کبھی ہم مچھیرے تھے
جال میں پھنسی
چھوٹی مچھلیاں پانی میں واپس پھینک
ان کے بڑے ہونے کا انتظار کرتے تھے
معلوم تھا
سمندر کا اصول
بڑی مچھلیاں ہمیشہ ہی
چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں
پھر ہمارے جال بڑی مچھلیوں سے بھر جاتے
ہم خوش حال ہونے کے خواب دیکھتے
مگر نہ جانے کیسی ہوا چلی
سارے جال اور کشتیاں
غریبی کی ریتیلی دلدل میں پھنس گئے
جیٹی بندر جو ہماری آن تھی اب ہماری نہ رہی
سمندر جو کبھی اپنا گھر تھا
ترقی کے سمندر میں ڈوب گیا
مچھیرا دکھ سے سوچے
بابا نے مچھلی پکڑنے کے کیا کیا گر بتائے تھے
پر وہ ببلو اور میرو کو
کیا سکھائے گا ؟
کس منہ سے کہے گا
” جاؤ بڑے تاجر کی کشتی میں اور کرو چاکری ”
اداسی سے سر جھکائے
ریت پر بے مصرف سی لکیریں کھینچتے
انگلیوں کی پوریں بھی گھس گئیں تھیں
تبھی ایک اونچی لہر پاؤں سے ٹکرائی
مدتوں بعد گدلے پانی میں اپنا عکس دیکھا
وہاں ننھی مچھلی آنکھیں پٹپٹا رہی تھی
مچھیرا حیرت سے چیخا
ارے ہم ہی تو چھوٹی مچھلیاں ہیں
مگر ہمارے بڑے ہونے کا انتظار کون کرے
سرمائے دار کی مچھلی
بڑے جہازوں کے جال میں پھنسی چھوٹی مچھلیاں کھا کھا کر
اور بھی بڑی ہو گئی ہے
اس نے ہمارے سب جال کاٹ ڈالے
قریب ہے بس
ہمیں کھانے ہی والی ہے
مچھیرے نے گھبرا کر آنکھیں میچ لیں
منظر بدل چکا
وہاں اب کوئی نہیں تھا
کاہی زدہ دیو قامت فشنگ ٹرالر
گدلے پانی پر ڈول رہا تھا
اور دور کہیں ریت سے اٹی کشتی کے ٹوٹے مستولوں پر
اچھلتے کودتے
ننگ دھڑنگ بچے قلابازیاں کھا رہے تھے