کوہِ سلیمان کے خطے نے علم وادب کے میدان میں بڑے بڑے نام پیدا کیے ہیں ۔ ان ناموں میں ایک خاص واہم نام شیریں لہجہ خوش ادا سنحنورا ورکوہِ سلیمان کے علمی حاتم جناب غلام قادر بزدار کی ہے ۔بلوچی و اُردو ادب کے نامور شاعر ادیب محقق اور چالیس کتابوں کے مصنف جناب غلام قادر بزدار 25دسمبر 2016کو اعلی الصبح راہیِ عدم ہوگئے۔
اس مردِ خوش گفتار نے 12ستمبر 1943کو بزدار میں بمقام سراٹی سرمیں محترم غلام فرید خان لدوانی بزدار کے گھر میں جنم لیا بچپن سے لڑکپن ، لڑکپن سے جوانی کے زینے چڑھتے ہوئے بزدار صاحب نے 1960میں میٹرک کا امتحان پاس کیااور پھر ٹرائیبل ایریا کی مقامی فورس بارڈر ملٹی پولیس میں بطور سپاہی بھرتی ہوگیا۔ محنت ولگن اور ایمانداری سے ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے اور ترقی کے زینے چڑھتے ہوئے سرکل آفیسر یعنیDSPکے عہدے سے 1998میں ریٹائر ہوگئے۔ ریٹائر ہوتے ہی انہوں نے علم وادب کا کام نہایت ہی برق رفتاری سے شروع کردیا ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے محض اٹھارہ سالوں کے مختصر مدت میں چالیس کتابوں کا خالق بن گیا۔اور یہ تمام کتابیں اس نے اپنے ہاتھوں سے دودو تین تین بار چھپوائیں اور علم وادب سے شغف رکھنے والے دوست واحباب میں مفت تقسیم کیں۔ جی ہاں میری معلومات کے مطابق آج کے دور میں واحد مصنف تھے کہ اپنی کتابوں کو بیچنے کے لیے مارکیٹ میں بالکل نہیں دیتے تھے۔ اور مفت تقسیم کرتے تھے۔ موصوف بلوچی شاعری میں میرے استاد تھے ۔میں نے جب بھی ڈاک انہیں بھیجا آرڈنری کر کے بھیجا ،لیکن وہ میرا ڈاک ہمیشہ رجسٹری کر کے بھیجتے تھے۔ میں نے کتابوں کی مفت تقسیم کے بارے میں اُن سے ایک بار پوچھا تو انہوں نے کہا کہ:’’جب اللہ تعالیٰ نے مجھے علم مفت میں عطا کیا ہے تو میں اُسے کیوں بازار میں بیچوں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کے75لاکھ روپے کے قریب سرمایہ میں نے اپنے کتابوں کی چھپوائی میں خرچ کیا ہے اور ان سے ایک روپیہ وصول کرنا میرے نزدیک حرام گوشت کے برابر ہے۔ ہزار آفرین ہے ایسے عظیم انسانوں پر جنہوں نے آج کے اس مہنگائی کے قیامت خیز ماحول میں اپنا اتنا سرمایہ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے خرچ کیا ۔یقیناًایسے عظیم انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ جو کہ دوسروں کی بھلائی کے لیے جیتے ہیں اس لیے تو ادبانے انہیں کوہِ سلیمان کا علمی حاتم جیسا لقب تجویز کر کے علمی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔
بھلے انسان ہمیشہ بھلائی والے کام کرتے ہیں۔ بزدار صاحب نے ایک اور نیک کام یہ کیا کہ انہوں نے اپنے بلکہ کئی شعر ا کے بلوچی اشعار کو اُردو میں منظور ترجمہ کر کے بلوچی زبان سے نا آشنا لوگوں کو بلوچی ادب سے آشنا کرایا ۔
غلام قادر بزدار نے سیدھے سادھے مگر پر تا ثیر لفظوں میں اپنے دل کااحوال بیان کیا ہے۔
نیز انہوں نے کالم نگاری بھی کی۔ ملک کے نامور اخبارات اور جرائد میں اُن کے کالم شائع ہوتے رہے۔
انہوں نے صرف بلوچی ادب تک بس نہیں کیا ہے بلکہ قرآن شریف کی چھوٹی سورتوں کا بلوچی میں منظوم ترجمہ بھی کیا۔