جنوری گذشتہ سال کے میزانیے اور آنے والے سال کے لیے پیش بندی کا مہینہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مہینے کو جس دیوی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے وہ تیسری آنکھ سے بھی سرفراز تھیں جس سے وہ ایام رفتہ کو بھی زیر نظر رکھتی ۔ مگر ہم نے حال اور ماضی کے Balance Sheet سے بے نیاز پوھوزانت کی نشست کو حسبِ روایت منعقد کیا ۔ گو کہ مجموعی طور پر ماحول جنوری کے رجائیت سے بھرپور خوشبو سے معطر رہی۔ اس بار پوھوزانت کی نشست یکم جنوری2017 کو خیر جان کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ سب سے پہلے وحید زہیر نے اپنا مضمون بعنوان’’ بارودی بندگی‘‘ پیش کیا۔ اس مضمون میں لیکھک نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں کا تقابلی جائزہ ادبی پیرائے میں بیان کیا تھا جس میں طنز کا پہلو بہت واضح تھا۔ تشدد، سطحی اور خود غرضی پر مبنی تعلقات وغیرہ کو خصوصیت کے ساتھ نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس کے بعد معدنیات اور کان کنی سے متعلق اعظم زرکون ایڈووکیٹ نے شرکاء کو مفید معلومات سے نوازا ۔اس نے بتایا کہ ہمیں بلوچستان میں ذرائع پیداوار کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہاں مالداری اور گلہ بانی کے علاوہ معدنیات ہی واحد ذریعہ ہے جس سے علاقے کی خوشحالی جُڑی ہوئی ہے ۔ اس نے بتایا کہ معدنیات کے کانوں میں محنت کشوں کا استحصال مختلف طریقوں سے جاری ہے جس سے آئینی اور قانونی حقوق پامال ہورہے ہیں ۔اسی سے متعلق کچھ قانونی نکات کو بھی اُس نے بہت تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ اس کے علاوہ اس نے ہمارے معدنیات کے لیے لوکل سطح پہ انڈسٹری لگانے کی بھی بات کی۔
اس کے بعد آغا گل نے افسانہ پیش کیا جس کا عنوان ’’ جلا وطن دیوتا‘‘ تھا ۔ یہ افسانہ دراصلFantasy کے اسلوب میں لکھا گیا تھا جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے۔ اس میں افسانہ نگار کی تصوراتی دنیا کی بہت بہتر انداز میں عکس بندی کی گئی تھی مگر اس طرح کے اصناف سخن کو سمجھنے کے لیے اور لکھنے والے کی حقیقی سطح نظر تک پہنچنے کے لیے محنت شاقہ اور گہرے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے۔Fantasy لکھنے کی ایک وجہ لکھاری نے یہ بتایا کہ علامات کا سہارا سے دراصل لکھنے والے کو دو فائدے حاصل ہوتے ہیں ایک یہ اظہار اور ابلاغ جاری رہتا ہے اور دوسرا یہ کہ عتاب سے بچنے کا سامان ہوجاتا ہے۔
آخر میں نوجوان شاعر اور ماہنامہ سنگت کے اعزازی معاون و صاف باسط نے شاعری سے شرکاء کو محظوظ کیا۔ اُن کو بعض اشعار پہ بہت زیادہ داد ملی۔
نشست میں گذشتہ مہینے جدا ہونے والے دوستوں کے لیے دعا کی گئی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا ۔ ان میں محترم بشیر اخگر، ماما سکندر کرد، غلام قادر بزدار اور سعید احمد خان بلوچ شامل تھے۔
قراردادیں
-1 سنگت اکیڈمی پووزانت نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ 2010 میں اٹھارویں ترمیم منظور ہوئی لیکن اب تک اٹھاریں ترمیم کے تحت مرکزی وزارتیں صوبوں کو منتقل نہ کی گئیں۔ انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اٹھارویں ترمیم پر عمل درآمد کیا جائے اور وزارت پٹرولیم، ریکوڈک، سیندک، بولان مائننگ اور پی ایم ڈی سی و دیگر محکموں کو اثاثوں سمیت صوبوں کے حوالے کیا جائے۔
-2 سنگت اکیڈمی نے اظہار کیا کہ اٹھارویں ترمیم کے تمام لیبر قوانین کا جائزہ لے کر صوبائی لیبر قوانین بنانی چاہیے تھی۔ اس کامطالبہ ہے کہ صوبائی لیبر پالیسی اور لیبر قوانین پر باقاعدہ سہ فریقی اجلاس بلا کر اس کا فوراً جائزہ لینا چاہیے اور اس کی روشنی میں قوانین سازی کی جائے۔
-3 صوبائی حکومت معدنیات کا از سر نو جائزہ لے تاکہ مقامی لوگوں اور محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ ہوسکے ۔
-4 اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ صحت اور سیفٹی کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد نہیں ہورہا اور مسلسل حادثات ہورہے ہیں۔ اجلاس نے مرکزی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے۔
-5 صوبائی اور مرکزی حکومتوں سے مطالبہ ہے کہ صنعتی اور مائن مزدوروں کے فلاحی قوانین پر عملدرآمد کیاجائے اور اولڈ ایچ بینفٹ کے تحت مزدوروں کی رجسٹریشن کی جائے۔