(1)
اگر عبداللہ جان جمالدینی کو محاورۃً ہفت زبان لکھاری کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگاکہ وہ کم از کم پانچ زبانوں میں تو لکھتے تھے۔ بنیادی طور پر انہیں بلوچی کا ادیب ہی مانیں گے کہ لکھنے کا آغاز انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ بلوچی سے کیا تھا۔ پشتو کتابوں کے ابتدائی مطالعے سے ان میں بلوچی زبان میں لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔1951ء میں ’’بلوچی زبان وادبئے دیوان‘‘کی تنظیم قائم ہوئی تو عبداللہ جان اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ اس اثناء میں وہ کلاسیکی بلوچی ادب کے عظیم ورثے سے روشناس ہوئے۔ 1953ء اُن کی زرخیزی کا زمانہ تھا۔ اس سال انہوں نے لیوٹالسٹائی کے روسی افسانے کابلوچی ترجمہ ’’نیستگاریں لوگ‘‘ کے عنوان سے کیا ۔ جو حیرت انگیز طور پربلوچ معاشرے کی عکاسی کرتاہے ۔ ان کے بڑے بھائی آزاد جمالدینی نے کراچی سے بلوچی کا ایک ادبی ماہنامہ ’’بلوچی ‘‘جاری کر رکھا تھا۔1957ء میں وہ ماہنامہ ’’بلوچی‘‘ سے جُڑ گئے اور براہِ راست بلوچی ادب کی خدمت کرنے لگے۔ انہی دنوں کراچی میں ان کی ملاقات سندھی اردو کے ترقی پسندادیبوں اور دانشوروں ، سراج میمن، نورالدین سرکی، صہبا لکھنوی، انوراحسن صدیقی اور اکبر بارکزئی سے ہوئی ۔ کراچی میں وہ سوویت خبرنامے ’’طلوع‘‘ سے بھی وابستہ رہے اور کئی سال بعد کوئٹہ آکر بلوچی اکیڈمی میں ریسر چ سکالر مقرر ہوگئے اور وہاں اپنے ایک سالہ قیام میں پورا بلوچی ادب کھنگال ڈالا۔
عبداللہ جان جمالدینی بلوچی افسانے اور بلوچی شاعری کی طرف گئے اور انہیں چُھو کر پلٹ آئے ۔ ان کا واحد بلوچی افسانہ’’پاکیں مہر‘‘ فارسی کے ایک افسانے سے ماخوذ ہے۔ بقول شاہ محمد مری ’’افسانے میں چونکہ پلاٹ فرضی بنانا پڑتا ہے اور فرضی کام عبداللہ جان نے کبھی کیا نہیں۔ چنانچہ افسانہ اُن سے نہ لکھا گیا۔ اسی سبب سے ،اُن سے شاعری بھی نہ ہوسکی‘‘۔لیکن بلوچی شعر اور افسانے سے دور رہتے ہوئے بھی عبداللہ جان کا نام بلوچی زبان اور ادب سے اس طرح جُڑا ہوا ہے کہ انہیں الگ الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔
ادب کا تیسرا بڑا شعبہ تحقیق ہے جس میں ماما جمالدینی نے کئی کمالات دکھائے ہیں۔ تحقیق کے شعبے میں ان کی کتاب ’’مُرگ مینا‘‘ اُن کا یادگار کام ہے۔جو اِس دریافت سے ایک صدی قبل گزر چکے تھے۔اس کتاب سے شاعر کے دونوں رنگ، مزاحمتی اور عشقیہ آشکار ہوتے ہیں۔میر عاقل خان مینگل کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’بلوچی دیوان کے مضبوط رکن پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی کو1952ء میں انہیں جمع کرنے اور اس کی چھان پھٹک میں جو محنت کرنی پڑی وہ تو اُسی زمانے کے ادیب ہی سمجھ سکیں گے۔۔۔۔اُس زمانے میں ٹیپ ریکارڈر کی سہولت میسر نہ تھی۔ حکومت کی طرف سے انہیں مدد کی بجائے جیل خانے ملے۔ان کے ساتھیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا تھا۔ مگر یہ بہادر اور باہمت انسان مشکلات اور غربت کے باوجود بلوچی زبان کی خدمت سے پیچھے نہ ہٹا۔‘‘
انہوں نے بلوچی کلاسیکی اور لوک ادب کا بھی بڑا خزانہ جمع کیا۔ اپنے مکران کے سفر میں انہوں نے مُلا فاضل کی شاعری کو پہلی بار متعارف کروایا۔ ان کے اپنے لفظوں میں:
’’مکران کے سیر سپاٹے نے میری زندگی کا ایک بڑا ارمان پورا کردیا۔ بلوچی
ادب کے بارے میں میری معلومات بڑھائیں ۔ میر عیسٰی قومی ، حسن زرگراور مُلا
اسماعیل جیسے نامور شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات اورماہنامہ بلوچی کے لئے
کچھ پیسہ بھی جمع ہوا۔‘‘
(ع ۔ ج ۔ جمالدینی ہفت روزہ عوامی جمہوریت ، لاہور7اپریل 1981ء ص۔5)
یہی نہیں انہوں نے توکلی مست، جام دُرک ، رحم علی اور جوانسال کی شاعری کے تنقیدی پیماے بھی وضع کئے اور بلوچی کی کلاسیکی شاعری کی قدر وقیمت کا تعین کیا۔ مکران سے مشرقی بلوچستان تک ، بلوچی ادب کے حوالے سے ان کا تحقیقی کام بے مثال ہے جس سے بلوچستان کی سماجی انسانیاتی اور سیاسی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔
بلوچی میں انہوں نے یاد گار خا کے بھی لکھے ۔ کوئٹہ کے حیدر نامی ایک غریب شخص کا خاکہ اپنی مثال آپ ہے۔
تحقیق کے علاوہ عبداللہ جان نے بلوچی ادب پر متعدد تنقیدی مضامین بھی لکھے ، جو جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں جنہیں ایک دن شاید شاہ محمد مری ہی یکجا کر کے سامنے لا پائیں۔ یہ تنقیدی کام ان کے بلوچی کتابوں پر تبصروں سے عبارت ہے ، جو رسالہ بلوچی میں ’’کتابانی سراچمشا نک‘‘ کے عنوان سے ہر ماہ چھپتے۔ شاہ محمد مری نے عبداللہ جان کے بارے میں اپنی کتاب میں ان تبصروں کے ساتھ پورا پورا انصاف کر نے کی کوشش کی ہے۔
توار،ہینار،زردِئے،ارمان،الہان،گوربام، نوکیں تام، اور کئی دیگر شعری مجموعوں پر ان کے تبصروں کا ایک جامع مجموعہ شائع ہوجائے تو بیسویں صدی کی بلوچی شاعری کی یہ ایک نمائندہ تنقیدی کتاب بن سکتی ہے۔
اسی طرح ان کا بلوچی مقالہ’’بلوچی افسانے کاارتقاء ‘‘افسانے کی تنقید کا شاہکار ہے۔
بلوچی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اردو میں بھی بلوچی کے تحقیقی اور تنقیدی کام پر روشنی ڈالی ہے۔ 1987ء میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ پاکستان سٹڈی سنٹر نے ’’پاکستانی ادب اور معاشرہ ‘‘کے نام سے ایک کل پاکستان کانفرنس منعقد کی تھی۔ یہ خاکساراس کانفرنس کانگران تھا۔ میری درخواست پر عبداللہ جان جمالدینی نے ایک طویل اور بھر پور مقالہ’’ بلوچی ادب اور معاشرہ ‘‘کے عنوان سے پڑھا تھا۔ یہ مقالہ تحقیق اور تنقید کے حوالے سے ایک شاہکار تھا۔ شاہ محمد مری کے مطابق انہوں نے بالاچ گورگیچ کی شاعری بھی ڈھونڈ نکالی۔
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا ، عبداللہ جان نے کئی زبانوں میں لکھا۔ بلوچی کے بعد سب سے زیادہ ان کی اردو تحریریں ہیں جن میں چند مقالے اور دو کتابیں لٹ خانہ ‘ اور شمع فروزاں کلاسیک کادرجہ اختیار کر چکی ہیں ۔ خصوصاً ’لٹ خانہ ‘ کے بارے میں اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ اس حوالے سے کوئی قابلِ قدر اضافہ نہیں کیا جاسکتا ۔
لینن کی کتاب کا ’دیہات کے غریب‘کے عنوان سے اردو ترجمہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن پہلی دونوں کتابوں کو اعلیٰ درجے کے رپورتاثر کی حیثیت حاصل ہے۔
اردو کے علاوہ عبداللہ جان نے براہوئی ، فارسی اور انگریزی میں بھی لکھا۔
(2)
اس تناظر میں اگر ہم بلوچی زبان وادب کے موجودہ عہد کا ذکر کریں تو ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ پوری بیسویں صدی پر تین شخصیات گل خان نصیر، آزاد جمالدینی اور عطا شاد کا بھر پور سایہ رہا ہے۔ ان کے علاوہ سید ظہور شاہ ہاشمی اور محمد حسین عنقا کے نام بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ گل خان نصیر ، آزاد جمالدینی اور عطا شاد نے بیسویں جبکہ عبداللہ جان جمالدینی نے اکیسویں صدی کی دوسری نصف دہائی تک اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ان اثرات کا میٹھا پھل زرخیز اور روشن خیال بلوچی ادب کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔ بلوچی شاعری ، بلوچی کا افسانوی ادب ، بلوچی میں تحقیق اور تنقید کا قابلِ قدر اضافہ ، بلوچی میں نئی اصناف کا تخلیقی اظہار ۔
سب سے پہلے اگر ہم بلوچی اور بلوچستان کی مجموعی ادبی تحریک کا ذکر کریں تو اس کا آغاز بیسویں صدی کے نصف سے ہی ہو گیا تھا۔ ہم نے’’ بلوچی زبان و ادبہ دیوان‘‘ کا پہلے ہی ذکر کردیا ہے۔ اس کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کا احیاء ہوتا ہے۔ عوامی ادبی انجمن کی آبیاری سے قبل ’’دیمارو وخیں اولس‘‘ وجود میں آچکی تھی۔ جس نے ملک الشعراگل خان نصیر کو جنم دیا۔ اسی گل خان نصیر نے عوامی ادبی انجمن کے ذریعے بلوچی ادب کو بڑھا وادیا ۔ پھر1986ء کا سال آتاہے جب انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کے نتیجے میں بلوچستان میں بھی مختصر عرصے کے لئے انجمن کا ڈول ڈالا جاتا ہے ۔1989ء میں لوزچیذغ کی داغ بیل پڑی جسے شاہ محمد مری لے کر چلے اور 1993ء تک لائے۔ 1994ء میں ایک بار انجمن ترقی پسند مصنفین کا احیائے نو ہوتا ہے ۔ یہ سلسلہ چند سال چلا لیکن صدی کے اختتام سے پہلے پہلے سنگت مجلّہ اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی داغ بیل پڑ گئی ۔ 1990ء سے نوکیں دور کے ذریعے ترقی پسند بلوچی ادب فروغ پار ہا تھا۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز جب سے اب تک بلوچی کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی دیگر زبانوں براہوئی ، پشتو کی ترویج واشاعت میں مصروف ہے۔ یہی نہیں وہ پاکستان کی تمام قومی زبانوں کے ادب کا بھی دم بھرتے ہیں۔
اس پس منظر میں اگر ہم صرف بلوچی اور براہوئی کے موجودہ ادب پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو ہمیں موجودہ بلوچی ادب میں متعدد اصناف نظر آتی ہیں۔ مثلاً داستان ، افسانہ ، کہانی ، ڈرامہ ، تحقیق ، تنقید ، رپورتاژ ، تذکرہ ، انشائیہ اور طنز ومزاح وغیرہ اور ان اصناف کے ذریعے تخلیقی اظہار کے حامل درجنوں نا م نظرآتے ہیں۔
بلوچی کے افسانوی ادب میں گوہر ملک ،غنی پرواز، منظوربلوچ، صبادشتیاری ، غوث بخش صابر، نعمت اللہ گچکی، یعقوب شاہ غرشین، واحد بزدار،نوتک بلوچ ، غنی طارق ، رزاق نادر، منیر عیسٰی ، م۔م ۔طاہر،عبد الغفارگچکی، محمد بیگ بلوچ، افضل مراد اور متعدد دوسرے نام۔ بلوچی ناول میں منیر بادینی کا اکیلا نام ہی کافی ہے۔
اسی طرح بلوچی شاعری کے افق پر مبارک قاضی، محمد مراد آوارانی ، منیر مومن ،غنی پرواز ،مراد ساحر ، اکبر بارکزئی، واحدبزدار ، مومن معراج ، اکبر علی اکبر، میر محمد میر ،بشیر بیدار، ممتاز یوسف ،حیات شوکت اور ایسے ہی متعدد نام ابھرے۔ براہوئی ادب کے بڑے ناموں میں نادر قمبرانی ، امیر الملک مینگل کے علاوہ وحیدزہیر ، اور افضل مراد کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔
(3)
اب رہا بلوچی اور براہوئی ادب کے مستقبل کے امکانات کا سوال تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ جن ادیبات کی بنیاد گل خان نصیر ،عبداللہ جان جمالدینی ، آزاد جمالدینی ،نادر قمبرانی اور درجن بھر ایسی ہی ادبی شخصیات نے رکھی ہو۔ ان ادبیات کے مستقبل کے تخلیقی امکانات ، روشن کے علاوہ اور کیا ہوسکتے ہیں۔ آج عبداللہ جان جمالدینی ، جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کا تخلیقی اور روحانی وجود، ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے۔ بلوچستان اور بلوچی ادب کے لئے نصف صدی بھر کی جدو جہد نت نئے ادبی امکانات روشن کرنے کے لئے کافی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اکیسویں صدی پر ایک اور عبداللہ جان جمالدینی سایہ فگن ہو۔ بیسویں صدی کے اتنے بڑے تخلیقی ورثے کے ہوتے ہوئے اکیسویں صدی کیسے نئے تخلیقی امکانات سے محروم رہ سکتی ہے۔ کون جانے ، آج بلوچی ادب تخلیق کرنے والوں میں کون گل خان نصیر ہے ، کون آزاد جمالدینی ہے ، کون عنقا ہے ، کون ہاشمی ہے، تحقیق وتنقید کے میدانوں میں کون عبداللہ جان جمالدینی ہے اور کیا خبر، ان سے بھی بڑا کوئی شاعر ، کوئی افسانہ نگار، کوئی محقق اور نقاد بلوچستان کی دھرتی میں پل رہا ہو۔ ماضی ہمیشہ مستقبل کے امکانات سے بھرا ہوتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اٹھارہویں صدی کا جام ڈرک بلوچی زبان کا آخری شاعر ہوتا۔