ماضی کے نقوشِ قدم
دروازے کے ویراں چہرے پر
ہر مُہر اور تصدیق سے بے نیاز
کسی فوسل کی طرح ثبت تھے
اُداسیوں کی بانجھ آنکھیں
روشنی کو حاملہ کر کے
دیمک کی چال سے اندر بھیج رہی تھیں
دیوار کے شگافوں سے
اذیت سر نکالے نیچے دیکھ رہی تھی
جہاں فرش پر
کسی کا حنوط شدہ انتظار
ٹکٹکی باندھے دروازے کو تکے جارہا تھا