نومبر2011 کی شام امرت سے پہلی ٹیلی فونک گفتگو ہوئی ۔کھنکتی،شوخ زندگی سے بھرپو ر آواز۔۔کچھ کرنے کا تخلیقی جذبہ ۔۔۔شاعرات سے متعلق احوال درکار تھے،تفصیلا گفتگو ہوئی ۔رابطہ،وقتا فوقتا ہونے والی گفتگو نے باہم تعلقات میں دوستانہ راہیں استوار کیں۔دوسروں کے حوالے سے معلومات درکار ہوتیں تو امرت سے جس قدر ہو پاتانہایت خلوص سے معلومات فراہم کرتیں۔۔۔شروع میں اپنے حوالے سے معلومات شاہدہ جبین خان کے نام سے فراہم کیں ۔۔کچھ عرصہ گذرنے پر اس کی جانب سے درخواست ہوئی ۔۔۔’’میرا نام امرت عزیں لکھیے گا۔۔اور میں نے اس خواہش کا احترام کیا۔ چھوٹی عمر مگر ۔۔۔تخلیقی پختگی،سادگی،سنجیدگی اور اس پر احساس و فکر کا پھیلاؤ،دلوں کو فتح کرنے اور گھر کرنے کا ہنر ۔۔۔تمام خوبیاں نازک احساسات کی حامل اس شاعرہ میں مجتمع تھیں۔۔۔پھر مصروفیت،بھاگ دوڑ ،معمول کی افراتفری۔۔۔رابطہ منقطع ہو گیا۔۔۔کافی عرصے کے بعد اب ان کی تحریریں امرت مراد کے نام سے چھپنے لگیں۔۔ کئی مرتبہ جی چاہا کہ پوچھ لوں ۔۔۔یہ تبدیلی کیوں کر؟ مگر ہمت نہ کرسکی ۔۔کام مکمل ہو چکا تھا ۔۔اس وقت اس قسم کے ذاتی سوالات پوچھنے ۔۔کا شاید ۔۔حق نہیں رکھتی تھی۔۔۔امرت مراد۔۔۔اس نام نے تو گویا مہمیز کا کام کیا اب تواتر سے ان کی تحریریں اخبارات کی زینت بننے لگیں۔۔امرت کے اندر شاعرہ اور افسانہ نگار تو پہلے سے موجود تھی لیکن اظہار کا بھر پور موقع نہ مل سکا اور جب یہ موقع ملا تو اپنے جذبات و احساسات کا کھل کر شاعری و افسانہ نگاری کا حصہ بنایا۔۔۔اور پھر ایک دن بلوچی دیوان میں ڈاکٹر علی دوست بلوچ کی چونکا دینے والی تحریر پڑھی۔
’’جی ہاں یہ تمہیدی اقتباس ہم نے امرت کی ایک رپور تاثرسے یہاں رقم کی ہے جس وقت وہ ماہنامہ پربت کی ایڈیٹر تھیں بلوچستان کی یہ ادیبہ اور شاعرہ گذشتہ دنوں اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں ‘‘ (1)
سناٹے میں آنا فطری عمل تھا۔۔ساتھ ساتھ افضل مراد کا تذکرہ ۔۔۔حقیقت سمجھا گیا۔۔۔رہا نہ گیا تسنیم صنم سے رابطہ کیا ۔۔اور یوں ناگہانی انتقال پر بہت افسوس ہوا۔دو مثالی لکھاروں کی مثالی جوڑی تھی جو قدرت کے امر سے ٹوٹ گئی۔
ساتھ یہ افسوس بھی کہ کاش بلمشافہ ملاقات ہو پاتی۔۔
’’آرزوے وصال بے معنی
زندگی سے سوال بے معنی
تیرے جانے کے بعد میری جان
حسرت ماہ و سال بے معنی‘‘ (2)
بعض اوقات تخلیقی قوت دنیاوی بندشوں سے خود کو آزاد ہو کر کے اپنے ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہے۔کچھ ایسے ہی شکنجوں میں جکڑی شاعرہ ہر قسم کی بندش سے قطع تعلق ہو کر اصل نا م شاہدہ جبین ا و رقلمی ناموں امرت عزین و امرت مرادکے قلم سے اپنا آپ منواتی ہیں۔شاعری کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔ان کے افسانے ’’میزان‘‘یوم خواتین کی مناسبت سے ’’ننگا پن‘‘ کے علاوہ اور بھی بہت سارے افسانے ادبی صفحہ روزنامہ جنگ کوئٹہ میں طبع ہو چکے ہیں۔
