ممکن ہے کسی روز کسی دشت میں تنہا
چلتے ہوئے تم کو کوئی احساس پکارے
ماضی کا کوئی عکس، کوئی نقش یا چہرہ
گزرے ہوئے لمحات کی کرنوں میں چھپا ہو
یادوں کے سمندر میں کوئی تیرتی کشتی
تم کو میرے احساس کی بوندوں سے بھگو دے
تم مڑ کے ذرا دور کسی راہ کو دیکھو
قدموں کے نشانات کو آنکھوں سے ٹٹولو
اور مجھ کو صدا دو
اس سمت مگر کوئی اشارہ نہ ملے گا
اس راہ پہ نہ میں ہوں، نہ تم ہو، نہ پرندے
برسوں سے وہاں کوئی گزرتا ہی نہیں ہے
جس راہ پہ مدت تلک ہم ساتھ چلے تھے
جس راہ پہ اک شخص تمہیں ہار گیا تھا
کہتے ہیں پرندوں نے اسے نوچ لیا ہے