اسے سرخ ہمیشہ سے ہی بے حد پسند تھا اور اس کلر کی لپ اسٹک بھی ۔۔۔مگر اماں ظالم سماج کا کردار ادا کرتے ہوئے آڑے آتیں ۔۔۔کوئی ضرورت نہیں ہے یہ رنگ شادی شدہ عورتیں ہی پہنتی ہیں لڑکیاں نہیں ،اب اماں نے پتہ نہیں کہاں سرخ رنگ پر شادی شدہ عورتوں کا ٹیگ لگا ہوا دیکھ لیا تھا ۔۔۔پھر اسے کالا رنگ بے حد پسند تھا مگر اس رنگ پر بھی ممانعت کی جاتی ۔۔۔نجانے خاندان کے کس بڑے نے اس معروف و مقبول قول کی اختراح کی تھی کہ’’ہمارے خاندان میں سیاہ رنگ کا لباس یا چادر پہننے سے مصیبت آتی ہے ۔کالج میں جب اس کی سہلیاں اجتماعی طور پرکسی فنکشن میں کالے یا سرخ رنگ پر سفید پرل کے موتیوں کی کڑھائی والے لباس زیب تن کرتیں تو اسے ان پر رشک آتا۔ ’’ارے تمھارے سارے گروپ نے ایک جیسے کپڑے پہنے ہیں تم ان سے الگ تھلگ کیوں ‘‘۔تو اسے کسی نہ کسی بہانے کا سہارا لینا پڑتا اور اکثر یہ جملہ بھی کانوں میں پڑتا ہر کسی کے معاشی حالات بھی تو ایک جیسے نہیں ہوتے ۔کیا پتہ بے چاری بتانا نہ چاہتی ہو ۔کوئی ایسی ہی مجبوری ہو گی۔ اب وہ کیا بتاتی اور کس کس کو وضاحت دیتی لہذا چپ میں ہی عافیت تھی۔اور اگر گھر میں غلطی سے دوبارہ اس خواہش کا اظہار کیا جاتا تو ۔۔۔تو پھر نجانے کون کون سے ہولناک واقعات تھے جو آفتوں اور مصیبتوں کی داستان سناتے ۔۔۔منجلی پھوپھی نے بڑوں کے منع کرنے کے باوجود من مانی کی۔ اگلی صبح ہی بیوگی کی سفید چادر اوڑھنی پڑی ۔بڑی ممانی کا جوان بیٹا۔۔۔پھر اس طرح کی ناگہانی آفات کی ایک لمبی لسٹ گوش گذار کی جاتی اور وہ یہ سوچ کر اس خواہش سے دستبردار ہوجاتی۔ میں ہی خواہشات کا گلا گھونٹ دیتی ہوں کوئی اور آفت میری وجہ سے نازل نہ ہو۔
جیولری میں اسے موتیوں سے مزئین گول جھمکے بہت پسند تھے ۔اس کے چاند سے گول چہرے پر بھلے بھی بہت لگتے تھے مگر یہاں رنگوں کے علاوہ زیورات پہننے کے معاملے میں بھی پابندی تھی ’’کوئی ضرورت نہیں لڑکیاں بھاری زیور نہیں پہنتیں اور شادی پر روپ بھی نہیں آتا حالاں کہ آجکل لڑکیوں کا حسین زیور دیدنی ہوتا تھا ۔۔۔رہی سہی کسر کالج والوں نے پوری کر دی تھی جہاں ہلکا سا چھلا پہننے پر بھی ڈیوٹی اسٹاف خرانٹ پولیس آفیسر کی طرح نازل ہو جاتا ’’نکالو اسے پتہ بھی ہے کہ کالج میں پہننے کی اجازت نہیں مگر ڈھٹائی ملاحظہ ہو ‘‘۔’’ابھی تک یہ نہیں بولی کہ منگنی کی انگوٹھی ہے اتنی بھاری بھر کم رنگ پہنتے ہو ئے شرم نہیں آئی چلو نکالو ۔۔۔وہ ہلکی تا ر جیسی انگوٹھی جس کا معاملہ سلجھانے کے لئے ایک جم غفیر اکٹھا ہو جاتا اور مارے خفت کے الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے ۔۔۔گھر میں اگر ناخن عقابی نظروں سے بچ جاتے تو کالج میں خیر نہیں ہو تی تھی۔ وہاں یونین کی لڑکیا ں اپنی ڈیوٹی اس لئے ضرورت سے زیادہ دیانت سے نبھاتیں تاکہ پروفیسرزسے شاباشی مل سکے مگر یہ دیانت اور ڈسپلن صرف ان جیسی طالبات تک محدود ۔۔۔ ورنہ اپنی چاہنے والیوں کو ہر معاملے میں آزادی میسر تھی ۔۔۔فوراًہی نیل کٹر برآمد ہوتا بلکہ کوشش ہوتی کہ مجرمہ کو کسی پروفیسر کے سامنے رو برو کرکے ناخن کٹوائے جائیں ۔
ابھی بی اے کے امتحانات سے فراغت ہی ہوئی تھی کہ اماں کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہو گئی ۔کئی جاننے والیوں کو رشتے کا کہا ’’اسریٰ کے لئے اگر کوئی اچھالڑکا نظر میں ہو تو ضرور بتانا ۔۔۔دو چار رشتوں میں ثاقب کا رشتہ منظور کیا گیا ۔پڑھالکھا ہے ۔چھوٹا سا کاروبا ر سیٹ کر رکھا ہے اور فیملی بھی زیادہ بڑی نہیں ہے اپنی اسریٰ کو خوش رکھے گا ۔یوں وہ اس نئے بندھن میں بندھ کر میکے سے سسرال رخصت ہوئی ۔رخصتی سے پہلے والدین نے بہت ساری روایتی نصیحتیں کیں۔’’سسرال کی مرضی کے بغیر کوئی کام مت کرنا ،شوہر جیسا کہے اس پر عمل کرنا ،صبح جلدی اٹھا کرنا ‘‘۔۔۔اماں کی سخت آواز کانوں سے ٹکراتی ’’وہ تمھارا میکہ نہیں سسرال ہے وہاں سوچ سمجھ کر بات کرنا ‘‘۔ویسے اس سسرال نامی مخلوق کا تعارف اس شعور کی پہلی سیڑھی طے کرنے کے بعد کرایا گیا۔ تعارف کم ڈرایا زیادہ گیا تھا ۔’’یہ اتنے زور سے مت ہنسا کرو جب دیکھو کھی کھی کرتی نظر آئے گی ۔یہ لڑکی سسرال میں ایسا کرو گی تو جوتے پڑیں گے ۔۔۔وہاں قہقہے لگانے والی لڑکیوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔۔۔ارے دن چڑھ آیا اور ابھی تک تم سو رہی ہو ’’لحاف کھنچا جاتا‘‘ سسرال میں یہ حرکتیں کیں تو دودن میں چھٹی ہو جائے گی ۔۔۔اپنی طرف سے بہترین کھانا بنانے پر بھی ۔۔۔’’ہونہہ کیا بد مزہ کھانا بنایا ہے۔ کم سے کم کھانا بنانے میں تو مہارت ہونی چاہیے ۔۔۔مزئے دار بریانی جس میں چھوٹی الائچی اور بھونے بادام ڈا ل کر گارنش کیا گیا ۔۔۔چھوٹے ماموں جو گاؤں سے آئے تھی جہاں الائچی ،بادام اور ذردے کا رنگ صرف ذردے کے لئے مخصوص تھا ۔۔۔ذردہ سمجھ کر منہ میں آئے ہو ئے پانی کو کنٹرول کرتے ہوئے ڈش اپنی جانب کھسکائی اور ایک بڑا چمچ منہ میں بھرنے کے بعد مٹھاس کی بجائے مرچوں کا احساس ہوا تو فرمانے لگے !
’’یہ ذردہ ہے ؟کیسا بدذائقہ۔۔۔ میری عاشو جب ذردہ بناتی ہے تو پورے محلے میں خو شبو پھیل جاتی ہے ۔‘‘۔بڑے بھائی امی برس پڑے امی اسریٰ کو کھانے کی ٹریننگ تو دیں۔کیا بنے گا اس کا ۔۔۔۔سخت تشویش تھی ان کے لہجے میں۔۔۔کم سے کم لڑکیوں کو کھانا بنانے میں تو مہارت حاصل کرنی چاہیے۔ آخر شوہر کے دل میں معدے کے راستے ہی اترا جاتا ہے۔ چھوٹی بھابھی نے کڑاھی کا ڈونگا شوہر کو تھماتے ہوئے ٹکڑا لگایا ۔سعادت مند،سلیقہ شعار بیوی سے کڑاھی وصول کرتے وقت چھوٹے بھائی نے خشمگیں نظروں سے گھورا تو دو آنسوؤں کے قطرے خاموشی سے لڑھک کر آنچل کو بھگو گئے۔
ثاقب تایاکے گھر ہونے والی شادی کی پہلی دعوت میں اس نے جہیزمیں ملنے والے سوٹوں میں سے ایک خو بصورت جوڑا نکا ل کر پہنا تو ثاقب اس کی آدھی آستین دیکھ کر خفا ہوا ’’مجھے اس طرح کے کپڑے بالکل بھی پسند نہیں ،اس نے منہ پھیرتے ہوتے خفگی سے کہا ۔۔۔ان کے علاوہ کوئی اور اس طرح کے کپڑے ہیں تو کسی کو تحفے میں دے دو یا پھر اپنی ماں کو واپس کرو دوسری بہنوں کے کام آئیں گے ۔۔۔کم سے کم ہمارے خاندان میں ایسے کپڑے نہیں پہنے جاتے اور تم بڑی بھابھی ہو۔۔۔یہاں میری بہنیں ابھی بن بیاہی بیٹھی ہیں ان کے ذہن پر برا اثر پڑ سکتا ہے ۔۔۔اور ہاں اس نے دروازے کے قریب پہنچ کر پلٹتے ہوئے کہا’’ مجھے اپنی بات دہرانے کی عادت نہیں ہے ۔‘‘خاموش فضا اور سایوں کی پرچھائیاں اعصاب میں تناؤ پیدا کردیتے ہیں۔ اس نے انتہائی دکھی دل سے جہیز میں ملنے والے آدھے کپڑوں کو کزنز اور بہنوں میں بانٹ دیا ۔
اس کی چھوٹی نند کی منگنی پر اس نے بڑے چاؤ سے ہرے اورسرخ رنگ کے کنٹراسٹ کی پشواز سلوائی ،کیوں کہ شادی کا سرخ رنگ کا شرارہ آدھی آستین کی وجہ سے مسترد ہو گیا تھا ۔آئینے میں اپنا سراپا دیکھتے ہو ئے وہ خود بھی مسکرا دی ۔۔۔وہ بے حد حسین لگ رہی تھی اور چشم تصور میں ثاقب کو خود کو سراہتے ہو ئے دیکھا تو چکاچوند روشنی ارد گرد پھیل گئی ۔۔۔کانوں میں آویزے ڈالتے ہاتھ رک گئے اسے آئینے میں ثاقب کی شبیہ دکھائی دی ۔۔۔اس نے ذرا سی گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔اس کے چہرے پر سخت بیزاری کے اثرات محسوس کئے ۔یہ کیسا فضول رنگ پہن رکھا ہے تم نے ۔۔۔مجھے ایسے شوخ و شنگ رنگ بالکل بھی پسند نہیں ۔۔۔عجیب بچپنا ہے تمھاری طبیعت میں۔۔۔جذباتی لڑکیوں والا انداز ۔۔۔اپنی پر سنالٹی دیکھو ۔۔۔مچیور بنو۔۔۔ہلکے اور سادے رنگ پہنا کرو ۔۔۔سو بر لگتے ہیں ۔۔یہ میک اپ ،بھاری زیور اور بھڑ کیلے رنگوں سے مجھے گھٹن محسوس ہوتی ہے ۔۔۔سانس لینا مشکل محسوس ہوتا ہے ۔۔۔اس کا سجیلا روپ دکھاتا آئینہ ٹوٹ گیا ۔۔۔ٹوٹی کرچیاں اسے اپنے وجود کے آرپار محسوس ہوئیں۔۔۔دھڑام سے بند ہوتا دروازہ اسے ہوش کی دنیا میں لے آیا ۔۔۔ثاقب تن فن کرتا یہ جا وہ جا ۔۔۔ارد گرد پھیلی روشنی بجھ گئی ۔۔۔اس نے سارا فکشن بے دلی سے گذارا اور دل پر بھاری پتھر رکھتے ہوئے بقیہ جہیز بھی خیرات میں بانٹ دیا۔۔۔
تین بچوں کی پیدائش کے بعد ذمہ داریاں اور بڑھ گئیں ۔۔۔بدلتے وقت نے اذہان کو بھی بدل دیا ۔ثاقب کے روئیے میں کافی تبدیلی آگئی ۔۔۔اب وہ اس کا بے حد احترام کرنے لگا تھا ،ہر معاملے میں اس سے مشورہ لیتا ۔اپنے چھوٹے بھائی کی شادی پر اسریٰ کے لئے اپنی پسند سے کپڑے سلوا کر لایا تھا ۔اسے حیرت کے شدید جھٹکے لگے جب بند لفافے میں سرخ بنارسی کا جوڑا نکلا ۔۔۔خوشی اور دکھ کے ملے جلے جذبات سے جوڑا پہنا اور ساتھ ہی ثاقب کے لائے ہوئے بھاری جھمکے بھی ۔۔۔شادی میں بہت رش تھا ۔۔۔بڑی بہو ہونے کے ناطے اس پر بہت ساری ذمہ داریاں تھیں صبح سے کام کرتے کرتے تھک گئی اور سبزہ زار پر یک طرف ہو کر بیٹھ گئی ۔۔۔ارد گرد بیٹھی بہت ساری خواتین میں سے سائیڈ پر بیٹھی کچھ خواتین میں ہونے والی کھسر پھسر سے اس کے کان کھڑے ہو گئے ’’اے بہن لباس کا انتخاب اپنی عمر کو دیکھ کر کرنا چاہیے ۔۔۔اب ذرا اسے دیکھو ۔۔۔اس کی تیاری دیکھو ۔۔۔سمجھ کیوں نہیں رہی ہو دلہن دیورانی بن کر آرہی ہے اس کے ساتھ مقابلہ جو کرناہے۔۔۔دلہن کی ایک رشتہ دار نے دوسری کو ٹہوکا دیا ۔۔۔ذرا بھی اپنی عمر کا لحاظ نہیں۔۔۔بڑھاپے کی عمر آپہنچی مگر خود کو لڑکی سمجھ رہی ہے محترمہ ۔۔۔’’بوڑھی گھوڑی لال لگام ‘‘اس کے کانوں سے گویا دھویں نکلنے لگے ۔۔۔وہ بے خیالی میں اپنا پرس کھول کر خواہ مخواہ کچھ تلاش کرنے لگی ۔۔۔چار سالہ گڈو ماں کو تلاش کرتے ہوئے اس کے پاس آیا اور اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اس کا بازو،کبھی چٹیا تو کبھی ڈو پٹے کا پلو کھنچنے لگا ۔۔۔چلیں امی چلیں نا ۔۔۔اٹھیں وہاں بہت سارے بیلونز ہیں ۔۔۔رنگ برنگے میرا ہاتھ نہیں پہنچ رہا ۔۔۔اس نے ایڑیاں اوپر کرتے ہوئے ہاتھ بلند کیا ۔۔۔مجھے توڑ کے دیں سب لے جائیں گے اس نے تو تلی زبان میں کہا ۔۔۔اسے گڈو کی آواز دور سے سنائی دے رہی تھی ۔۔۔کانوں میں خواتین کی آوازیں شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ بن کر کان کے پردے پھاڑ رہی تھیں اس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو تھام لیا۔ہتک کا احساس تازیانے بن کر اس کے وجود کو زخمی کرنے لگا ۔۔۔گڈو ایک دم اس کے سامنے آکھڑا ہوا امی چلیں نا ۔۔۔اس کے بھاری جھمکے کو بری طرح سے کھینچا ۔۔۔امی آپ سنتی کیوں نہیں ہیں ۔۔۔تکلیف سے آنکھوں میں تارے ناچنے لگے،اعصابی تناؤ سے چھٹکارے کے لئے کمرے میں آکر زخمی کان سے جھمکے اتارے اور سادہ سا جوڑا پہن لیا ،اس کے روئیں روئیں میں خاموشی ،گھمبیر سناٹا سرائیت کر گیا۔ چونکہ پڑھی لکھی تھی آخر بات کہ تہہ تک پہنچ گئی ، محروم ماں بیٹوں سے انتقام لیتی ہے۔ حاسد ساس اور نندیں بہو کا راستہ ہمیشہ روکتیں ہیں۔ اور جاہل اور عورتوں کی معتبری سے ان کی اذیت ناک ماضی کا پتہ چلتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ سوچنا تھا کہ فوراً کھڑی ہوگئی اور فیصلہ کیا کہ اب یہ روایت نہیں رہے گی کہ کسی کے طنزیہ جملوں یا جاہلانہ فیصلوں پرآئندہ خواتین زندگی پالتو جانوروں کی طرح گزاریں۔۔۔۔۔۔ اس روز سرخ دوپٹہ کمر پر باندھ کر اس نے ڈھول کی تھاپ پر خوب رقص کیا۔۔۔۔۔۔