سب ہی افرادِ مَحَل روک رہے ہیں مجھ کو
پر تری زلف کے بل روک رہے ہیں مجھ کو
ایک تُو ہے کہ مجھے کھینچتا ہے شدت سے
ایک یہ پاؤں ہی شل روک رہے ہیں مجھ کو
کچھ تمناؤں کی لذت مجھے للچاتی ہے
کیا ہے فردوس کے پھل روک رہے ہیں مجھ کو
میں نے اس بار کسی طور نہیں رکنا تھا
کیا کروں عزو جل روک رہے ہیں مجھ کو
دور سے آیا ہے اک نظم گو کا سندیسہ
اور احبابِ غزل روک رہے ہیں مجھ کو
دلربا وقت کے سکتے میں تجھے دیکھوں گا
یہ گزرتے ہوئے پل روک رہے ہیں مجھ کو
جھیل میں عکس مرا ڈوب رہا ہے اسود
تیرے ہونٹوں کے کنول روک رہے ہیں مجھ کو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے