خواتین جو معاشرے کا پچاس فیصد ہوتی ہیں اور خاندانی اور سماجی معاملات کو نبھانے کی تقریباً سو فیصد ذمے دار ہوتی ہیں، کیا انھیں اس کردار کو ادا کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو ایسا نہیں ہے۔ وہ تعلیم و تربیت اور دانش جو بچوں کی پرورش سے لے کر معاشی اور صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے، اس کے لیے لڑکیوں کو کس طرح تیار کیا جائے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں مضبوط قدم رہے۔ یہ ہمارے روشن خیال دانش ور ہی تھے جنھوں نے برسوں سے رائج ایسے سماجی نظام کو بدلنے کے لیے خود کو وقف کردیا جس میں لڑکی اور عورت کو انسان سے کم تر مخلوق کم زور اور ناقص العقل سمجھا جاتا رہا ہے اور ان منفی مفروضات کو ثابت کرنے میں قلم و منبر دونوں سے کام لیا گیا۔
پورے برصغیر کے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے حقوق کو اہمیت دینا تو کیا انھیں صرف ملکیت سمجھا جاتا تھا، اس طرح ان کی خرید و فروخت، تحفے میں دنیا اور جان سے مار دینا تک روا رکھا گیا۔
ایسے تقصیر جہول اور تفسیر ظلوم معاشرے میں ماما جمالدینی کی زندگی کو دیکھتے ہیں اور ان کی تحریروں کو پڑھتے ہیں تو اپنی دانش اور بصیرت میں نابغۂ روزگار ہستی نظر آتے ہیں۔
ان کی ساری زندگی کُھلی کتاب کی طرح ہم سب کے سامنے ہے۔ اس کتاب کے تمام اوراق اُخوت، مساوات اور اعلیٰ انسانی قدروں کے ایسے اسباق ہیں جنھیں ازبر کرلیا جائے اور ان پر عمل کیا جائے تو بلوچستان کیا کوئی بھی معاشرہ تہذیب کی راہ سے جدا نہیں ہوسکے گا۔ سدا اس پر گامزن ہی رہے گا۔ شفقت اور محبت کے پیکر امر ہوجاتے ہیں اور ان کی یاد بھی محبت کی لَو دیتی ہے۔ یہ لَو دلوں میں وہ گداز پیدا کرتی ہے جو آدمی کو انسان بنانے کے لیے ضروری ہے۔
ماما عبداللہ جان جمالدینی کی پوری زندگی استحصال اور عدم مساوات کے خلاف ایسے فکری و عملی اقدامات میں گزری جن کے اثرات ان کی زندگی ہی میں پوری طرح ظاہر ہوگئے تھے۔ ایک طرف ان کی تصنیفات خصوصاً ’’لٹ خانہ‘‘ ہے جس میں افکار و اعمال دلچسپ انداز میں تحریر ہوگئے ہیں تو دوسری طرف ان کے مضامین ہیں۔ پھر ایک پوری جیتی جاگتی نسل ہے جسے مسلسل ماما کی صحبت نصیب رہی۔ یہ نسل ان کی تربیت، ان کی فکر، ان کی تحریر سے مستفیض ہوئی اور تقلید کے آداب بھی جانتی ہے۔
ماما جو بذات خود استادوں کے مداح تھے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلوچستان میں تعلیم کو عام کرنے میں متحرک رہے۔ انھوں نے صرف درس گاہوں میں ہی نہیں فکری تربیت کے غیر رسمی ذرائع بھی امکان بھر استعمال کیے۔ ’’لٹ خانہ‘‘ سے شروع ہونے والی یہ فکری تربیت گاہ جمعہ پارٹی اور اتوار پارٹی کی صورت میں آخیر وقت تک ان کے گھر میں قائم رہی۔
ماما کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جو بھی ان سے ملا ہے جس میں، میں خود بھی شامل ہوں اس نے ان کے نظریات اور عمل میں تضاد نہیں پایا۔ عورت کا احترام زبانی کلامی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اور عملی میدان میں برابری کی سطح پر قائم رکھنے کے لیے اس بے مثال انسان نے اعلیٰ مثالیں چھوڑی ہیں۔ وہ اپنی والدہ، پری جان کو اس لیے بھی محترم جانتے تھے کہ ان کی تربیت میں اس عظیم خاتون کا بڑا حصہ تھا۔ وہ بخارا کی سیدانی تھیں اور اچھی انسان ہونے کے ساتھ نیکی اور سچائی کی مدرّس بھی۔ ایک بڑے انسان کو پروان چڑھانے کا اولین فریضہ عظیم ماں ہی انجام دے سکتی ہے۔ بی بی پری جان نے اپنی اولادوں کو علم، انسانیت، محبت اور مثبت روایات کے ورثے سے ایسا مالا مال کیا کہ وہ اسے دوسروں میں تقسیم کرتے رہے۔ ماما کی عملی جدوجہد بھی ایک اور عظیم خاتون کی بہادری سے متاثر ہے۔ وہ خاتون کسی افسانوی کردار کی طرح ماما کے سامنے آئی اور ان کی یادوں کا حصہ بن گئی۔ گل بی بی نامی مشہور جنگ جُو کمانڈر لیڈر جس نے انگریزوں کی افواج سے دو بدو مقابلہ کیا تھا۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر شاہ محمد مری لکھتے ہیں:
’’عبداللہ جان جمالدینی خود بھی اس عظیم خاتون سے بہت متاثر ہیں جنھیں انھوں نے اس وقت دیکھا تھا، جب وہ اُن کے چچا فقیر جان سے ملنے آئی تھیں۔ وہ اُنھیں نسبتاً فربہ خاتون کی طرح یاد کرتے ہیں۔ جنھوں نے سینے پہ دو رویہ کار توسوں بھرا پٹّا سجا رکھا تھا اور کندھے پہ بندوق رکھی تھی۔ جمالدینی کی معلومات کے مطابق اور بھی کئی خواتین نے جنگ آزادی لڑی تھی (جن کے نام کی ڈاک ٹکٹیں کبھی نہ بنیں) مگر گل بی بی اُن میں بہادر ترین دل، ذہین ترین دماغ اور بے پناہ مذاکراتی مہارت رکھتی تھیں۔‘‘
ان خواتین کے بارے میں ماما جمالدینی کے معتبر قلم سے لکھی تحریر پڑھتی ہوں تو بہت حوصلہ ملتا ہے۔
بلوچستان جہاں قبائلی، سرداری اور طبقاتی نظام کے تحت عورت پر ہزاروں پابندیاں عائد تھیں، ایسے معاشرے میں ماما جمالدینی نے خواتین کا احترام کرکے اپنی بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر تعلیم دلا کر اور خاندان کی لڑکیوں کو اعلیٰ ترین تعلیم کے حصول کے لیے تاکید کرکے ایسے رویے کی بنیاد ڈالی جو روز بروز مستحکم ہوتا رہا جس کا نتیجہ آج بلوچستان میں خوش فکر نسل کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ اس نسل میں لڑکی اور لڑکے کی کوئی امتیاز تفریق نہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم کے یکساں مواقع مل رہے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں روشن کیا جانے والا چراغ جہاں پروفیسر کرار حسین اور عبداللہ جان جمالدینی نے مخلوط اعلیٰ تعلیم کی بنیاد ڈالی تھی۔ اب اس کی روشنی دیگر اداروں تک پھیل گئی ہے۔ اس درس گاہ سے سند پانے والی خواتین اب اساتذہ ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے کوئٹہ میں سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی جانے کا موقع ملا تو وہاں کی اساتذہ اور طالبات کا علمی و ادبی ذوق دیکھ کر ان بزرگوں کی عقیدت اور بھی سوا ہوگئی جنھوں نے اپنی بیٹیوں کو درس گاہوں میں بھیج کر لڑکیوں کے لیے تعلیم کے دروازے کھول دیئے تھے۔ ماما جمالدینی کی اپنی بیٹیاں، بھانجیاں تعلیم یافتہ ہیں اور تدریس سے وابستہ ہیں۔ یہاں سے گوہر ملک جیسی افسانہ نگار پیدا ہوئیں جن کی حوصلہ افزائی ماما اور ان کے رسالے ’’سنگت‘‘ نے اس طرح کی کہ افسانے میں ایک منفرد کہانی کار کا اضافہ بلوچستان کے خطے سے ہوا۔ اس خطے سے جہاں رابعہ خضداری کے وجود کی نفی کی گئی تھی اور لکھنے والی کا ہاتھ ہی نہیں سر قلم کردیا گیا تھا۔
ماما کی ایک بھانجی شازیہ جمالدینی نے جس کی انھوں نے اپنی بیٹیوں کی طرح ہی ذہنی تربیت کی، نے بتایا کہ ماما ہمیشہ ان کی تعلیم کے بارے میں سوالات کرتے رہتے اور اس سلسلے میں رہنمائی بھی کرتے۔ جب میں نے بی ایڈ کرکے حصولِ تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا تو ماما نے مجھے آگے پڑھنے کی تاکید کی اور ان کی تحریک پر میں نے ایم اے سوشیالوجی اور پھر ایم ایڈ کیا۔ آج میں سکول کی ہیڈ مسٹریس ہوں اور ماما کی دی ہوئی روشنی میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جو کچھ کرسکتی ہوں، کر رہی ہوں۔ میرے سکول میں زیادہ تر غریب لڑکیاں آتی ہیں، میں انھیں کیسے بھی حالات ہوں، سکول چھوڑنے نہیں دیتی۔ میٹرک کے امتحان کی فیس جو جمع نہیں کر پاتیں، اس کا اور وظائف کا کسی نہ کسی طرح انتظام کرلیتی ہوں۔ لڑکیوں کو تعلیم دینے کا یہ جذبہ مجھے ماما سے ہی ملا ہے۔ میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ کوئی بچی سکول چھوڑنے پر اس لیے مجبور نہ ہو کہ اس کے پاس کتاب، یونی فارم یا فیس کی استطاعت نہیں۔ اور پھر تعلیم کے بعد میں نے عملی زندگی اختیار کی۔ یہ بھی ماما کی رہنمائی کا نتیجہ ہے اور میں خوش ہوں کہ میں ایک کارآمد فرد ہوں۔ میری ایک کزن بھی نوشکی کالج میں لیکچرار ہے۔ ماما کی یادوں میں انھیں سوئڈن سے آئی ہوئی کارینا اور زینت ثنا جنھیں ماما نے پی ایچ ڈی کروائی تھی، آئیڈیل نظر آتی ہیں۔
ماما کی تعلیم یافتہ بیٹیوں میں سے ایک بیٹی عابدہ عزیز سے میری بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ’’ان کے والد کا رویہ ان سے دوستانہ تھا۔ انھوں نے کبھی بھی لڑکے اور لڑکیوں میں فرق نہیں سمجھا اور سب کو برابر کی تعلیم دلائی اور ایسی تربیت کی جس میں کوئی تفریق نہیں تھی۔‘‘ اپنے بھائیوں کے بارے میں بتایا کہ ’’وہ رویوں میں ماما جیسے ہی ہیں۔‘‘
میری اپنی یادوں میں جہاں ان کا اپنے قلم سے کتاب پر دستخط کر کے دنیا اور نوشکی میں اپنے دسترخوان پر کھانا کھلانا اور ساری زندگی بہن کے رشتے کو نبھانا شامل ہے، وہاں کوئٹہ میں خرابی صحت کے باوجود فہمیدہ ریاض کی تنظیم ’’وعدہ‘‘ کی جانب سے منعقدہ نسائی ادب پر کانفرنس میں شرکت اور گفتگو کا گہرا نقش دل و دماغ پر ہے۔ اس کانفرنس میں جو ’’نسائی تحریر کی قوت‘‘ کے عنوان سے ہوئی تھی اور ’’سنگت‘‘ کی شرکت سے مضبوط ہوئی تھی بلوچستان کی اہل قلم خواتین سے پہلا تعارف ہوا تھا۔ اب تو ماما کی زندگی ہی میں سموراج جیسی انجمن قائم ہوگئی ہے جس میں لڑکیوں کی ایک نمایاں تعداد فکر و عمل کے میدان میں متحرک ہے۔ شکر ہے کہ ماما کے لگائے ہوئے تناور شجر بنے اور ان کی چھاؤں میں نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ ماما جمالدینی نے اپنے ایک مضمون میں چند ایسی خواتین کا ذکر بڑے احترام سے کیا تھا جن سے ملاقات کر کے اور ہاتھ ملاکے انھیں خوشی اور حیرانی ہوئی تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے ہی باوقار مساوی فرد دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنے مضمون میں سبط حسن کی صاحبزادی نوشابہ، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، افضل توصیف، طاہرہ مظہر علی، ایلس فیض، سلیمہ ہاشمی، منیزہ ہاشمی، سعیدہ گزدر، زاہدہ حنا، بیگم شاہ محمد مری، ثبینہ رفعت، نوشین قمبرانی کی تعریف کرتے ہوئے کیسا خوب صورت جملہ لکھا ہے۔
’’زندہ رہیں یہ پاکستان کی باوقار خواتین اور ان کی یہ عالمانہ اور محبت بھری روایات اور پاکستان میں روشن خیالی کا طریقہ۔‘‘
ماما کی جدوجہد اور دعا اور دونوں ہی نے امکانات کی اتنی راہیں کھولی ہیں جس پر بلوچستان کی نئی نسل اپنا سفر اسی طرح جاری رکھے گی جیسے ماما اور ان کے ساتھیوں نے اور ان کی بعد کی نسل نے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری جو ان کے بے حد قریب رہے، انھوں نے ماما پر لکھی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ:
’’عبداللہ جان زندگی بھر فرسودہ رسوم و روایت کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ عورت کی تربیت اس طرح ہو کہ وہ اپنا اچھا برا خود سمجھ سکے اور اپنی حفاظت خود کرسکے۔ وہ عورت کی معاشی آزادی کو بھی بہت زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں عورت معاشی طور پر شوہر کی دستِ نگر نہ ہو تو اس کی سماجی آزادی اور برابری کی راہیں خود بخود صاف ہوتی رہیں گی۔ پروفیسر جمالدینی بلوچ معاشرے میں عورتوں کی نجات کے لیے ایک مضبوط تحریک کی ضرورت شدت سے محسوس کرتے تھے۔ ان کے خیال میں عورت مشقت کی ایک مشین بنا دی گئی ہے۔ میلوں دور سے پیٹھ پر پانی اور لکڑی لاد کر لاتی ہے، غلام سے بھی بدتر حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر مری نے ماما کی خواہش کو ان کی زندگی میں پورا کیا اور ’’سموراج‘‘ نامی تنظیم قائم کی جس میں اس وقت بہت سی لڑکیاں اور خواتین بے حد متحرک ہیں۔ یہ لڑکیاں باشعور ہیں اور جانتی ہیں کہ اس سماج میں ان کا اصل مقام کیا ہے۔ وہ اب خاموش تماشائی نہیں بلکہ اپنا بھرپور اظہار بھی کر رہی ہیں۔
عبداللہ جان جمالدینی ادیب تھے اور اس سے کہیں بڑے ادیب گر تھے۔ انھوں نے ابتدائی دنوں میں چند برس تحصیل داری کی۔ اس دور میں انھوں نے انسانوں کو بدترین مفلسی کے جہنم میں جھلستے دیکھا اور عورتوں کو بے بسی کی چکّی میں پستے دیکھا۔ سردار، جاگیردار اور افسرانِ سرکار جس طرح کاشت کاروں کا استحصال کرتے تھے، وہ ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ تمام عمر سرداروں اور جاگیرداروں سے، سرکار کے کارپردازوں سے اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔ انھیں یقین ہوگیا کہ جب تک بلوچستان سے جاگیرداری اور سرداری ختم نہیں ہوگی، اس وقت تک ایک عام بلوچ کی زندگی سہل نہیں ہوگی۔ بلوچستان کی پس ماندہ اور پچھڑی ہوئی عورت کا غم انھوں نے دل سے لگا لیا۔ وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ کوئی بھی سماج اس وقت تک پرواز نہیں کرسکتا، اڑان نہیں بھر سکتا جب تک اس کی لڑکیاں اور عورتیں تعلیم سے بہرہ ور نہ ہوں۔ انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کی خصوصی سرپرستی کی اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بلوچستان کی بہت سی لڑکیوں اور عورتوں کے ذہن علم سے منور ہیں اور وہ ہر میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ عبداللہ جان جمالدینی کی عطا ہے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر خیال آتا ہے کہ اب جب کہ وہ ہم سے جدا ہوگئے ہیں، بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کن مشکل مرحلوں سے گزرے گی۔
وہ عورتوں کے لیے ایک شجرِ سایہ دار تھے۔ ان کے پشت پناہ تھے۔ اب جب کہ یہ شجرِ سایہ دار اپنا سرسبز سایہ سمیٹ کر رخصت ہوا اور ان کی پشت پناہی سے بلوچ عورت محروم ہوئی، تو اب وہ کون سی ہستی ہوگی جو آگے آئے اور ان کے ہاتھ سے گرے ہوئے نسائی حقوق اور عِلم کے عَلم سمیٹ کر اٹھائے، انھیں اپنے شانے پر رکھے اور اسی استقامت سے آگے بڑھتا جائے جو کہ عبداللہ جمالدینی کی ادا تھی۔