ہم جنہیں پتہ ہے کہ بھنگ کاایک کٹور ہ پینے سے آدمی شاہ ولطیف ومست نہیں بن سکتا ۔ جسے دل کی جڑوں تک انسا نیت سے پیار نہ ہووہ کبھی اِن بڑے انسان دوستوں کا پیر وکا ر نہیں بن سکتا :
تر اگاہے گریبا نے نہ شد چاک
چہ دانی لذت دِیو انگی را
یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ذہنی طور پر بادشاہ بھی رہیں ، وزیروگز یر بھی رہیں ، سیکریٹر ی وکمشنر بھی رہیں اور لطیف و مست وعنا یت سے متعلق بھی ہوں ۔محض ایک قوالی، ایک رقصِ درویش کے ایک پروگرام میں بیٹھنے اور جھوم کر واپس آنے سے’’ صو ووفی ازم‘‘ نہیں پھیل سکتا ۔ اوپری طبقات کے چونچلے ہیں سب۔
توپھر،ہم کیوں تلے ہوئے ہیں مست تو کلی کے لفظ’’ بھنگ‘‘ کو صرف ایک معنے تک محدود کرنے کو۔ ہم کب سے شانتی کو اُس کے اسباب و علل سے علیحدہ کرنے کے گناہِ عظیم کے مرتکب چلے آرہے ہیں۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم جانتے ہوئے یا انجانے میں کسی ملا مولوی کے کہنے پہ شاہ عنایت کو’’صوفی‘‘ قراردے کراُسے نجات کے کاروان کی سربراہی سے ہٹانے کے قبیح عمل میں ہاتھ بٹا رہے ہیں؟۔ یاہم معمولی ماروی کو عمر بادشاہ سے لڑانے والے شاہ لطیف کو پنہوں کے بھائیوں سے مصالحت و ہم آہنگی والے مرد ار خوروں کی صف میں کیوں ملا رہے ہیں؟۔ یاپھر،ہم’’ ان الحق‘‘ کو بہت بدصورتی سے diluteکرانے میں لگادیے گئے ہیں۔ ہم ملنگ رحمن کو ملک عزیز خان سے یاری کرانے کا کبیرہ گناہ کررہے ہیں۔ ہم ’’ مالک کے درپہ حاضر کتے کی حاضری ‘‘ جیسے فقروں کو تقویت دے کر انسان کی توقیر کو گھٹانے کے کام پر لگ گئے ہیں۔ ہم کیوں رقصِ درویش پہ کو نیا کے سجادہ نشیں کی تقریر کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہم آخری دم تک نطق و شعر کی عظمت کی امین اور محبت کی سرفرازی کے لیے حمام میں سسک سسک کر جان دینے والی خضدار کی شہزادی کوحارث کے ساتھ کیسی ہم آہنگی کی اگر بتی میں دفن کررہے ہیں؟ ۔ہم نے منطق الطیر کی ساری منطق کو میدانِ تلاش میں جدل و جدال کے بجائے دربار میں دھمال کا منطق بنا ڈالا ہے۔ ہم کیوں آستینیں چڑھا کر سسی، ہیر، سوہنی، ماروی، مومل، سمو جیسے رومانی کرداروں کو زمین بدر کرکے حقیقی مجازی کے جہنم میں جلنے دیتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ زمینی ہی حقیقی ہوتی ہے۔ہم تو کلی مست کو قوی سرداروں کے ساتھ کیوں مشرف بہ رواداری کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ روادار لوگ تو ملاّ سے نہیں بھڑتے !۔ جس دن بلے شاہ کا پیلا چولا اجمیر کے مجاور کے دمکتے چوغے میں بدل جائے اُسی روز پہاڑ روئی کے گالے بن جائیں۔ ایک بنیاد پرست غیرتی سماج میں حسین ،مادھو سے عشق کرکے کفر کی تحریک شروع کرتا ہے ، حیرت ہے کہ ہم اس کے نام پہ قائم انکار کی مجلسِ شوریٰ میں بیٹھ کر ہارس ٹریڈنگ کی ایجنسی کی ٹکٹ پر اُس کو آئین و رواج کاپابند ثابت کر رہے ہیں۔ ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم’’ پٹ انگریزی تھانے‘‘ کہنے والے فرید کو ہی ا مریکی سامراج سے رواداری کا علمبردار بنا رہے ہیں۔ ہمیں کونسا مشروب پلا دیا گیا ہے کہ ہم فلسفہ سے اُس کی جان ‘یعنی انٹی تھیسز ہی نکال دینا چاہ رہے ہیں۔ بھلا ایسا کیا ہوگیا ہے کہ اچانک اسلام آباد وواشنگٹن میں ہمارا درویش فلاسفر،توجہ کا مرکز بن چکا ہے ۔ ایک اس کا مقبرہ بم سے اڑا کر اُسے توجہ کا مرکز بنا رہا ہے اور دوسرا اُسے ایک ایسے سماج میں شانت رہنے کا راہبر بنا رہا ہے جہاں ظلم موجود ہو۔کیا ہم اتنی پست عملی کے دورمیں ہیں جہاں ہمیں ’’دھمالی چرسیوں ‘‘اور’’ مزار ماروں‘‘ ہی میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑرہا ہے ؟ ۔فلاسفر خود کہاں گیا ؟ ۔فلاسفر کی تعلیمات ہم نے کہاں گم کردیں؟۔مشرق کے ہمارے فلاسفروں کے پاس کچھ تو ہے جو مقتد رہ کے لیے خطرہ ہے ورنہ ایسا کیوں ہے کہ ہم نے جھوک میں چار ماہ تک کی گوریلا جنگ کرنے اور چوبیس ہزار مرد عورت کسانوں کی شہادت پیش کرنے والے کے مقبرے پر ’’ یہاں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ کابڑا بورڈ برداشت کررکھا ہے ۔ایسا کیوں ہے کہ عنا یت ولطیف وسچل کے مقبر ے والی قبر ستان میں ہند و دفن ہیں اور اُن کی قبر وں پر آیتیں کندہ ہیں اور کسی ملّا ملٹر وکو اس پہ کبھی اعتر اض نہ رہا ۔ مگر آج شیعہ سنی ایک دوسرے کے قبر ستانوں میں دفن نہیں ہوسکتے ؟۔ ورنہ ایسا کیوں ہے کہ سسی کو پیہم جدوجہدکی تلقین کرنے والے شاہ کے مزار کو مردار خوروں کے ساتھ چادریں چڑھوا کر اس کے یوم پیدائش کا افتتا ح کرنے کا موقع دے رکھا ہے۔ ورنہ ایسا کیوں ہے کہ آزادیِ وطن کے لئے تلوار اٹھانے والے مست توکلی کو’’ سب ‘‘کی خیر مانگنے والا بنا کر پیش کرنے کی تدابیر ہورہی ہیں؟۔
ایک شخص اپنی ساری زندگی انسانوں کی خدمت پر لگادے اور پھر مرنے کے بعد اس کی تعلیمات کامغز چوری کیا جائے اور اس کا مقدس مزار ،بھنگ اور چرس پینے والے موالیوں کے حوالے کیاجائے۔ جرم نہیں، یہ تو جرمِ کبیرہ ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بے کاری ، ہمہ وقت غنودگی اور حجام و حمام سے حتمی نا واقفی، سے سرشار لوگوں کو ہم نے سب سے متحرک انسانوں کا سجادہ سونپ رکھا ہے۔اُن کے دربار میں جاکر دیکھو تو اُن کے سند یافتہ مرید بزدلی، خودہتکی،خود تحقیری ،اوراطاعت شعاری کے مجسم نمونے نظر آتے ہیں۔ ارے بھائی! ہماری یہ حرکت ایک ناقابل معافی جرم نہیں تو کیا ہے ۔جونظر یہ بھی موجودہ بے انصاف سماج کے خلاف انسانی نفرت کو گھٹانے کا باعث بنے،وہ عوام دشمن ہے۔ اور بالخصوص جب بہت بزرگ و بہترین انسانوں کی عوامی مقبولیت کو انہی بڑی شخصیات کی اپنی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے کی سازش غیر محسوس طریقے سے کی جائے تو یہ سب سے گھناؤنی حرکت ہے۔بقول فلسطینی شاعر سمیح القاسم:
کتنی صدیوں سے ہم ان مزاروں کی پو جامیں مصر وف ہیں
جوبز رگوں کی تقد یس کے نام پر
کچھ کرائے کے مذہب فروشوں کی روزی کا سامان ہیں
بے بصر سائلو ں اور بے کا ر لوگوں کی پہچا ن ہیں
عقیدہ پرستی کے گراؤنڈ پر سائنسی سپورٹس کے ٹورنامنٹ نہیں کیے جاتے ۔ عقیدہ پرستی ( پیر پرستی، کرامت پرستی) سے ہمارے خطے کے عوام پہلے ہی اوور ڈوز ہوچکے ہیں۔ بے شمار مذہبی فرقے بننے شاید اہم نہ ہو مگر اُن فرقوں کے نام پر انسانوں کے گروہی قتل قتال تباہ کن ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت یہاں ایک فرد کے بے شمار دشمن ہیں، یہودی دشمن، مسیحی دشمن، بدھسٹ دشمن، بے مذہب دشمن، ہندو دشمن، اپنے لباس کی رنگت کے علاوہ باقی سارے رنگ اپنے فرقے کے علاوہ سارے مسلمان دشمن ………بقول، جون ایلیا:
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
نتیجہ یہ نکلا کہ یہ محض وقتی صورتحال نہیں ہے ۔ اب ذہنوں میں راسخ انداز میں ماضی پرستی، قدامت پسندی، عسکریت پسندی، عدم برداشت جم چکی ہے ۔اب ہم سب کے سب موسیقی دشمن ڈرامہ، قبائلی رقص ، اچھا لباس دشمن ، منطق دشمن، عقل دشمن، حقیقت پسندی دشمن، زندگی دشمن، دنیا دشمن، انسان دشمن بن چکے ہیں۔ ہم بے عملی، ان پڑھی اور توہم پرستی کو ایک اجتماعی نام ’’صوفی ازم‘‘ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسی مذہبی اشرافیہ پرستی جو ہمیں آٹو میٹک طور پر پیر پرستی کی طرف لے جائے گی۔ ( اگلی مصیبت یہ ہے کہ سارے پیر سندھ و پنجاب میں ہیں۔ جہاں کی جاگیرداری انسان کو کاہلی سستی سے نکلنے ہی نہیں دیتی) ۔ وہاں پیر اور جاگیردار ایک ہی شخص میں مشخص ہیں۔ یوں ہم ایک ملائیت سے نکل کر دوسری ملائیت کو مضبوط کررہے ہوتے ہیں۔گدیاں جاگیریں مضبوط کررہے ہیں۔
مغربی سرمایہ داری اچانک ہمارے اِن حکیموں داناؤں سے کیسے متاثر ہوئی ہے؟۔
رومی کا پیغام کیٹ واک سے میڈونا کی آواز میں نشر ہوتا ہوا ہم تک نہیں آیا اور نہ ہی قونیہ کے مجاوروں کے رقصِ درویش کی کوریوگرافی اُسے ہم تک لایا۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ صوفی ازم کے اِس ’’پخ ‘‘کی مالی امداد مغربی ممالک کے ’’این جی اوز ‘‘کرتے ہیں ۔تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہاں مغر ب کے سماج ،صوفی ازم کی بدولت اس قدر ترقی کرچکے ہیں؟ ۔ وہاں کوئی اصلی نقلی مزاریں کیوں نہیں ہیں ؟۔ شیکسپیرکا مزار، کانٹ کادربار ، سارتر کاروضہ ، پشکن کا آستانہ ………..۔یااگر وہ اب جاکر عقل مند ہوچکے ہیں تو کوئی سجادہ گدی وہاں کیوں نہیں بناتے؟۔ اوروہاں اپنے گدی نشینوں ، سجادہ نشینوں اور خلیفوں کو وزیر، وزیراعلیٰ، سپیکر یاحتیٰ کہ وزیر اعظم کیوں نہیں بناتے ؟۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ اُن کا سماج انہیں جوتے مارے گا۔
مغر ب کے ہاں تو انقلابِ فرانس دلیل، استدلال اور منطق کی فتح تھی تو اہمات پہ۔ والٹیر ، روسو ، ڈائیڈ روٹ ، مونٹسکو ، رابسپائرے، ڈینٹن نے ملّا پیر، گنڈے، دم چھوکا بھٹا بٹھا دیا۔ فلسفیوں کے فلسفہ کی بارودسے نکلے ’’انقلابِ فرانس‘‘ نے لبرٹی، برابری اور برادری جیسے سیاسی خیالات کو ہزار گناحجم میں ہزاروں گنا تیز رفتاری سے پھیلا دیا……یوپ سے نجات کی ہوا ایسی چلی کہ یورپ وامریکہ اس کی لپیٹ میں تھے ۔اور وہ بے چارہ محض کپڑوں کے ضیاع کے لیے رہ گیا ہے۔ چوغہ درچوغہ!!
یوٹوپیائی تحریکیں، روشن خیالی کی تحریکیں، پیرس کمیون، امریکی انقلاب، روس کا 1905کاانقلاب ۔۔۔۔۔۔ اور پھر پوسٹ ٹکنالوجیکل انقلاب ۔وہ دن اور آج کادن امریکہ ویورپ اپنے اپنے تجر بات سے گزرنے کے بعد داخلی پالیسیوں میں( بہت کم رفتاری سے سہی ، اور زبانی جمع خرچ کے بطور ہی سہی)انقلاب فرانس کے نقش قدم سے ریاستی طورپر ایک انچ بھی اِدھر اُدھر ہونے کی جرات نہ کرسکے۔ اُن کا جدید ریاستی ڈھانچہ دھڑام سے گر جائے گا ۔
اٹھا رویں صدی تک یو رپ وامریکہ اور انیسو یں صدی تک بلوچستان وآس پا س جتنے بھی فلاسفر (حکیم ) پیدا ہوئے وہ سب کے سب صنعتی دور سے پہلے کے تھے ۔ وہ نیک نیت لوگ اُ س زمانے کے انسان کو درپیش دردو تکالیف ہی بیان کر سکتے تھے ۔ نعم البدل بھی نیم سائنسی ہی پیش کی جاسکتی تھی۔ اینگلز نے کہا تھا:
’’ از منہ وسطی کے عارف جنہوں نے آنے والے ملینیم کا خواب دیکھا، طبقاتی مخاصمت کی ناانصافی کا پہلے سے شعور رکھتے تھے ‘‘۔ مگرآنے والا وہ ملینیم کیسا ہوگا، اُس میں موضوعی قوتیں کیا ہوں گی اور تضادات کس طرح ظہور پذیر ہوں گے، یہ تفصیلات تو ظاہر ہے کہ اُن عارفوں کے پیراڈائم سے ہزاروں شمسی سال دور تھے، وہ ملینیم اس حقیقت میں نمودار ہوا کہ جدید بڑے پیمانے کی صنعت آئی۔ اُس نے ایک بالکل ہی نیا وجود پیدا کیا۔۔۔۔۔۔ صنعتی مزدور، پرولتاریہ’’ ۔۔۔۔۔۔ ایک طبقہ کوجو تاریخ میں پہلی بار اِس یا اُس خاص طبقاتی تنظیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ بلکہ خود طبقات کوبھی ‘‘۔ ( اینگلز ۔ انٹی ڈوہرگ ۔ صفحہ145)
شاہ لطیف کو عوامی خوشحالی کی جنگ میں ایک راہنما سے ہٹ کر دیکھنا اسی جرم کا مرتکب ہونا ہے۔ طے بات ہے کہ شاہ لطیف بارش نہیں برسواتا، اولاد نہیں بخشتا ، حکمران کی بادشاہت کو طول نہیں دلاتا ، اور اَنہونی کو ہونی اور ہونی کو انہونی نہیں کرسکتا۔ ہاں، اس کی زندگی کے حالات کا مطالعہ اور اس کی تعلیمات کو راہنما بنانے سے نہ صرف ہمارے جمالیاتی پہلو کی تسکین ہوجاتی ہے بلکہ زندگی کی پُر پیچی میں سے راستہ تلاش کرنے میں بڑی راہنمائی ملتی ہے۔وہ پیر نہیں ، ہمارا راہنما ہے۔وہ صوفی نہیں فلا سفر ، حکیم اور داناہے ، ہمارا فکری عملی لیڈر ہے۔
شاہ لطیف ہمارا راہنما کیسے ہے ؟ابھی بتا تا ہوں۔الیکٹران مائیکروسکوپ میں بھی بہ مشکل نظرآنے والے معمولی وائرس سے لیکر امریکہ جیسی سپر پاور کی عداوت کے باوجود زندگی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتی۔ پیرا سائنسز کی گمراہ کن اٹھکیلیوں کے باوجود سائنس کی تجلی نے گیارہ ہزار سال قبل مہر گڑھ کے فرد کی پچیس سالہ اوسط زندگانی کو بڑھا کر ستر برس تک پہنچادیا ہے۔……زندگی ……زندگی کا ئنا ت کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔ زندگی ہی کو ثبات ہے، زندگی کے سُر تال کو،گیت و نغمہ کو ،رقص و خرد کو دوام ہے۔ زندگی جوکبھی مست بنتی ہے اور کبھی مست کی محبوبہ سمو۔ زندگی جو کبھی مجازی نہیں ہوتی، ہمہ وقت حقیقی رہتی ہے۔کوئی شخص زندگی اور زندگی سے متعلقہ باتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا ۔۔۔۔۔۔۔ اور شاہ لطیف تو حساس ترین انسانوں میں سے ایک تھا۔ اُس نے زندگی کو اُس کے ہر ہر پہلوسے دیکھا ، پرکھا بھگتا اور اس کے بعد ہی احسن طور پرزندگی کی عالمگیر سچائیوں کو بیان کیا، اُن پر چلنے والی زندگی گزارنے کے طریقے بتائے۔اسی سبب وہ ہمارا رہنما ہے۔
زندگانی کے رواں دواں قافلے میں کسی بھی بزرگ (فلاسفر) کا پہلے سے موجود ہزاروں بزرگوں سے واسطہ پڑنا لازم ہے ۔ایسے بزرگوں سے جو تصور کی حد تک بھی ناقابلِ رسائی محبوب تلاش کرتے ہیں اور ’’ معروض‘‘ کی اپنی آنکھ سے اسے تجسیم کرتے ہیں اور پھر اُس کی بلائیں لینے، اُس کی خدمت کرنے اور مولانا روم کے بقول اُس کی جوئیں نکالنے کی حسرت جپتے رہتے ہیں ۔ اوربزرگ،کے لئے بالکل ضروری نہیں ہوتا کہ وہ بڑا عالم ہو یا رات دن زہدو عبادت میں غلطاں ہو۔ ہر عام آدمی، بغیر گردن اکڑائے دوسرے عام انسانوں کی طرح، اور ان سے بے تکلفی میں اپنی زندگی گزارنے والاہراچھا انسان ایک بزرگ ہے۔انسان ذات کا ہر ممبرایک بزرگ ہے۔ گندم کے ایک دانہ کو چار انچ گہرائی میں دفن کرکے زمین سے پورا خرمن گندم کشید کرنے والا اگربزرگ نہیں ہے تو پھر بھلا بزرگ ہے کون؟۔
اچھا، شک ہے تو ذرا زرتشت کے اوستھا کو گواہ بناتے ہیں:
’’اور وہ جو دونوں بازوؤں سے زمین کو کاشت کرتے ہیں، ان سے زیادہ مبارک اور سعید ہستیاں روئے زمین پر نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔معزز ترین، عظیم ترین، مبارک ترین ہیں وہ جو غلہ بوتے ہیں، اسے سینچتے ہیں اور اسے کاٹتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ اہو را مزدا کی تخلیق کے منصوبے کو پورا کرتے ہیں اور جب جو کی بالیاں پکتی ہیں تو اہرمن کا رنگ فق ہوجاتا ہے اور جب دانے ان کے گھروں میں آتے ہیں تو ارواحِ بد زارو قطار روتی ہیں اور جب اناج پیسا جاتا ہے تو تاریکی اور بدی اور اہر من، ان کے گھروں سے سرپٹ بھاگ نکلتے ہیں کیونکہ اناج اور آٹا ان کی موت ہے۔‘‘
اگر اینگلز نے انگلستان میں مزدوروں کے حالات کو تفصیل سے بیان کیا تھا تو شاہ لطیف نے اپنے دورکے سماج کی طبقاتی تفصیلات بیان کی تھیں۔شاہ کی شاعری سے اُس سماج کے سیاسی ومعاشی ماحول میں کلچر کو ترقی دینے والی ترغیبات وموثرات بہم ہوتے ہیں۔ٹھیک ہے کہ موقع پرست ادیبوں عالموں کی بزدلی کے سبب ،سجادہ نشینوں اوران کے ہمنوابورژوا دانشوروں نے شاہ کونظر یہ دان نہیں مانااور فلا سفر کے بجائے ’’پیر‘‘بناڈالا۔مگر شاہ نے زندگی کے آئیڈیلزم اور حقائق کو بہت خوبصورتی سے یکجاکردیا۔اس نے حیات انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا زبردست ادراک کیا۔ شاہ کا کلام کیاہے ؟:اعلیٰ ومثالی عالمگیرانسانی اقدار اور جوہر انسانیت کی دوامیت وتسلسل ۔یہ شاعری محکوم و ضعیف طبقات کے بشمول پورے عالم انسانیت کی بہتری و ترقی ، مسرت وخوشحالی کی تمنا و ترغیب ہے۔لطیف کی وفاداری نہ صرف گل زمین سے تھی بلکہ آزادی، امن اور انسانی حقوق سے بھی تھی…….اب ہم اُس سے کمیونسٹ مینی فیسٹوتو نہیں لکھواسکتے تھے کہ وہ زمانہ اور علاقہ مینی فیسٹوکا تھا نہیں ۔ورنہ رسالواورمینی فیسٹوکے مغزمیں کوئی فرق توکوئی دکھلادے !!۔(ہاں ، مقد رپر ستی البتہ مینی فیسٹومیں نہ تھی کہ عینیت پرستی زرعی معاشرے کے بعد کے سماجوں میں دفعان ہونا شروع ہوجاتی ہے )۔
سچی بات ہے کہ شاہ لطیف انقلابیوں کی شوریدہ سری کو گہرائی بخشتا ہے۔ وہ عشق کو معانی عطا کرتا ہے۔ شاہ کو پڑھ کر ہی تو میں نے مستیں توکلی کو سمجھا تھا۔ شاہ نے ہی مجھے وہ رنگ عطا کردیے جس سے میں نے مست کی دنیا کو ، عشاق کی دنیا کو دیکھنا شروع کردیا۔ شاہ کمٹ منٹ کا دیوتا ہے۔ وطن دوستی کے جذبے سے لطف اٹھانا ہو تو شاہ کے رسالے کی جانب لوٹ لوٹ جائیے۔ شاہ تو بھینس کے اپنے منہ میں بین دے دیتا ہے۔شاہ کی سندھی اگرعام آدمی نہ بھی سمجھ سکے تو اس کے ترجمے اتنے زیادہ ہوئے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں رہتا ۔ وہ عام آدمی کی باتیں اس کی زبان میں کرتا ہے ۔اُس کو اُس کی سادہ زبان میں زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتا ہے:
سکھ ملے تو آپے سے باہر نہ جاؤ
اور ہم نے لطیف و عنایت و توکلی کو یک طرفہ طور پر رحمدل کیسے بنا ڈالا؟۔ زندگی کا پاسباں ’’ سب‘‘ کی زندگی کی خیرکیسے مانگے گا؟۔ زندگی کا پاسبان زندگی کے دشمن کے قتل کے بعد ہی زندگی کا پاسبان بنتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور گندم کے ایک دانہ کی تقریبِ تدفین سے لے کر پورے خرمن کے باسعادت وصال تک ہر کا شتکار مزاحمت کے پورے سلسلے سے ہو گزرتا ہے۔ موسموں کی حوصلہ شکن شدت کے خلاف ، اپنے دائمی رفیق یعنی تساہل کے خلاف، من و سلوی کے دوام کے فلاسفر یعنی فیوڈل کے خلاف ،اور بے کار جڑی بوٹیوں اور فصل دشمن کیڑوں کے خلاف ہم سب کایہ پالنہار لڑتاہے ۔ مزاہمت کرتا ہے ۔ یہ انسان ( او ر ہر انسان)موت کے خلاف لڑتے ہوئے سوسو بار موت کو قتل کرتا چلا جاتا ہے ۔ ہماری روٹی کا ایک ایک نوالہ سپرے سے ہزاروں لاکھوں کیڑوں کے قتل کے بعد میسر ہوتا ہے ۔ پھر،ہم سے یہ توقع کہ ہم کپاس کے خالق بھی بنیں اور امریکی سنڈی کی طوالت عمری کے دعا گو بھی، ایک مذاق بن جا تاہے ۔
کون شطرنج کا کھلاڑی ہوگا جو کائنات کے بادشاہ انسان کو،شہ مات سے بچانے کی خاطر پیادوں ، گھوڑوں ،اور فیلوں کی بلی نہیں چڑھواتا۔اگر وہ تیارفصل سے بٹیروں چڑیوں کوبھوکا بھگا ئے گانہیں تو وہ کیا انسان ہوگا؟۔تپتی دھوپ میں شبنم کی موت بھی ہوتی ہے مگر گند م کے خوشوں میں رزق بھی تیار ہوتاہے ۔کسی کسان کو بیٹھے شبنم کی موت پر روتے دیکھا ہے ؟۔تھپڑ کیلئے دوسری گال پیش کرنے والے نے کتنے قتل کیے ،حساب ہے؟ ۔فریسیوں کی روزی روک کر اُن کا قتل ،ماؤنٹ کے سرمن سے پورے نظام کا قتل ……….یسوع جو نئے نظام کا خالق تھا ، سابقہ نظام کا قاتل بھی تو تھا !!۔
لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارے ولیوں کے فلسفہِ مزاحمت کو اُس وقت تک کنفیوژن کے طوفان میں چھپا رکھا جائے گا جب تک کہ انصاف کے لئے اٹھ کھڑی ہونے والی عوامی قوت توانا نہیں ہوتی۔ لطیفی فلسفہ کے مالک عوام الناس ہیں، حکمران تو اس فلسفہ کے ترمیم پسند ہیں۔ اُن حکمرانوں کا حصہ بننے کی مزاحمت کر نا ہی پیرویِ لطیف ہے۔
شاہ لطیف کا سارا فلسفہ جدوجہد کا فلسفہ ہے۔ ہمت بڑھانے کا ، جرات کرنے کا ، حوصلہ مندی کا۔شاہ لطیف نے مروج کی مخالفت کی تحسین میں ساری سرحدیں پارکر دیں۔…..اورمحبت پہ پابندی فیوڈل معاشرے کا سب سے بڑا رواج ہوتا ہے ۔ لطیف نے عشق پر پابندی کی خلاف ورزی کو نہ صرف سراہا سنوارا بلکہ اس بغاوت کی سربراہی کی ۔
شاہ کی فکر تقلید کی ضد ہے ۔ اور تقلید کی ضد تو فلسفہ ہوتی ہے۔ لہٰذا شاہ لطیف فلاسفر تھا۔ ہم نے پتہ نہیں کیوں ضیاء الحق سرکار کوایسے بڑے انسان کو ’’ تارک الدنیا‘‘ کے سانچے میں فٹ کرنے دیا ؟۔
شکر ہے شاہ لطیف ابھی تک چالا کوں کے بنائے جتھوں کے ہاتھ نہیں چڑھا۔اُس کے نام کا کوئی مذہبی مسلکی فرقہ تشکیل نہ دیا جاسکا۔ سرزمین اور انسانی معاشرے سے اُسے کاٹا نہ جاسکا ۔ اور اُسے اشرافیہ کا ترجمان نہ بنایا جاسکا۔ شاہ کو معجزوں اور کرامتوں سے ہٹ کر دیکھنے والوں میں کمی نہ لائی جاسکی۔شاہ کو اس کے سماجی اور عصری پس منظر میں دیکھنے والوں کی کمی نہ رہی۔شکر، صد شکر!!۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ اُسے یوٹو پیائی فلاسفروں کی جماعت میں شامل کرنے سے بھی ہچکچانے کا چلن عام رہا۔ خود روشن فکر احباب واکابرین کے ہاتھوں بھی اسے بہر حال عقیدوی تقدس و تبرک کی چادروں میں لپیٹا گیا۔ چادریں خواہ وطن و قوم پرستی کی رہیں یا خالص سائنسی انداز کی ‘آئیڈلزم کی بساند سے مبرا کبھی نہ رہیں۔ پیراسائنسز اور سُو ڈوسائنسز کو مستر د کرنے والوں کی طرف سے بھی شاہ کے ساتھ ایک طرح کا روحانی معاملہ ضرور رکھا گیا ۔۔۔۔۔۔ ۔شاہ کی تعلیمات میں روحانی مسرت ڈھونڈنا تو شرابی کی مسرت جیسی ہے۔اور ہم سب سائنسی ریسرچ کا دعویٰ کرتے رہنے کے باوجود بن پیے اِس شراب کے نشے میں رہے ہیں۔ہمیں اس خوف یارومانویت سے اپنی رسی تڑوانی ہوگی۔خوف ،شاہ لطیف کے فلسفے کاسب سے بڑا دشمن ہے ۔ بالحضوص شاہ لطیف سے خوف، اس کی کرامت کاخوف، اس کی نارا ضگی کا خوف، اس کی بددعا کاخوف…….۔محبت اور خوف ؟۔ نہیں نہیں ، دونوں ساتھ کبھی نہیں رہ سکتے ۔ قاتل ہیں ایک دوسرے کے ۔
یہ بات درست ہے کہ جب تک سما ج میں محنت کرنے والا انسان زراعت سے وابستہ رہے گا شاہ لطیف کے ساتھ کرامت و تقدیر پر ستی نتھی ہی رہیں گی ۔ ایک صنعتی معاشر ہ ہی اس قابل ہوتاہے کہ فلا سفر وں مفکر وں کو تمام ترتعصبات سے ہٹ کر جا نچ سکے ۔یہ بھی صحیح ہے کہ فلاسفروں کے ساتھ زور زبردستی نہیں کی جاسکتی۔ ایک مبہم اور نا ترقی یافتہ معاشرے میں جسمانی طور پر زندہ نہ رہنے والے مفکروں کی کلاسیفی کیشنStrict انداز میں کرنی بھی نہیں چاہیے۔ ہم نے بھی نہ کی ۔ مگر ہم نے اس کی فکر کو ساکت و جامد عقیدہ بنائے جانے والوں سے الگ راہ اختیار کی۔ عقیدوی تقدس کے بجائے فکر کی اس کے تازگی اور زمینیت کی بنیاد پہ اسے پرکھا ، اُسے ولی کے بجائے فلاسفر کے بطور دیکھا۔ ہم نے اُس کے ساتھ اپنی وابستگی کی بے شمار فکری Commonalitiesدیکھیں۔
اوریہ سچ ہے کہ دیگر بے شما ر یوٹوپیائی کمیو نسٹوں کی طرح شاہ لطیف کے پیغام کا بڑاحصہ کئی صدیوں تک بنی نوع اِنسان کے لیے ریلے ونٹ رہے گا ۔

آخر میں بس ایک ہلکی پھلکی ، مگرپُر معنی بات :
ایک قوم پرست بھٹا ئی کے روضے کے سامنے فریادکررہاتھا :
’’جاگ بھٹا ئی
کہ سندھ بلا رہاہے ‘‘
اچا نک بھٹا ئی کے مزارسے ایک ہاتھ نکلااور اُسے لعنت بناکرکا مریڈ کے منہ پہ زور سے رگڑ ااور کہا :
’’اڑے لعنتی ، میں نے اتنا بڑا ضخیم ’’رسالو‘‘ کن کے لیے لکھ چھوڑ اہے ؟
’’پڑھنے سے فرا ر ، اور بس جاگ بھٹا ئی ‘‘۔
حوالہ جات

-1 ٹالبوٹ، ایان۔ پاکستان اے نیو ہسٹری۔2012 ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ۔ صفحہ41
(2) Chittick, C. Willium. Sufism, Beginners Guides -One World Oxford.2009. pp. 39

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے