بلوچستان کی سر زمیں پر
قدم رکھتے ہی اچھے دوستوں سے
شناسائی کا جو آغا ز ہوا تو
روشن آنکھوں ،روشن چہرے، پیاری باتوں والی بلبل سی ایک موہنی صورت
آنکھ کی پتلی میں آبیٹھی
مردانہ جوتوں والی لڑکی
سادہ کپڑے ،سر پہ دوپٹہ
سادہ چہرہ
گول سی آنکھیں
ہنستی بستی
باہر سے آنے والوں کا استقبال کرنے میں
پیش پیش تھی
میں نے اس کی
آنکھ کے اندر امر پنا بھی کھوج لیا تھا
لیکن نہ جانے کس خاطر اس کی آنکھ اداسی اندر غوطے لیتی ڈوب رہی تھی
وہ ہنستی تھی
آنکھیں اس کی چپ رہتی تھیں
باتیں کرنے کی شہزادی
جانِ محفل، تابندہ و رخشندہ سی
گڑیا جیسی پیاری لڑکی
نام جو پوچھا
امرت ۔۔ہوں
مراد کی امرت
زور سے اک قہقہہ گونجا تھا
کانوں اندر رس ٹپکا تھا
ان لمحوں میں ، میں نے دل میں اس کے جیسا بن جانے کی خواہش کی تھی
مجھے پتہ تھا دو دن کا وہ ساتھ ہماراچھوٹ رہا تھا
لیکن بہت سے وعدے اس نے مجھ سے کئے تھے
وہ آئے گی
سارے تعصب طاق پہ دھر کے
میری طرح سے وہ بھی میرے گھر آئے گی
لیکن ایک اداسی میری روح کو چاروں اور سے گھیرے چیخ رہی تھی
اس کی آنکھ سے امرت دھارا پھوٹ بہا تھا
میں اپنے گھر واپس آکر فیس بک پر اس سے اکثر باتیں کرتی
چند دن گزرے
مجھ سے اچانک کھو گئی پھر وہ
دور خلا میں سو گئی پھر وہ
جھوٹی کہیں کی
وعدے کر کے مکر گئی وہ
لیکن میں پنجاب کی لڑکی
اپنے وعدے پورے کروں گی
وہ نہیں آئی
اس سے ملنے میں جاؤں گی
مٹی اندر
آسماں میں جہاں پہ ہو گی ڈھونڈ لوں گی میں
مجھے یقیں ہے وہاں بھی
استقبال کرے گی
اور کہے گی
امرت ۔۔۔ہوں
مراد کی امرت ۔۔۔
زور کا قہقہہ گونجے گا اور
رس ٹپکے گا کانوں اندر
قدرت بھی سرشار سی ہوکر جھوم اٹھے گی
میری سہیلی مجھ سے ملے گی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے