کوئی انا ہے جو دیوار سمجھی جا رہی ہے
وگرنہ چھت تو ستونوں پہ رکھی جا رہی ہے

دماغ گھوم گیا ٹیلی فون رکھتے ہی
ہر ایک چیز جگہ سے سرکتی جا رہی ہے

یہی گناہ میں صدیوں سے کرتا آ رہا ہوں
جو آج کل تمہیں نیکی بتائی جا رہی ہے

میں اک گلاس زمیں پر گرانا چاہتا ہوں
ہمارے بیچ کی خاموشی بڑھتی جا رہی ہے

بنا ہوا تھا یہیں تک سو رک گیا فٹ پاتھ
مگر یہ سرخ سی دیوار چلتی جا رہی ہے

یہ میری روح ہے ململ کے کپڑے جیسی روح
جو خاردار زمانے پہ کھینچی جا رہی ہے

میں جانتا ہوں تمھیں کس جگہ پہنچنا ہے
یہاں سے اگلی سڑک ہے جو سیدھی جا رہی ہے

میں اس زمین پہ زہرہ سے دیکھا جا رہا ہوں
وہ کون ہے جو مرے ساتھ دیکھی جا رہی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے