دسمبر2016

سنگت کا دسمبر کا اہم اور منفرد رسالہ موصول ہوا۔ اہم اس لیے کہ یہ سنگت کی مسلسل اشاعت کے بیسویں برس کا پہلا پرچہ ہے۔ اس لیے خاص تو ہے۔ منفرد یوں کہ اس بار ٹائٹل سے لے کر اندرونی مواد تک، سب منفرد تھا۔ٹائٹل ویسے تو عبداللہ جان جمالدینی پہ ہے، مگر ذرا انوکھے اندازمیں۔ گزشتہ رسالے کا ٹائٹل بھی عبداللہ جان پہ تھا، لیکن اُس میں صرف ان کی سادہ تصویر تھی، اب کی بار اسے آرٹسٹک بنایا گیا تھا۔ عبداللہ جان ایک پورٹریٹ کے انداز میں کسی کتاب کے مطالعے میں محو ہیں، جب کہ پس منظر میں ان کی کوئی تحریر بلوچی میں دی گئی ہے، جوکہ ا ن کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا مسودہ ہے۔ اندر بتایا گیا کہ ہے کہ ٹائٹل گراں ناز رند نے بنایا ہے ۔ جتنا اچھا ٹائٹل کا کام ہے، اتنا اچھا ٹائٹل بنانے والی کا نام ہے!
ٹائٹل کا ورق الٹتے ہی ہماری پیاری نوشین کی دل کو چھو لینے والی نظم ہے، ماما خدائیداد صاحبی پہ۔ ہم جو ایسے اچھے لوگوں کو دیکھ نہ سکیں، ایسی شاعری اور تحریروں کے ذریعے سے ہی ان سے ملاقات ہو جاتی ہے گویا۔ ایک اچھے انسان سے ملوانے کا شکریہ نوشین۔
آگے کا پرچہ منفرد اس لیے ہے کہ اس بار تین چوتھائی رسالہ تو پوہ و زانت پر مشتمل ہے۔ کل ملا کر 16مضامین اس حصے میں شامل ہیں۔جن میں دس سے زائد مضامین سوانحی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ۔ لیکن آئیے پہلے شونگال سے آغاز کرتے ہیں۔
شونگال کے نام پر بھی تین چیزیں شامل کی گئی ہیں۔ پہلی ہے انیس ہارون کی نظم جو انہوں نے کامریڈ واحد بلوچ کی بیٹی ہانی اور اس کے ساتھیوں کے نام لکھی ہے(کامریڈ واحد بلوچ پانچ ماہ کی گم شدگی کے بعد 5دسمبر2016کو بازیاب ہوئے ہیں)۔ نظم کچھ مایوسی پھیلاتی ہوئی سی ہے، اس لیے مجھے کچھ خاص اچھی نہیں لگی، خصوصاً شونگال کی جگہ، جو ہمیشہ امید جگاتا ہوا حصہ ہوتا ہے۔
شونگال میں دوسری تحریر ایڈیٹر کے قلم سے فیڈل کاسترو کے انتقال پر ہے: تاریخ کا بری کردہ آدمی۔ مختصر مگر بامعنی اور دل کو چھو لینے والی تحریر۔ کاسٹرو کو شایانِ شان خراج پیش کیا ہے ہمارے لائق ایڈیٹر نے۔
شونگال ہی میں درج اگلی تحریر ’بلوچستان اور سبطِ حسن‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون ہے۔ یہ مضمون کراچی میں سبطِ حسن کے صد سالہ جشن کی تقریبات کے موقع پر پڑھا گیا، جو ان کی نظریاتی جدوجہد اور بلوچستان سے ان کے نظریاتی تعلق پر روشنی ڈالتا ہے۔ ہم جیسے مبتدیوں کے لیے نہایت عالمانہ اور معلومات سے پُر مضمون ہے۔ مگر مجھے سمجھ نہیں آیا کہ اسے پوہ و زانت کے بجائے شونگال کا حصہ کیوں کر بنایا گیا!!
ماما جمالدینی کے حلقہ احباب کے ایک ساتھی امان اللہ گچکی نے ’فی الحال جمالدینی‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔ کیوں کہ وہ لٹ خانہ کی تحریک کا حصہ بھی رہے، اس لیے ان کے مضمون میں اس حوالے سے کئی نئی باتیں معلوم ہوئیں۔ جو مستند بھی ہیں۔ عبداللہ جان اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے ’ فی الحال اسٹیشنری مارٹ‘ سے متعلقہ مضمون کا عنوان‘ فی الحال جمالدینی‘ دو آتشہ تھا۔
ماما کے ایک اور ہم عصرپروفیسر گل بنگل زئی صاحب نے ان پہ ایک مختصر مضمون براہوی میں لکھا ہے۔ مجھے اتنا سمجھ آیا کہ انہوں نے اپنے بزرگ دوست کی تعریف کی۔ بلوچی، براہوی اور پشتو میں ان کی خدمات کو سراہا۔ انہیں ایک اچھا استاد، اور اچھا انسان بتایا۔
اگلا مضمون میر بلوچ خان کا ہے؛ بلوچستان میں ترقی پسند ادیبوں کا سرخیل، پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی۔ اس کا آغاز برصغیر پاک و ہند میں 1930ء کی دہائی میں ترقی پسند ادب کی صورت حال کے تذکرے سے ہوتا ہے۔ جس کے مصنف اسے 1950ء میں لٹ خانہ کی تحریک سے جوڑتے ہیں۔ اس کے بعد عبداللہ جان اور ان کے رفقا کی جدوجہد کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک سادہ اور معلوماتی مضمون ہے۔ اچھا ہے۔
قلا خان خروٹی نے سائیں کمال خان پہ مضمون لکھا۔ مختصر مگر جامع مضمون۔ جس میں سائیں کی شخصیت کے علمی گوشے کو نہایت سادگی سے بیان کیا ہے۔
اگلا مضمون بھی نیم سوانحی خاکہ ہے یہ ازمیر خان مندوخیل سے متعلق ہے ،جسے منور خان مندوخیل نے لکھا ہے۔ ازمیر خان مندوخیل عوام دوست قومی شخصیت ہیں، جنہو ں نے بیسویں صدی کے وسط میں انگریزوں سے پنجہ آزمائی کی۔سنگت کے تین صفحات پہ پھیلے مضمون کے آخر میں لکھا ہے؛ جاری ہے۔ مضمون نہایت رواں اور سہل زبان میں لکھا گیا ہے۔ آئندہ حصے کا انتظار کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اس کے بعد شاہ لطیف کے متعلق شاہ محمد مری کا مختصر مضمون ہے(یہ بھی جاری ہے): شاہ لطیف صوفی نہیں، یوٹوپیائی فلاسفر۔ مضمون کے پہلے حصے میں سماج میں نظریاتی و فکری کشمکش بتائی گئی ہے، جہاں سائنس اور دیومالائی یابعدالطبیعاتی فکر ایک دوسرے سے پیہم برسرپیکار رہتے ہیں۔ اور پھر ان دونوں کے مابین یوٹوپیائی طرزِ فکر کا جنم ہوتا ہے، جو ان دونوں کے تصادم کے بجائے ا ن کے اتفاقات کوتلاش کرتا ہے۔ مصنف نے شاہ لطیف کو ایسا ہی یوٹوپیائی فلاسفر بتانے کی کوشش کی ہے، جو سماجی تبدیلی کے لیے مابعدالطبیعاتی فکر کو بہ طور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ یہ مفروضہ ہے، جس کی انہوں نے بنیاد رکھی ہے، دیکھئے آگے چل کر وہ اسے کیسے عملاً ثابت کرتے ہیں۔
آئی اے رحمان کا مضمون عبداللہ ملک کی تاریخ نویسی اچھا خاصا طویل مضمون ہے ۔ جس میں ان کی بعض کتابوں کے حوالے سے ان کی تاریخ نویسی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون ذر ا سا خشک ہے، لیکن اختتام کو دلچسپ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
محسن بالاچ کا اپنے والد سے متعلق مختصر مضمون بلوچی میں ہے: غنی پرواز، منی پت۔ یہ اپنے والد سے مخاطب ہو کر خط کے انداز میں ادبی پیرائے میں لکھی گئی دلچسپ تحریر ہے ۔ جس میں ان کی ادبی خدمات کو ذرا مختلف انداز میں سراہا گیا ہے۔
جاوید اختر صاحب لینن اور جمالیات پہ جو سیریز لکھ رہے تھے، اس پرچے میں شاید اس کا آخری حصہ شامل ہے۔ کیوں کہ مضمون ایک صفحے کا بھی نہیں، اور حوالہ جات ڈیڑھ صفحے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں اس کو حوالہ جات نہیں، حواشی کہنا چاہیے، کیوں کہ اس میں توضیحات و تشریحات زیادہ ہیں۔ مضمون میں تین حوالے ہیں، اور حوالہ جات میں 47۔ یعنی گزشتہ تمام مضامین کے حوالے بھی یہاں درج کیے گئے ہیں، اب کیسے پتہ چلے کہ کون سا حوالہ ، کس بات کا ہے۔امید ہے ان کی کتاب میں یہ معاملات درست ہوں گے۔
نذر ضمیر نے میر گل خان نصیر پہ ایک مختصر مضمون لکھا ہے۔ یہ نیم سوانحی مضمون ہے۔ گل خان نصیر کی شاعری اور ان کی علمی زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔
ڈاکٹر عطااللہ بزنجو نے فیض محمد بلوچ کی یاد میں مضمون لکھا ہے۔ بہت ہی اچھا اور معلوماتی مضمون ہے۔ فیض محمد بلوچ ، بلوچی گائیکی کا معروف نام ہیں۔ لیکن ان کی زندگی سے متعلق شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں۔ یہ مضمون نہایت سادگی کے ساتھ ان کی زندگی کے بعض اہم پہلوؤں سے روشناس کرواتا ہے۔
پوہ و زانت کے سلسلے کا اگلا مضمون اعظم زرکون ایڈوکیٹ کا ہے جو ’بلوچستان میں معدنیات اور مائنز مزدور‘ سے متعلق ہے۔ نہایت چھوٹے فونٹ میں سنگت کے پانچ صفحات پہ پھیلا ہوا نہایت خشک مضمون ہے۔ موضوع تو اہم ہے لیکن اعدادو شمار کی اس قدر بھرمار ہے کہ سچی بات یہ ہے مجھ سے تو دو صفحات سے زائد نہیں پڑھے گئے۔
آگے غمخوار حیات نے گل خان نصیر پہ براہوی میں اور مہلب بلوچ نے عطا شاد پر بلوچی میں مضمون لکھا ہے، جس میں ان کی شاعری کا ادبی پیرائے میں جائزہ لیا گیا ہے۔
نورین صلاح الدین کا مضمون ’پدرسری نظام‘ بھی اچھا معلوماتی مضمون ہے۔ عورتوں کے حقوق کے موضوع کا احاطہ کرتا ہوا۔ سلمیٰ اعوان نے ترکی کے معروف ناول نگار اورحان پامک پہ لکھا ہے۔ جس سے ان کی ادبی زندگی سے بھرپور آشنائی حاصل ہوتی ہے۔
کتاب پچار میں لٹ خانہ پہ عابدہ رحمان کا تبصرہ ہے۔ اور اس سے آگے سنگت نومبر2016ء کے پرچے کا جائزہ۔
قصہ میں فرزانہ خدرزئی کا ایک ہی افسانہ شامل ہے: ’میراث خور‘۔ موضوع کے لحاظ سے تواہم ہے جس میں لڑکیوں کی پیدائش پر برا منانا اور میراث میں ان کو حصہ نہ دینا جیسے معاملے کو موضوع بنایا گیا ہے مگر بہ طور افسانہ، کہانی سے انصاف نہیں کیا گیا۔ خصوصاً پہلا پیراگراف تو غیرضروری ہے جو کہانی کی بجائے براہِ راست تبصرے پر مبنی ہے۔
آخر میں نور محمد شیخ کی دو نثر ی نظمیں ہیں، ایک اچھے پیغام کے ساتھ، اچھی نظمیں۔
رہی بات شعری حصے کی تو اس میں قندیل بدر، بلال اسود، زاہد امروز، ثروت زہرا، ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں اور غنی پہلوال کا پلڑا بھاری رہا۔
قندیل بدر کے یہ اشعار ، شعری حصے کا ماحاصل ہیں:
چپک جاتے ہیں جا کر آسماں سے
مری آنکھوں کے آنسو بھی، دعا بھی
مرے قدموں کو باندھا جا رہا ہے
نچایا جا رہا ہے راستہ بھی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے