ایک غیر مْرّدِف غزل کے چند اشعار

وقت کی تاریخ پچھتاوا ہے، سازِ بے نوا
زندگی مایوسیوں کا جان لیوا سلسلہ

فن کا ماخذ وحشتوں کی دِلخراشی میں ملے
فِکر کے مارے ہْوؤں کا لْغویت ہے غمکدہ

زندگی کے ناروا جلّاد سے بھاگے تو پھر
یہ وْجود اک اجنبی نابْودیت سے جا ملا

تْربتیں قَرنوں سے ہیں موجود شْہدا کی وہاں
جس فِضا میں عشق کی تحریک کا پرچم کْھلا

شام کوہساروں پہ یوں اْتری کہ جیسے آپکی
شربتی آنکھوں کا سایہ میری آنکھوں پر پڑا

جب کوئی معنی نہیں ہیں ہست کے ہنگام کے
آپکے قدموں میں کیوں نہ عْمر مَیں رکھدْوں بھلا؟

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے