اچھے لوگ انہیں سمجھاتے رہے کہ انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ کسی مذہبی عقیدے کے ہاتھوں، دوسرے کسی بھی عقیدے کوشکست دلا کر کوئی جمہوری یا سائنسی سماج کبھی بھی نہیں قائم کیا جاسکتا ۔ عقائدکو تو اوپری حاکم طبقہ ہی استعمال کرتاہے اپنے اقتدار کو دوام دینے۔ پیرو پنڈت ہمیشہ سرکار کے فائدے کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ اور جس وقت کوئی عقیدہ شاہ و حاکم کے استعمال کے قابل نہیں رہتا حاکم اُسے پرے پھینک دیتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں، جس وقت کوئی عقید ہ عوام (رعایا) میں مقبول نہیں رہتا حاکم کے لیے بے کا ر بن جا تاہے۔
پاگلو بدھ مت سب سے امن پسند مذہب ہے مگر اِس کی وجہ سے دنیا میں امن ہوا کیا؟ چین اور ویت نام کی لڑائی یاد ہے ؟ کمبوڈیا کی خانہ جنگی یاد ہے ؟۔ برما میں اسی امن پسند مذہب کا مسلمانوں پر جنگ یاد ہے؟
تقدیر پرستی تو ایک عقیدہ ہے جو عوام الناس کے دلوں میں گہرائی سے پیوست ہے ۔ ہر دوسری تقدیر پرستی پہلی قسم والی تقدیر پرستی جیسی ہوتی ہے ۔ قسم و نوع خواہ کوئی بھی ہو، پر چم ورنگ ونعرے کچھ بھی ہوں، ’’تقدیر پرستی‘‘ ایک ایسا راسخ عقید ہ ہے جہاں شک کرنے کی آزادی نہیں ہوتی، سوال پوچھنا تودرکنارسوال سوچنے کی آزادی بھی کسی مادی معاشی یاجانی نقصان کی سزالاتی ہے ۔حالانکہ سوال کرنا، بحث کرنا تو انسانی شناخت ہے ۔
ایک اور بات ذہن نشین کرنے کی ہے ۔ وہ یہ کہ ہر خاموش رضامندی ’’تقدیر پرستی‘‘ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اورہر اختلا ف اُسے اگلی بار دوبار سوچنے پرمجبور کرتاہے ۔
راسخیت کو صرف ایک بات سے شکست دی جاسکتی ہے اور وہ ہے سائنسی سوچ۔ اور یہ سارے رائٹسٹ عقیدہ ساز، اِن انسان دوست فلاسفروں کی تعلیمات کو عقیدہ بنانے میں عرصے سے کامیاب چلے آرہے ہیں اور اپنا اقتدار قائم وبرقرار رکھے ہوئے ہیں۔ریڈیو ٹی وی پہ اُن ناپاک فیوڈل لیڈروں کے پیام کے نام پر ہمارے بہت بڑے اور مقبولِ عام مفکروں اور روشن فکر عوامی انقلابی شاعروں کو راہب ، نیم مجنون ، پیر، ولی یا صوفی سمجھنے پر لگادیا گیا۔ شاہ لطیف تو کیا ،اُس کے پیش رو شاہ عنایت تک کی مزاحمت والی روایت کے بجائے جھوک میں اس کے دربارمیں انہی پیری فقیری والی روزی کمانے والے لوگوں کو جمع کردیا جاتا ہے۔ اور اُن کی سماج مخالف کارستانیوں کو ’’صوفی ازم ‘‘کا نام دیا جاتا ہے۔بھنگ ، چرس ، اوراغلام بازی توعام انسان کی توہین ہے ، شاہ کا پاک دربار توپھر، فلسفیوں کی تفکرگاہ ہے ۔
تو اب نئی بات کیا ہے؟ ۔صوفی ازم اور وہابی ازم کو حکومت باہم ٹکراتی ہے تو اُس سے نئی کیا چیز نکلے گی ؟ ۔صرف اور صرف خوف ،غنودگی کوجگہ دے گی، بس ۔( ہمارے معاشرے میں دوڑ ہی اس بات پہ ہے کہ کون زیادہ خوف پیدا کرسکتا ہے اور کون زیادہ غنودگی)۔اور خوف، غنودگی جیسے نتائج ہی دیتا ہے۔
خیر ، سندھ میں تو یہ بہت بڑی ستم ظریفی کافی عرصہ سے موجود ہے کہ وہاں سارے بڑے انسانوں کے واضح خدوخال اور صورت ہونے کے باوجودان کے گرد ایک بہت گہرا ہالہ بنا دیا گیا ہے۔ ایسا کہ ہم ا س میں انسانی اوصاف ، اور انسانی کمزوریاں اور ناکامیاں دیکھنے کی طرف جائیں ہی نہ بلکہ وہ ایک ایسا ماحول ہوتا ہے جوصرف اور صرف پرستش کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ کے عوام کو شاہ لطیف کے عرس کے نام پر ڈھول پتاشوں، اوروزیروں گزیروں کی ہوٹر بجاتی گاڑیوں ، کے حوالے کیا گیا ہے۔( بھئی کون حقدار ہے شاہ لطیف کے مزار کو غسل دینے کا؟ اُس شریف انسان نے تو سسی کے باب میں کہا تھا’’ وہی سب سے آگے ہوگی جو کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لے چلے گی‘‘)۔
دنیا بھر میں ’’تصوف ‘‘کی اصطلاح دے کر اُسے اس طرح پیش کیاگیا کہ گویا اس میں ترک دنیا، اور خاموشی کا پہلو حاوی ہے۔دانشورا نہ ثبوت سے مبرا، منطق واستد لال سے پر ے والی دنیا ۔ بس وہاں کا دھاگا کلائی یاگلے میں باندھ لیااور سارے مسائل اُسی دھا گے کے حوالے کرکے خاموش بیٹھا جائے ۔اِسی پہلو نے جبر و استحصال پہ مبنی عہدِ ملوکیت اور جاگیردارانہ سماج کو بچائے رکھا۔ چنانچہ ملاّئیت اور خانقاہیت میں طریقِ کار میں فرق کے علاوہ کوئی خاص فرق نہیں رہا۔ مقاصد یا نتائج ایک ہی تھے۔ صوفی گیری جاگیر داری کا سیفٹی والوہے، اُسے تباہی سے بچانے والا فکرہے۔ یہ عوام کے اندر انقلاب اور جدوجہد کے موجزن جذبوں کو مفاہمت و مصلحت ومصالحت کی راہ دکھانے والا فلسفہ ہے۔اس فلسفے والوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ہر ناروا سلوک اور ظلم کو رضائے الٰہی سمجھ کر قبول کرنے اور اس پر شاکر رہنے کا راستہ اختیار کیا۔ خصوصاً ہماری حکومتیں اور ہماری صحافتی صنعت اُن لوگوں کوخوب اچھالتی ہے جنہوں نے ظلم و جبر کے خلاف عوامی مزاحمت کوکندکردیاہو ۔اور شاہوں جاگیر داروں کے ظلم کو گردشِ افلاک قرار دے کر خاک بسر عوام کو سر اٹھا کر چلنے کی جسارت سے محروم رکھاہو۔ خانقاہوں کے گدی نشین (بقول اقبال ،مجاور یا گورکن) نذرانے وصول کرتے رہے ۔ درگاہوں کو سجدے اور بوسے دلاتے رہے اور اپنی کرامتوں کے چرچے کرتے اور کرواتے رہے ۔
یہ ایک ایسی گہری سازش ہے کہ اِن بڑی ہستیوں پر تحقیق کرنے والے بھی بجائے اِن ہستیوں کے ’’ شناس‘‘ بن جائیں وہ اُن کے ’’ پرست‘‘ بنا دیے جاتے ہیں۔
ایک اور کھیل رومی و شاہ عنا یت و مست ولطیف کی فکر کے ساتھ یہ کیاگیا کہ اُن کے دوچارا شعارا ٹھاکر عقل وتفکر کو دے مارے اور اعلان کیا کہ یہ بز رگ لوگ جنون وعشق ہی کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور عقل اُن کے ہاں تو ہین و ذلالت کی چیز ہے ۔ سماج میں سٹیٹس کو کی قوتیں یہی چاہتی ہیں کہ ہمارے ان بزرگوں کو اس طرح پیش کرتے رہیں جہاں عقل کا استعمال شیطانی کا م قرار پائے ۔ عقل تو تقلید کا بیٹر ہ غرق کرتاہے ۔ اور تقلید کا بیٹر ہ غرق ہوجائے تو سجا دہ نشین ومخد وم کا بیٹر ہ غرق ہوجائے ۔ اور نتیجے میں سارافیو ڈل نظام دھڑام سے گرجائے ۔ جاگیر دار ایسا کرنے کہاں دیتاہے !!۔
معلوم بات ہے کہ حاکم و محکوم، ظالم و مظلوم اور مفت خور و محنت کش کے درمیان ازل سے لڑائی جاری ہے۔ اور اس لڑائی کو کند کرنے کیلئے حاکم ہمیشہ نئے نئے’’ ازم ‘‘ایجاد کرکے عوام الناس میں پھینک دیتے ہیں۔ صوفی ازم ایسا ہی ازم ہے۔ یہ سرکاری لفظ ہے، یہ سامراجی اصطلاح ہے۔سندھ، جنوبی بلوچستان اور سرائیکی علاقے میں صوفی ازم بہت زیادہ قصبول ہے ۔ مگر کیا وہاں عورتیں ہر سال سینگڑوں کی تعداد میں قتل نہیں ہوتیں؟۔کیا وہاں قتل و انتقام ، ڈاکو اور بھتہ اور اغوا برائے تاوان سب علاقوں سے زیادہ نہیں ہے؟۔ کیاوہاں رشوت خوری سفارش اور امتحانوں میں نقل میں کوئی کمی آئی ہے ؟۔ کیا جاگیردار صبح شام شاہ لطیف کے قصید ے گا نے کے باوجود کسانوں کے استحصال میں کوئی کمی کرتاہے ؟۔ کیاوہاں سارے صوفیوں کے کلام م عرسوں اور دھمالوں نے فیوڈل ازم میں کوئی ڈنٹ پیدا کیے ہیں ؟۔
صوفی ازم ایک غیر اطمینا ن بخش اور متنا زعہ نام ہے جس کا عقید ہ کی داخلی حقیقت کے مختلف سماجی واداراتی مظاہرپہ اطلاق کیاجاتاہے۔ہمارے لکھاریوں کے پاس تصوف نامی مہمل لفظ کو بیان کرنے کی کوئی حتمی تعریف نہیں ہے ۔ ادھر ادھر کی ٹامک ٹوئیاں مارکر خود کو صوفی سنت و بھگت ثابت کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’’ تصوف کا لازمی وظیفہ سلوک اور باطن کی پاکیزگی سے عبارت ہے ‘‘۔’’ سلوک‘‘ بھی مہمل لفظ اور ’’باطن‘‘ بھی دھند میں لپٹا لفظ۔
پھر وہ ایک اور زنگ آلود عینک قاری کو پہناتے ہیں: ’’ تصوف کا عمومی مرکزہ خدا، انسان اور وقت کی تقویم پر استوار ہے‘‘۔اس ضمن میں وہ ’’ صوفیانہ واردات‘‘ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔وہ اچھا کرتے ہیں کہ صوفیوں کی ایک لسٹ بھی عطا کرتے ہیں۔ ہمیں آسانی ہوگی اُن کے درمیان مشترک قدریں تلاش کرنے میں۔’’داتا گنج بخش، فرید گنج شکر، گورو نانک ، میاں محمد بخش۔۔۔۔۔
اور کوئی مشترک قدر ہو تو ملے۔ صوفی گیری کوئی واحد اور متشکل مکتبہ فکر نہیں ہے۔ یہ بہت ہی وسیع اور متفرق ، حتیٰ کہ مخالف و متصاد م نظریات کو زبردستی اکٹھا کرنے اور مال بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
’’ صوفی‘‘ ایک ایسا نا م ہے جسے پاکستانی مڈل کلاسز نے اعزاز کا تمغہ سمجھاہے اوردوسروں نے رسوائی کی اصطلاح۔ (2)۔یہ اصطلاح اب ایک نمائندہ لفظ نہیں رہاہے ۔ اسے ترک کردیناچاہیے تاکہ اچھے انسانوں کو کسی ابہام کے نقاب کے بجا ئے براہِ راست اُن کی تعلیما ت سے پہچانا جاسکے۔
پھر یارلوگوں کے اڑائے ہوئے اس کنفیوژن میں بھی کوئی حقیقت نہیں کہ سارے صوفی سلسلے اسٹیبلشمنٹ کے مخالف ہیں۔ بھائی مغلوں سے لے کر بیگوں تک اور انگریزوں سے لے کر بعد کے حکمرانوں تک کو اگر صوفیوں، درباروں، سجادہ نشینوں کی اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہوتی وہ یوں دھڑلے سے حکمرانی کرسکتے؟۔ بس ایک ہمارا مرشد صوفی شاہ عنایت ہے جسے یہ لوگ ہر ہر جگہ اپنے دکھانے کے دانت بنا کر پیش کرتے ہیں۔
کچھ باتیں سجادہ نشینوں ،گدی نشینوں اور ملاؤں کے بارے میں بھی کہنی ضروری ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سمجھا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں عموماً،اور بالخصوص امریکہ اور یورپ کے صنعتی ممالک میں تو مذہبی ایسٹیبلشمنٹس کارپوریشنیں بن چکی ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر کی طرح سیاست میں مداخلت کرتی ہیں ۔ مگر یہاں ہمارے منطقے میں اور بالخصوص بلوچستان میں توگذشتہ ربع صدی سے یہ طبقہ باقاعدہ سیاست ،اور یوں اقتد ار میں آچکا ہے اور باقاعدہ درجن بھرصوبائی وزیر رکھتا ہے ۔ہرسال ہر صوبائی اسمبلی کے ممبر کو پچیس کروڑ روپے ملتے رہے ہیں۔…..پانچ سال تک ہر وزیر سوا ارب روپے کا مالک ۔ یوں وہ اپنے طبقے کی بہت خدمت کرتے رہے ہیں۔……اداراتی انداز میں۔ ایسی خدمت کہ آج کا یہ روحانی سیاسی لیڈرا ب پہلے والا ملاّنہیں رہا۔
اب روحانی ومذہبی اسٹیبلشمنٹ کسی بھی دوسرے سیکٹر(صنعتی، کمرشل یا سروسز) کی طرح معیشت کا حصہ ہے۔ یہ سروسز سیکٹر کا حصہ ہے ۔معیشت کا مذہبی سیکٹر لاکھوں لوگوں کو ملازمتیں دیتا ہے اور وہ کاروباروں، عام ملازموں اور چھوٹے دکانداروں پر مشتمل ہے ۔ مذہبی سیکٹر بقیہ معیشت کی طرح مشینی بن جانے ،کمرشلائزیشن اور مانیٹرائزیشن کے ساتھ ڈھال دی کی گئی ہے۔ہماری روایتی معیشت میں ملاّ اور گدی نشین دوسرے دستکاروں جیسے ہوتے تھے جو کہ مرگوں ، پیدائشوں،شادیوں، ختم درود، اذانوں، امامت اور بچوں کوناظرہ قرآن پڑھانے اور دوسرے بنیادی دینی امور سکھانے کی خدمات مہیا کرتا تھا اور وہ ،یا اس کا جونیئر اپنے خاندان اور دوسرے ساتھی ملاؤں کے لئے دو دوقت کی روٹی گاؤں کے گھروں سے جمع کرتا تھا ۔دیگر دستکا روں کی طرح اسے ادائیگی فصل پکنے پر اجناس کی صورت ہوتی تھی۔ اہم خاندانی یا کمیونٹی معاملات میں اس سے مشور ہ نہیں کیا جاتا تھا ۔ مگراب دوسرے دستکاروں ہی کی طرح ملا وسجادہ نشین بھی محترم بن گیا جو اپنی خدمات جنس کے بجائے نقد پیسے پر فروخت کرتا ہے ۔ان کے ترقی یافتہ مقام نے انھیں خاندان اور کمیونٹی معاملات میں حصہ لینے حتیٰ کہ ان میں مداخلت کا موقع فراہم کیا ہے ۔
ایک اور بڑ ی تبدیلی نے بھی ملااور سجادہ نشین کو فائدہ بخشا۔ پرانے زمانوں میں ملا بچوں کو مسجد میں گروہ کی صورت میں پڑھا تا تھااور سجادہ نشیں ہسٹیر یا اور نظرِ بد کا دم چُھوکرتا تھا،مگر اب صورتحال بدل گئی ہے ۔ اب ملااور سجادہ نشین روحانی رسومات کے لئے اچھی خاصی ہفتہ وار یا ماہانہ فیس لیتاہے ۔ اس تبدیلی نے ان کو معاشی طور پر ایک محفوظ مڈل کلاس کا شخص بنا دیا ۔ انہیں خوراک مانگنے جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ اکاؤنٹنٹ یا وکیل کی طرح کا ایک پروفیشنل بن چکے ہیں ۔ نئی پولیٹیکل اکانومی اُن کے لئے کافی معاشی مواقع لائی ۔
اس پس منظر میں محض امریکہ، عرب ممالک یا جاسوسی اداروں پر ملاّاور سجادہ نشین کو طاقت ور بنانے ، یا ان کا رول تبدیل کرنے کاالزام دینا کا فی نہیں ہے ۔ ہمیں علم ہونا چاہئے کہ مذہبی تبلیغی طبقہ کافی خوشحال ہوگیا ہے اور وہ خود سے فنڈ پیدا کرسکتا ہے ۔ مذہبی تبلیغی طبقے کی پولیٹیکل اکانومی میں اس تبدیلی کو سنجیدہ لینا چاہئے!۔اور عرسوں ، سجادہ نشینیوں، تبلیغی اجتماعات اور مذہبی سیاسی پارٹیوں کی کامیاب بقاودوام کو سرمایہ دار انہ نظام کا مظہر سمجھنا چاہیے ۔ اس نئے معاشی طبقے کو حسب سابق فیوڈل رشتوں میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ روحانی طبقہ سرمایہ دارانہ معاشرے کاحصہ ہے اور اُس کے بالائی طبقات میں شامل ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ روحانی پیشواجاگیر داری سے سرمایہ داری نظام میں آن شامل ہواجب کہ ملّا جاگیر دار بنے بغیر ڈائر یکٹ جست لگا کرسرمایہ داری نظام کے اوپر ی، یا ،اوپری درمیانہ طبقے میں ترقی کرگیا۔
…..اور انہی بالائی طبقات کی پاکستان میں حکمرانی ہے ۔ یہاں کی ہر سر کارایک ایسی سرکا ر رہی جو اُ نہی خیالات کو پسند کرتی ہے جن میں راسخ انداز اختیار اندازکرنے کی صلاحیت ہو۔یہ سرکارملّا اور پیری مرشدی کو سرکاری طورپر سرپرستی مہیا کرتی ہے۔
راسخیت توجعلی سائنسوں(pseudosciences )،اورتواہمات کی نرسری ہوتی ہے۔تواہمات ہمارے سماج کے اوپری طبقات کی معاشی وسیاسی ضرورت ہوتی ہیں۔…….تواہمات ،روحانیت ،راسخیت اور طبقا تی استحصال گوشت وناخن کی طرح ساتھی بیلی ہوتی ہیں۔
چنانچہ شاہ لطیف ہو،مست توکلی ہو، اورشاہ عنا یت ،ہر سرکارکی کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی تعلیمات چھُپادی جائیں ،اور انہیں کرامتوں معجزوں سے بھر دیاجائے ۔ ان ’’کی‘‘ شاعری کے بجائے اُن’’پر‘‘کی گئی شاعری کو فروغ دیاجائے ۔ جس میں روحانی کی بجائے اُن کے جسمانی حسن کے تذکرے ہوں۔ اُن کی محنت کے بجائے کرامت کی باتیں ہوں۔ اور وہ جیتے جاگتے، دکھ تکا لیف جھیلتے ہوئے، جدوجہد میں مصروف انسانوں کے بجائے پنجابی فلموں کے سلطان راہی دکھائے جائیں۔ جو عوام الناس کو شامل کیے بغیر سارے دشمنوں کا تن تنہا صفایا کردیں اور ایک ہی گنڈاسے کے وار سے درجنوں دشمن ماردیں ……..اور ہم تا لیاں بجائیں ( ہمیں گذشتہ نصف صدی سے تالیاں بجانے کا عادی بنادیا گیا ۔مشاعروں میں’’واہ واہ ‘‘، قوالیوں میں’’حق حق‘‘ پر لگا دیا گیا )۔
ذراسوچیے اگران بزرگوں کی کرامت میں اولاد دینے ،روزی میں برکت ڈالتے ، اور دشمن کو زیر کرنے والا عقیدہ ختم ہوجائے تو کیا پھر بھی ان کے عرس اس قدر میلہ والے ہوں گے؟۔ کیا پھر بھی وزیراعظم وصدر ان کے مزار کو غسل دینے آنے کی ضرورت محسوس کریں گے؟۔ کیا پھر بھی دانشوروں کو ان پہ سیمینار کرانے ہانکا جائے گا؟۔ کیا پھر بھی امریکی وزیر خارجہ کو دوپٹہ پہنوا کر اِس مزار پر لایا جاسکے گا ؟۔کیا پھر بھی بے نظیر بھٹو کو کسی سجادہ نشین کے پائنتی تقدس میں ملبوس بٹھایا جاسکے گا؟۔ لگتا ہے کہ پھر ، وہاں کوئی نہیں ہوگا، صرف ہم ہوں گے۔………ہم جنہیں پتہ ہے کہ مست ولطیف ورومی شاعر ہیں ۔ انسان کی زندگی کے شاعرہیں ۔ دانشو ر ومصلح وانقلابی شاعر ۔وہ مو سیقی پسند ہیں ، رقص و سر دو حرکت وجنبش وتحر یک کے راہبر ہیں ، فرقہ بازی سے نفر ت کرتے ہیں ۔عوامی تحریک بھی موسیقی کے اصولوں پر، رقص کے قوانین پر چلاتے ہیں ۔جب بگ بینگ ہی میوزیکل ہے تو عوامی تحریک بھلا میو زیکل کیوں نہ ہو۔ مو سیقی ہی و فطر ت وکائنات پہ محیط ہے ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے