خاران میں بلوچی زبان کے نامور ادیب دانشور ’’ماما عبد اللہ جان جمالدینی کے فکرو شخصیت ،، پر ایک سیمینار منعقد ہوا اس جس میں صحافی وکلابرادری ،ٹیچرز ،کونسلراں اور شعرا ادبا ء کثیر تعداد میں شریک ۔ سیمینار کے مہمان خاص بلوچی زبان کے نامور سکالر جناب وحید زہیر اور عابد میر تھے۔ سیمینار دو سیشن پر مشتمل تھا پہلے سیشن میں مقررین نے ماما عبداللہ جان جمالدینی کے فکر و شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے عقیدت و احترام کے پھول نچھاور کئے۔ جبکہ دوسرے سیشن میں مشاعرہ ہوا۔ نظامت کے فرائض راقم نے سرانجام دیے۔ سیمینار کا با قاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا بعدازاں جلال جالب نے مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہتے ہوئے مختصراََ ما ما عبداللہ جان جمالدینی کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ماما ایک ترقی پسند سوچ کے مالک تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ سامراجی نظام کے خلاف اور استحصال زدہ طبقے کے حقوق کیلئے جد جہد کرتے ہوئے صرف کی۔ ان کے نزدیک مذہب ذات پات کوئی معنی نہیں رکھتے ۔وہ انسانیت کے قائل تھے بلکہ ا نسا نیت کو وہ سب سے بڑا اور مقدس رشتہ سمجھتے تھے ۔بعد میں راقم نے ماما عبداللہ جان کی فکر اور شخصیت پر اپنا مقالہ پیش کیا جس میں ان کی زندگی کے مختلف پہلووں کو تفصیل سے بیاں کیا گیا۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ عبداللہ جان جمالدینی کی پوری زندگی علمی و ادبی خدمات سے عبارت ہے ۔وہ تعصب ،تنگ نظری ،نفرت اور تفرقات سے پاک مہر و محبت کا ایک درسگاہ تھے۔انھوں نے کہایہ وقت آپس میں تنقید کرنے اور دست گریباں ہونے کا نہیں بلکہ قومی تشخص کی بقا ء کیلئے قوم میں اتحاد ویکجہتی اور زبان و ادب کی ترویج و ترقی کیلئے ملکر کام کرنے کا ہے۔ یہاں موجود تمام ادبی تنظیموں کا کام اور مقصد ایک ہی ہے۔ بلوچی زبان ہم سب کا قومی میراث ہونے کے ساتھ ہی ہمارے درمیان آپس میں مہر و محبت کا ذریعہ بھی ہے اس لیے زبان و ادب سے وابستہ تمام تنظیمیں آپس میں اپنے آئین و منشور کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زبان و ادب کی ترقی اور علاقے میں ایک سازگار علمی و ادبی فضاقائم کرنے کے لئے ملکر کام کریں۔
نامور ادیب و افسانہ نگار وحید زہیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خاران جیسے دور افتادہ علاقے میں عبداللہ جان جمالدینی کے فکر و فلسفہ اور شخصیت پر نوجوان اس قدر جانکاری رکھتے ہیں، مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا ۔خاص طور پر اس تاریخی سیمینار کے انعقاد پر سنگت ادبی اکیڈیمی کے نوجوان داد تحسین کے مستحق ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماما عبداللہ جان جمالدینی نے صرف بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی لسانیات کے شعبے کا داغ بیل ڈالا تھا بلکہ ادارہ ثقافت بھی ان کے تاریخی کاناموں کا ایک حصہ ہے اور لٹ خانہ کی صورت میں انھوں نے ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جو آج خاران جیسے دور افتادہ علاقے میں اسی تحریک کی بدولت ہم اور آپ آپس میں بیٹھے ان کی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے اظہار خیال کر رہے ہیں۔ توقیر زرمبش نے ماما عبداللہ جان جمالدین کو ان کے علمی و ادبی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ میں ماما کی حیاتی میں سنڈے پارٹی کے فکری کارواں سے مستفید نہ ہو سکا۔ پھر بھی میں رب تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے بہت جلد ماما کے علمی و فکری پیروکاروں سے مجھے متعارف کر کے سنگتی کا شرف بخشا ۔انھوں نے کہا کہ تحریکیں اس وقت کا میابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے جب قیادت انا پرستی ،تعصب پسندی اور تنگ نظری سے پاک ہو ۔تب وہ اپنے مقاصد اور سہی سمت پر معاشرے کی نمائندگی کرتے ہوئے لوگوں کے لئے قابل قبول اور کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ جس طرح آج لٹ خانہ کی تحریک منظم طریقے سے زبان و ادب کی ترویج و ترقی اور بلوچستان کے اہل علم نوجوانوں کو علم و ادب کی طرف راغب کرتے ہوئے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کررہے ہیں جو ماما کی مخلصانہ منصفانہ اور ترقی پسندانہ سوچ اور جہدوجد کا عین عکاسی کرتے ہوئے دن بدن ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔سنگت اکیڈمی آف خاران کے جنرل سکریٹری ضیا شفیع نے اظہار خیال کرتے ہو ئے کہا کہ خاران کے دوستوں کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ آج ماما عبداللہ جان جمالدینی کے فکر و فلسفہ اور تحریک لٹ خانہ کے فکری پیروکار واجہ ڈاکٹر شاہ محمد مری جئند خان جمالدینی وحید زہیر اور عابد میر جیسے اہل علم و دا نش ہمارے سٹیج پر جلوہ افروز ہیں آج ہم تحریک لٹ خانہ اور ماما کے فکری پیروکاروں کی علمی و ادبی خدمات اور جہد جد کے باعث دو سے بیس ہوگئے ۔انھوں نے کہا کہ سنگت ادبی اکیڈمی خاران کے ممبران ماما کی فکر و فلسفہ اور علمی و ادبی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔
نصیر لبزانکی دیوان کے چئیر مین احمد مہر نے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماما عبد اللہ جان جیسے شخصیت کبھی مرتے نہیں ہیں بلکہ اپنے فکر و فلسفہ اور علمی و ادبی کارناموں کی بدولت لوگوں کے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔آج کا یہ تاریخی سیمینار اس بات کی واضح دلیل ہے ۔
سیمینار میں سنئیر صحافی اسماعیل کبدانی سفر خان راسکوئی،ربانی عارف ، پروفیشنل لائیرز کے آرگنائزر ایڈوکیٹ لیاقت علی ملنگزئی، جونئیر آزات جمالدینی ،فدا بسمل ،جلال جالب و دیگر نے ماما عبداللہ جان جمالدینی کے علمی و ادبی خدمات کو سہراتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔جبکہ آخر میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے مرکزی سکریٹری جنرل واجہ عابد میر نے تمام شرکاء کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
بعد میں مشا عرہ ہوا جس میں موجود تمام شعرا ء نے اپنے خوبصورت کلام سے دیوان کو چار چاند لگادیے۔ یوںیہ تاریخی سیمینار اپنے اختتام کو پہنچا۔