یہ کہانی مجھے میری نانی نے سْنائی تھی۔ اور اْن کے بقول اْنہوں نے یہ کہانی اپنی نانی سے سْنی تھی۔ کہانی ایک گاؤں کی ہے جو شاید اَب وجود نہیں رکھتا یا پھر اْس کی پْرانی صورت باقی نہیں رہی۔ خیر! نانی کہا کرتی تھی کہ اْس گاؤں پر کسی بدروح کا سایہ تھا۔ وہاں کے لوگ ہر قِسم کی بْرائی میں مبتلا تھے۔ چوری، ڈاکہ، قتل و غارت اورعورتوں کی عصمت دری کے واقعات آئے روز ہوتے تھے۔جس سے شریف النفس لوگ از حد پریشان تھے۔ سب نے مل کر بہتیرے کوشش کی لیکن اِن مسائل کاکوئی حل نظر نہیں آیا۔ اکثر لوگ مایوس ہوچکے تھے۔ کچھ نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا تھا اور ایک آدھ خودکشی کے واقعات بھی ہوئے تھے۔ لیکن حالات جوں کے توں رہے۔پھر ایک دِن کوئی اجنبی شخص گاؤں میں آنکلا اور گلی کْوچوں میں ’’آنکھیں دے دو، سْکھ لے لو‘‘ کی صدائیں لگاتا پھرا۔ پہلے تو لوگ کچھ گھبرائے لیکن پھر اْسے پاگل سمجھ کر نظر انداز کرگئے۔ لیکن جب وہ مسلسل یہی باتیں دوہراتا رہا تو لوگوں نے آپس میں مشورہ کرکے اْس سے ملاقات کی۔ اْس نے لوگوں کو بتایا کہ اگر وہ اْسے اپنی آنکھیں بیچ دیں تو اْن کو دوہرا فائدہ ہوگا۔ ایک تو اْن کو اچھی خاصی رقم ہاتھ آئے گی اور اْن کی تمام پریشانیاں بھی ختم ہوجائیں گی۔ لوگوں نے جب دیکھا کہ اْن کی سب سے بڑی پریشانی اْن کے حالات ہیں ،تو انہوں نے اِس کا حل بھی اْسی سے پوچھا۔تو اْس نے حل، وہی سودابازی بتائی۔ لوگوں نے ایک بار پھر آپس میں مشورہ کیا۔ اور اپنی آنکھیں بیچنے کا فیصلہ کرلیا۔ سب سے پہلے اْس تجربے کے لیے گاؤں کے مْکّیا نے اپنی آنکھیں دان کردی۔ یعنی اْس نے کوئی ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا۔جب وہ سوداگر کے پاس گیا تو سوداگر نے اْسے پینے کے لیے کوئی دوائی دی۔ دوائی کے پیتے ہی اْسے آرام محسوس ہوا۔ اْس کے بعد سوداگر نے ایک زنگ آلود لوہے کی سلاخ سے اْس کی آنکھیں بڑی بیدردی سے نکالیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مْکّیا کو درد تو کجا، خبر تک نہ پڑی کہ اْس کی آنکھیں نکالی جا چکی ہیں۔ آنکھیں نکالنے کے بعد سوداگر نے اْسے کسی اورہی رنگ کا پانی پِلایا۔ پانی پینے کے بعد مْکّیا کی آنکھیں پہلے جیسی ہوگئیں۔ لیکن اب اْسے ہر طرف خوش چہرے نظر آنے لگے۔ لوگوں نے جب مْکّیا سے پوچھا کہ تب اْسے کیسا لگ رہا ہے ،تو اْس نے کہا :
’’جیسے ہر چیز خوشی کے لیے ہے۔‘‘
مگر جب لوگوں نے کہا کہ اْن کو تو اب بھی ہر طرف مایوسی نظر آتی ہے۔۔ تو سوداگر نے کہا، ’’کیونکہ ابھی تک تم لوگوں نے اپنی آنکھیں نہیں بیچیں۔‘‘بس پھر کیا تھا،لوگ جوق درجوق اپنی آنکھیں بیچنے لگے۔ ایک ہاتھ پیسہ آیا تو دوسرے ہاتھ خوشحالی اور امن۔ اْس کے بعد کسی کو بھی پتہ نہیں چلا کہ کیا کچھ ہوا۔
نانی نے جو کہانی سْنائی تھی وہ یہی سے ختم ہوکر شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کہانی سْننے کے بعد میں ہر روز سوچتا تھا کہ آنکھوں کا سوداگر میرے شہر آجائے تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ ۔بچپن کے کچھ سال اِسی انتظار میں گزر گئے۔ لیکن پھر جو حالات نانی والی کہانی میں گاؤں میں تھے، وہی حالات ہمارے شہر کے ہوگئے۔جہاں دیکھو قتل و غارت، چوری اور عصمت دری۔ لوگ گھروں میں بھی ڈر ڈر کے جی رہے تھے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی خودکشی کرتا تھا۔ لوگ اِس وباء کے ہاتھوں بیزار ہوچکے تھے۔لوگوں نے اپنی زمینوں میں مایوسی بونا شروع کر دیا تھا۔ مایوسی کی فصل پک جاتی تو کوئی خودکشی کرکے اْسے کاٹ دیتا۔کئی بار ایسا ہوا کہ لوگوں نے کسی کی عصمت لْٹتی دیکھی تو اْسے خودکشی کا مشورہ دیا۔ میں بھی اوروں کی طرح خودکشی کرنا چاہتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے اپنا ہاتھ کاٹ دیا کہ خون بہہ جائے تو میں مایوسی کی فصل کاٹنے جاؤں گا۔ لیکن اگلی صبح مجھے میرا ہاتھ اپنی جسم سے پیوست ملا۔ پھر ایک دن میں نے اپنی شہہ رگ کاٹ دی اوریہ سوچ کر سو گیا کہ مر کر اٹھونگا۔ لیکن جب اٹھا تو سلامت تھا۔پھر ایک دن میں نے وہ سوداگر والی کہانی اپنے دوستوں کو سْنائی۔ میرے دوستوں نے اْس کہانی کو خوب پھیلایا۔ ہوتے ہوتے یہ کہانی پورے شہر میں پھیل گئی۔پھر میں نے دیکھا کہ جسے بھی دیکھواْسی سوداگر کر ذکر کا رہا ہے اور اْسی کا منتظر ہے۔
*
ایک دن جب میں اپنے کمرے میں آرام کر رہا تھا تو دفعتاً مجھے اک شور سْنائی دی۔ میں گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ سب لوگ شہر کے سب سے بڑے قبرستان کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ میں نے کسی کو روک کر پوچھا تو پتہ چلا کہ ہمارے شہر میں آنکھوں کا سوداگر آیا ہوا ہے۔ مارے خوف کے مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی۔میں بوجھل قدموں کے ساتھ قبرستان پہنچا۔ وہی کچھ ہو رہا تھا جو گاؤں والوں کے ساتھ ہوا تھا۔وہی زنگ آلود، لوہے کی سلاخ۔ وہی آنکھوں کا نکالا جانا۔ وہی پانی اور پیسوں کا بٹورنا۔ اور پھر اْس کے بعد ہر چیزکا خاموش لگنا۔ سکون اور امن کا آنا۔ لیکن مجھے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ میں نے کئی بار خودکشی کی تھی۔ یکے بعد دیگرے سب نے اپنی آنکھیں بیچیں۔ کچھ ہی دنوں میں سارے شہر والوں نے اپنی آنکھیں بیچ دیں۔ایک میں اکیلا رہ گیا۔ اور پورے شہر میں یہ بات بھی پھیل گئی کہ صرف میری آنکھیں پْرانی ہیں،یعنی میں نے اب تک اپنی آنکھیں نہیں بیچیں۔ لوگوں نے مجھے بہتیرے سمجھایا لیکن میں نے کسی کی نہیں سْنی۔آخر ایک دن سوداگر خود چل کر میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا کہ میں اپنی آنکھیں بیچ دوں۔ لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اْس نے جاتے جاتے مجھ سے کہا:
’’بہتر ہے کہ تم اپنی آنکھیں بیچ دو۔ اِس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ دیکھنا سب تم کو غلط سمجھیں گے۔ اور میں دوبارہ اِس شہر نہیں آنے والا۔‘‘۔
میں نے اْس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا اور وہ چلا گیا۔
اْس کے بعد سب لوگ،سوائے میرے، خوش رہنے لگے۔پھر میں نے دیکھا کہ شمیتہ کی عزّت لْوٹ لی گئی لیکن شمیتہ کو پتہ نہیں چلا۔ میں نے یہ بات اْس کے والد کو بتائی تو اْس نے تھانے میں میرے خلاف رپورٹ لکھوائی۔پھر ایک دن میرے سامنے جاوید نے اپنے بیٹے کو گولی ماری۔ میں نے اْس سے کہا کہ تمہارے ابو نے ہی تمہیں مارا ہے اور یہ کہ تم مر چکے ہو لیکن وہ نہیں مانا بلکہ الٹا مجھ سے ناراض ہوگیا کہ میں اْن کے رشتوں میں دراڑ پیدا کر رہا ہوں۔ہوتے ہوتے سب میرے خلاف ہوگئے ہیں۔
ایک دن اچانک مجھے ایک خیال سوجھا۔ میں اپنے دوست کے گھر گیا۔ وہ اپنے بستر پر سو رہا تھا۔ میں نے اپنے جیب سے قلم نکال، خنجر کی مانند ہاتھ میں پکڑا اور بھرپور طاقت سے اسی کی آنکھوں میں یکے بعد دیگرے دے مارا۔ یوں میں نے اپنے اْس دوست کی آنکھیں نکال دیں جس نے اپنی آنکھیں بیچی تھی۔ اور پھر ،میں اْسے نظر آنے لگا۔اب سارا ماجرہ میری سمجھ میں آچکا تھا۔اب ،میں ایک ایک کرکے سب کی آنکھیں نکال رہا تھا۔ ایک دن اچانک میں نے دیکھا کہ آنکھوں کا سوداگر پھر سے لوٹ آیا ہے اور ہر جگہ میرا پوچھتا پھرتا ہے۔میں اْس سے ڈر کے چھْپتا ہوں اور ایک ایک کر کے لوگوں کی آنکھیں نکال رہا ہوں۔ دوسری طرف وہ بھی لوگوں کی آنکھیں نکال رہا ہے۔ اب ہم دونوں میں یہ جنگ چل رہی ہے۔ تم کس کا ساتھ دوگے؟‘‘
اتنا کہہ کر وہ چْپ ہوگیا۔ میں نے جواب میں کہا:
’’تمہارا۔۔۔‘‘
جھٹ سے دروازہ کْھلا اور ہم نے دیکھا کہ دروازے پر آنکھوں کا سوداگر کھڑا تھا۔۔۔