پروفیسر عبداﷲ جان جمالدینی بلوچستان کے ایک نامور ترقی پسند دانش ور تھے۔ انھوں نے بلوچستان کے عوام میں آزادی کا شعور اور عہدِ حاضر کے مسائل سے آگاہی پیدا کی۔ اس طرح ان کی خدمات کا دائرہ ہمہ جہت اور متنوع ہے۔ وہ ایک شایستہ، مہذب، انسان دوست اور دردمند شخصیت کے مالک تھے۔ اسی لیے اہلِ بلوچستان اور ان کے دیگر معتقدین انھیں ’’ماما‘‘ کے دلنواز خطاب سے یاد کرتے ہیں۔ عبداﷲ جان جمالدینی کی خدمات کے کسی ایک پہلو پر بھی لکھنے کے لیے کم سے کم ایک پوری کتاب کی ضرورت ہے لیکن دامنِ وقت کی تنگی کے پیش نظر میں ’’ماما‘‘ کی زندگی کے ایک اہم گوشے یعنی تعلیم و تدریس کی نسبت سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
پروفیسر عبداﷲ جان جمالدینی اور ان کے برادر آزاد جمالدینی سے میری نیازمندی دیرینہ تھی اور ان کی صحبتوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ تاہم میری خوش نصیبی کہ جب کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی قایم ہوئی اور کرار حسین صاحب جب اس کے وائس چانسلر مقرر ہوے تو میں نے بھی بلوچستان یونیورسٹی سے تدریس کے فرائض کا آغاز کیا۔ جس طرح انسان اپنی پہلی محبت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا اسی طرح میں بلوچستان سے اپنے اس تعلق کو ہمیشہ یاد رکھتا ہوں۔ مجھے یہاں توسیع ذات کا احساس ہوا:
بہت عجیب ہے توسیع ذات کا احساس
حدود جاں سے الگ، چار سو میں زندہ ہوں
اسی زمانے میں پروفیسر عبداﷲ جان جمالدینی بھی اساتذہ کے عملے میں شامل تھے۔ آپ کی موجودگی ہم سب کے لیے بڑی تقویت کا باعث تھی۔ اُس زمانے میں تین مسائل خاص طور پر اہم تھے۔ ایک یہ کہ بلوچستان میں تو ابھی ابتدائی تعلیم کا بھی معقول بندوبست نہیں ہے پھر یونیورسٹی قایم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ مخلوط تعلیم نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بلوچ روایات کے خلاف ہے۔ تیسرے یونیورسٹی کی سطح پر تدریس کا کام کرنے والے بلوچ اساتذہ اس وقت دستیاب نہیں ہیں اس لیے یونیورسٹی کے قیام کو معطل رکھا جائے۔
بلوچستان میں اس وقت غوث بخش بزنجو اور سردار عطااﷲ مینگل کی حکومت تھی۔ یہ ترقی پسند لیڈر جمہوریت آزادیِ اظہار اور امن و انصاف کی جنگ لڑتے رہے ہیں۔ انھی حالات میں بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ نے بھی جمہوری عمل کو تیز کرنے کی مہم چلائی جس میں پروفیسر جمالدینی پیش پیش تھے۔ یہ تینوں مسائل جن کا اوپر تذکرہ ہوا ہے پروفیسر کرار حسین اور پروفیسر جمالدینی کی قیادت اور جدوجہد کے نتیجے میں حل ہوئے۔
مخلوط تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اور اب جامعہ بلوچستان کی تحصیل یافتہ خواتین نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی احسن طریقے سے اپنے فرائض منصبی ادا کر رہی ہیں۔
ایک استاد کی حیثیت سے پروفیسر جمالدینی کو رول ماڈل اور Mentor کہا جانا چاہیے۔ وہ نہ صرف اپنے مضمون کی تدریس میں ایک خاص اسلوب رکھتے تھے بلکہ طالب علموں سے نہایت شفقت سے پیش آتے تھے۔ جامعہ بلوچستان میں ان کا کمرہ طلبہ کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا جہاں تعلیم و تدریس کے علاوہ ترقی پسند نظریات اور جمہوری اقدار کی پاس داری کے بارے میں معلومات افزا گفتگو جاری رہتی تھی۔
خود پروفیسر جمالدینی کی خواہش تھی کہ بلوچستان کے بعض دیگر قائدین کی طرح وہ بھی سرسید احمد خاں کی قایم کردہ علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں لیکن بہ وجوہ ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ چناں چہ آزمایش اور ابتلا کے کئی ادوار سے گزر کر جمالدینی صاحب نے اسلامیہ کالج پشاور سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اسلامیہ کالج کے ماحول میں انھوں نے جمہوریت، ترقی پسندی اور اعلا انسانی اقدار کے بارے میں جو نظریات اپنائے تھے وہ آخری وقت تک ان کے ذہن و ضمیر کا حصہ رہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں اس وقت نئے اساتذہ کے ساتھ ساتھ وائس چانسلر پروفیسر کرار حسین، ڈاکٹر بندے حسن، ڈاکٹر محمد احسن فاروقی، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر وارث اقبال، پروفیسر شکراﷲ، پروفیسر بہادر خاں، پروفیسر تنویر جہاں تیموری، پروفیسر عبداﷲ جان جمالدینی، پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر خلیل صدیقی، پروفیسر شمیم احمد، ڈاکٹر اقبال محسن ، بہ طور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس وقت طلبہ کی یونین بھی قایم ہوئی اور اساتذہ کی انجمن کی داغ بیل بھی پڑی۔ طالب علموں میں اپنے حقوق کی جدوجہد اور اساتذہ کے مسائل کے حل کے سلسلے میں بھی پروفیسر جمالدینی نے غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ تدریس کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ذہنی تربیت کو بھی وہ خاص اہمیت دیتے تھے۔
عبداﷲ جمالدینی دامے، درمے، سخنے، قدمے، طلبہ کی مدد کرتے تھے۔ جہاں تک ہوتا ان کی فیس اور کتابوں کے لیے کوئی انتظام کر دیتے تھے۔ اس وقت کئی طلبہ ملازم پیشہ بھی ہوتے تھے چناں چہ طالبات کی اکثریت صبح کی کلاسوں میں اور طلبہ کی اکثریت سہ پہر کی کلاسوں میں آتے تھے اور بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ ایک دن میں دو مرتبہ وہی نصاب پڑھاتے تھے جس کا آغاز صبح ہوتا تھا۔ ان میں پروفیسر جمالدینی تن دہی اور ذمے داری سے اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔ اور یہ سلسلہ یوں چلتا رہا کہ عبداللہ جان لینگوئجز کا باقاعدہ ڈیپارٹمنٹ بنانے میں آخرکار کامیاب ہوا۔ بلوچستان سٹڈیز سنٹر کا قیام بھی ایک اور کارنامہ تھا۔ پھر تو بات ماسٹر سے آگے ایم فل اور پی ایچ ڈی تک پہنچ گئی۔ اب تک کئی طالب علم ایم فل اور پی ایچ ڈی کرچکے ہیں سینکڑوں ڈگری کے حصول کے لیے تحقیق و جستجو میں مصروف ہیں۔ اس کے طفیل بلوچستان کی پہلی پی ایچ ڈی خاتون زینت ثناء ایک تسلسل کی شکل میں خواتین کی تعلیمی استداد کا استعارہ کی مانند بن چکی ہے۔ اس کا مطلب ہے عبداللہ جان خواتین کی تعلیمی استعداد بڑھانے کا جو مشعل لے کر چلا تھا اس کی روشنی دور تک پھیل چکی ہے۔
پروفیسر جمالدینی کے تعلیمی مشن میں روشن خیالی اور خرد افروزی کا فروغ شامل تھا۔ اسی لیے وہ نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ طلبہ سے ان کا سلوک مشفقانہ، ہمدردانہ اور دوستانہ ہوتا تھا۔ وہ بعض بزرگوں کی طرح پندونصائح سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ مسائل پر سائنٹفک انداز میں غور و خوض کرنے کا راستہ ہموار کرتے تھے۔ نئی نسل کے ذہن انھوں نے اس طرح تیار کیے تھے کہ رفتہ رفتہ نوجوانوں میں فلسفہ، تاریخ اور سائنسی معلومات کے مطالعے کا ذوق بڑھا۔ طلبہ و طالبات کے مطالعے میں مارکس، اینگلز، اقبال، سید سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی، سید عباس جلالپوری، ابن حنیف اور ڈاکٹر شاہ محمد مری کی تصنیفات و تراجم شامل ہو گئے۔ چناں چہ میں ستّر کی دہائی کا آج کے بلوچستان کا موازنہ کرتا ہوں تو مجھے عبداﷲ جان جمالدینی اور ان کے تربیت یافتہ شخصیات کا فیضان نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ ماہ مجھے نوجوانوں سے متعلق ایک سہ روزہ کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جو کوئٹہ میں منعقد کی گئی تھی اور جس میں بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں سے بھی طلبہ و طالبات نے شرکت کی تھی۔ ان میں نوجوان اساتذہ اور بعض دیگر شعبوں میں کام کرنے والے نوجوان بھی شامل تھے۔ مجھے ان کی گفتگو اور ان کے خیالات سے آگاہی حاصل کر کے بے حد خوشی ہوئی۔ ان کے ذہنوں میں زمینی حقایق پوری طرح اجاگر ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں ایک منصفانہ، پُرامن جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے سائنٹفک اور ترقی پسندانہ فکر اور انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یقیناًاس فصل کے جواب لہلہارہی ہے سب سے پہلے بیج بونے والوں میں کامریڈ عبداﷲ جمالدینی کا نام ہے۔ ان کے تربیت یافتہ اذہان نے بلوچستان میں دانش و فکر کی سطح پر بہت ترقی کی ہے اور مجھے اس اعتبار سے بلوچستان کا مستقبل زیادہ تاب ناک نظر آتا ہے۔
یہ سب عبداللہ جان کی علم دوستی اور جدوجہد کا تذکرہ تھا۔ اب ان کے وژن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مادری زبانوں کو بنیادی تعلیم کا حصہ بننا ہے۔ بلوچستان سمیت ملکی سطح پر تعلیم کا مفت ہونا ناگزیر ہے۔ اساتذہ کی بہتر تربیت اور تنخواہوں میں اضافہ، تعظیم و تکریم کو آئینی کو ر دیا جانا چاہیے۔ جس سے نہ صرف اس شعبہ کو وقار نصیب ہوگا بلکہ اس سے علم کے اصل مقاصد بھی حاصل ہونگے۔ آخر میں یہ کہتا چلوں کہ بلوچستان اس لحاظ سے خوش نصیب ہے۔ جو ایسی توانا آوازوں کا جنم بھومی کہلاتا ہے۔