کہ مواد اور معلومات جتنی جلد ممکن ہومجھ سے لے لو، بعد میں مر جاؤں گی تو افسوس کرتے رہو گے۔ ہم نے اس سلسلے میں کچھ کیا یا نہیں مگر وہ باہمت خاتون اپنی نا ساز صحت کے باوجود شاپروں بیگوں میں وہ مواد ہم تک پہنچاتی رہی۔چنانچہ کچھ یادیں باتیں ایسی ضرور ہوں گی جو وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گئیں وگرنہ تحریری مواد سب کا سب جو اُن کے پاس تھا ہمیں دی گئیں۔ اس کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ اس نے اپنی جیب سے اپنی زندگی میں میر گل خان کے کلیات چھپوائے۔
ڈاک کے نظام کی غیر یقینی کی وجہ سے ہماری یہ میٹھی بلوچ بہن رسالہ خود منگوالیتی تھی۔ وہاں اس کے والد اور بہن کی چیزیں جو چھپتی تھیں۔ اس کا سارا اصرار اس بات پہ تھا کہ اس کے والد کی پروگریسو سوچ سلامت رہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے