فلک سے روح دھرتی پر گرائی جانے والی ہے
مری برسوں کی پل بھر میں کمائی جانے والی ہے
جنہوں نے خون سے لپٹے ہوئے اجسام دیکھے ہیں
قیامت ان کی آنکھوں سے اٹھائی جانے والی ہے
دھواں اٹھ اٹھ کے پھولوں سے لپٹ کے رونے والا ہے
اک ایسی آگ گلشن میں لگائی جانے والی ہے
جہاں ہر شخص سنتے ہی سماعت ڈھانپ لیتا ہے
صدا اک ایسی بستی میں لگائی جانے والی ہے
تو لازم ہے تڑپتا دل نکالوں اپنے سینے سے
تمہاری یاد جو دل سے اٹھائی جانے والی ہے
ابھی سے آنکھ میں آنسو ابھی سے دل تڑپتا ہے
کہانی تو ابھی باقی سنائی جانے والی ہے