شاعری و افسانوں کی تخلیق کے علاوہ مضامین وتبصرے بھی تحریر کرتی ہیں ۔14نومبر 1982کو لسبیلہ میں پیدا ہوئیں۔والد کا نام محمد اقبال لاسی ہے۔ مادری زبان سندھی ہے۔ابتدائی تعلیم لسبیلہ سے حاصل کی۔گورنمنٹ گرلز ہائی سکول لسبیلہ سے 1996میٹرک کیا۔ 1998 گورنمنٹ گرلز کالج لسبیلہ سے ایف اے اور اسی کالج سے2000 سے بی اے کیا۔بلوچستان یونیورسٹی میں بطور ریگولر طالبہ کے ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔ ایک سال تک پڑھنے کے بعد یونیورسٹی کے حالات کے پس منظر میں فائنل تک رسائی نہ ہونے پائی۔عارضی طور پر یہ سلسلہ رکنے کا انہیں کافی قلق رہا۔2002 میں پرائیویٹ طور پر ایم اے اردو،2007 میں ایم اے اسلامیات ،2004 میں بلوچستان یونیورسٹی لاہور کیمپس سے بی ایڈاور2006 میں ایم ایڈ کیا۔جن اخبارات و رسائل میں ان کی شاعری چھپتی رہی ہے وہاں ایڈیٹر کے نام لکھے گئے خطوط ’’نالے کا نام حبیب نالہ کیوں؟‘‘،’’22ویں توپ کی سلامی‘‘ جیسے حساس موضوعات پر خطوط کے ذریعے بحث چھڑتی ہیں۔ ابھی چہارم کی طالبہ تھیں کہ پہلی نظم لکھی۔یہ نظم بڑے بھائی سے لڑائی ہونے پر مردوں کے خلاف لکھی۔جس پربہنوں کی جانب سے کافی حوصلہ افزائی ہوئی یوں یہ سلسلہ چل نکلا۔تاہم والد کی سخت گیر طبیعت کے باعث طباعت کی جرات نہ کر سکیں۔2001 میں ایسے اخبارات و جرائد کا انتخاب کیا گیا جو گھر والوں کی نظر سے کم ہی گذرتے،فیملی میگزین ،نکھار انٹر نیشنل اسلام آبادمیں طبع ہونے والی شاعری طویل عرصے کے بعد بڑے بھائی کی معاونت سے ادبی صفحہ روزنامہ جنگ کوئٹہ کی زینت بنی۔جنوری 2013 سے بطور ایڈیٹر ماہنامہ ’’پربت‘‘سے وابستہ ہوئیں۔ خاندان میں شعرو سخن سے دوری اور کسی سے اصلاح نہ لینے کے باعث دلچسپی کے باوجود قطعہ ،رباعی ،حمد و نعت پر طبع آزمائی نہ کرسکیں۔البتہ نظم ،غزل اور ہائیکو کی صنف میں تخلیقی اظہار کیا۔ ان کی شاعری روشن مستقبل کے امکانات لیے ہوئے ہے۔
امرت کی فنی و فکری سرگرمیوں میں مزیدنکھار اس وقت پیدا ہوا جب وہ بلوچستان کی معروف ادبی شخصیت افضل مراد سے شادی کے بندھن میں بندھ گئیں۔ادبی منظر میں امرت کی ادبی سرگرمیوں کے لیے مستقبل میں روشن بشارت موجود تھی۔ادھورے تعلیمی سلسلے بھی دوبارہ جڑنے لگے۔ایم فل اردو کا کورس ورک مکمل ہو گیا اب تحقیقی تجویز کی تیاری کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا کہ غیر متوقع طور پر منکشف ہونے والی جان لیوا بیماری نے چلتی پھرتی متحرک زندگی کو شکست دے کر پیاروں سے الگ کردیا۔ حوصلہ مندی اور جگر داری سے بھرپور امرت مراد جنوری 2016 میں سینے کے سرطان کے باعث انتقال کر گیں،لیکن ان کی تخلیقات، ان کی ادبی بصیرت کا ثبوت ہمیشہ فراہم کرتی رہیں گی۔ان کے افسانوں کے متعلق ڈاکٹر شاہ محمد مری لکھتے ہیں:
’’مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ افسانے ہی لکھتی ۔اور ذرا پہلے سے لکھتی۔یا پھر ملک الموت کو اپنی ازلی ابدی جلد بازی ترک کردینی چاہیے تھی ۔محترمہ گوہر ملک کے بعد بلوچستان میں یہ دوسری بڑی افسانہ نگار ثابت ہو سکتی تھی۔‘‘ (3)
شاعری میں امرت نے غزل اور نظم دونوں اصناف پر طبع آزمائی کی ،مگر امرت کا رجحان نظم کی جانب زیادہ تھا۔انہوں نے آزادنظم،پابند نظم،نثری نظم اور ہائیکو لکھ کر اپنے انفرادی وجود کا بھر پور اعلان کیا۔نظموں کی تعدادغزلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔غزلیں عہد نو میں لکھی جانے والی فکری غزلوں سے گہرے طور پر مربوط ہیں۔شعری ہنر مندی سے بہرہ ور ہونے کے باوجود تخلیقی بندش کے باعث شاعرہ احساسات وجذبات ،روح کے تار وں کاسلسلہ غزل سے استوار تو رکھتی ہیں مگردل کی بات سر منبر پر کہنے سے تامل کاعنصر بھی دکھائی دیتا ہے۔
غزل فنی و فکری مطالعہ:
امرت مراد اردو غزل کے مروجہ روایتی موضوعات کو مرکز فکر و خیال بناتی ہیں۔حسن کی فسوں خیزی،عشق کا اضطراب ،ہجرو فراق ،وصال محبوب کی سحر کاری کے تمام عناصر مل جل کر غزل کے سانچے میں ڈھلتے ہیں۔ اس دور کی دیگر غزل گو شاعرات کی طرح ان کی غزلیں بھی فرضی حسن و عشق کے موضوعات کے گرد گھومتی ہیں۔ ان غزلوں میں زندگی کے مسئلے مسائل،کائنات کے اہم حقائق سے سجنے سنورنے کا وطیرہ نہیں پایا جاتا۔اس حوالے سے ان میں روایتی اظہار کے علاوہ کوئی انوکھا پن یا نئی بات نظر نہیں آتی۔فنی اعتبار سے ان غزلوں میں مطلع سے لے کرمقطع تک ،ردیف و قوافی کے علاوہ دیگر فنی لوازم سمیت تمام خصوصیات ہلکے و تیز رنگوں سے مل جاتے ہیں۔ موسم سے مستعارے کئی نئے استعارے و علامتیں، جذبات و احساسات کی مناسبت سے لفظوں کا استعمال نئے معانی و مفاہیم کا باعث بنتے ہیں۔خار، بہار،گل،ڈال ،پات،
چمن،خواہشوں کے بیج،اشکوں کی برسات،پھولوں کی مسکان،موسمِ دعاموسمی کیفیات کے تناظر میں علامت،تشبیہات و استعارات ،تراکیب سے شعری تجربات ،پرانی لفطیات سے نئے مفاہیم میں ڈھل کر سامنے آتے ہیں۔غیر مردف غزل جس میں احساسات،جذبات،پات،سوغات،حالات،صدمات اور برسات قوافی کا استعمال کیا گیا ہے۔اس غزل میں رمزیت ،کنایت اور اشاریت سے قلبی وارداتوں،حالات کی ستم گری کا عمدگی سے اظہار ملتا ہے۔ماضی کے دکھ بھرے حالات کے دہرانے سے جو درد بھری کیفیت طاری ہوتی ہے اسے سوکھی لکڑی کے مصداق ٹھہرانا جو محض چنگاری سے بھی بھڑک اٹھتی ہے۔چمن،مالی کے ہاتھوں اجڑے پات،ڈال کی شعری علامتوں سے غزل کا حسن اجاگر کیا ہے۔ہجروتنہائی کے قصے سناتی ان غزلوں میں تکرار الفاظ کرچی ،کرچی،قطرہ،قطرہ ،پے در پے قوافی سے کیفیت پیدا کی گئی ہے۔
نظم فنی و فکری مطالعہ:
امرت مرادکے ہاں فنی لوازم کو ایک طرف رکھ کر اگر ان کی غزلوں اور نظموں کا موازانہ کیا جائے تو زبان و بیان کی بدولت ان کی نظموں اور غزلوں میںیکسانیت کا احساس دکھائی دیتا ہے۔انہوں نے کافی نظمیں لکھیں۔ ’’بلی میاوں‘‘،’’آؤکھیلیں آنکھ مچولی‘‘،’’میرا باجا‘‘،’’اگلی کرو بات‘‘اپنے عنوان سے ہی ظاہر کرتی ہیں کہ یہ نظمیں بچوں کے لئے لکھی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی انہوں نے نظم کی صنف میں اچھا خاصا حصہ ڈالا۔،’’اک انداہ‘‘،’’چاہت کے رنگ‘‘،’’کشمیری بچی کی عید‘‘،’’امید‘‘،’’روٹین‘‘،’’حبس کا موسم‘‘،’’فرصت‘‘،’’بھیگا لہجہ‘‘،’’شرط وفا‘‘،’’ایک وہ شخص جو‘‘،’’نئی آوازیں‘‘ کے عنوان سے ماں پر لکھی گئی نظم اور’’ میرے بابا سائیں‘‘،’’ماں‘‘،’’پراٹھا‘‘،مائیں سانجھی ہوتی ہیں‘‘جیسی نظمیں لکھ کر یہ ثابت کیا کہ انہوں نے خود کو کسی ایک موضوع میں قید نہیں کیا ۔امرت مراد کا شمار دور جدید کی ابھرتی ان چند شاعرات میں ہوتا ہے جن کی نظموں میں جذبات و احساسات کی ترجمانی کے ساتھ قلیل مقدار میں ہی سہی تاہم عصری شعور کی عکاسی ضرور ملتی ہے۔نظموں کے اس طویل سلسلے کے باوجود ان کی چند ہی نظمیں متوجہ کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں۔ماں پر لکھی گئی نظم ’’نئی آوازیں ‘‘میں صاحب فکر شاعرہ کی مثل حقیقت پسندی سے قائل کرتی ہیں ۔یہ نظم دراصل ان احسانات ،مقام و مرتبے کانرم گرم زاویوں سے احساس دلاتی ہے جونئی نسل فراموش کر بیٹھی ہے۔بن موت کے نہ مارنے کی تلقین ،بے رخی برت کر دکھوں کے تحفے،ریشمی آنکھوں میں نفرت کی سلائیاں پھیرنے سے ناصحانہ انداز میں اجتناب برتنے پر آمادہ کرتی ہیں۔آخری مصرعے ’’وہ تیری ماں بھی ہے ‘‘ لہجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اس نظم میں فن کو پس پشت ڈال کر صرف فکر کو توانائی بخشی گئی ہے۔ماں پر لکھی گئی یہ نظم ارد گرد پھیلی دنیا کی سوچ کے مخصوص زاویوں کو دیکھ، پرکھ کر اپنی ماں کی یادوں،خراج تحسین کے احوال نہیں سناتی بلکہ ،اجتماعی تلخ سوچ سے تمام ماؤں کی ترجمان بن کر سوچنے کا منفرد اندازسامنے لاتی ہے۔یہ وہ مائیں ہیں جو اپنے احسانات کے بدلے اولاد کی ستم گری کا شکار ہیں۔ماں سے روایتی عقیدت و محبت کا اظہار ان کی ایک اور نظم ’’ماں‘‘ میں ملتا ہے۔یہاں صبح،شام،دھوپ،گلاب،مہتاب، نخل سایہ دار،موسم بہارجیسے فطری عناصرکے سہارے حقیقی، سچے جذبات و احساسات پر جوش نشاطیہ لہجے میں بیان کرتی ہیں۔’’اور ادی مر گئی‘‘،’’خاک ذادے‘‘،’’دیوار کے اس پار‘‘میں امرت کا لہجہ بیک وقت اداسی اور تلخی میں گھل مل کر اظہار کی سچائی کو واضح کرتا ہے۔،’’تلخ حقیقت‘‘،’’Try again‘‘،’’شرط وفا‘‘،اتنا بھی آسان نہیں ہے‘‘،’’محبت ہجرت نہ کر جائے‘‘،دل کی کیفیات ،محبت کا بیان قرینے اور سلیقے سے بیان کرتی ہیں۔امرت کی نظمیں ’’احساس !تم مر کیوں نہیں جاتے؟؟‘‘،’’حقوق العباد‘‘
،’’MOSEGOR‘‘، ’’مجھے شوگرنہ ہوجائے‘‘زندگی کے مکروہ چہرے کو سنجیدگی سے واضح کرتی ہیں۔ان میں سیاسی،سماجی،معاشی ناہمواریاں،مادہ پرستی خودغرضی کی گونج سنائی دیتی ہے۔سیمنار،کانفرنس میں ایسے لو گوں کی کمی نہیں ہوتی کہ جب روسٹم پرآکھڑے ہوتے ہیں تومو ضوع کتنااہم و موثرہی کیوں نہ ہو ،طویل ہو جائے توسننے والے اکتا ہٹ کاشکار ہوجاتے ہیں اور مجبور انتظامیہ کو پرچی کی صورت یاد دلانا پڑتاہے کہ اب آپ کاوقت ختم ہو چکاہے۔ ’’اب یہ Trendبن گیاہے‘‘ میں اس سماجی مسئلے کوہلکے پھلکے ناصحانہ اندازمیں واضح کیا ہے،کہ موجودہ زمانہ کی برق رفتاری،تیزی یہ تقاضا کرتی ہے کہ اختصار اپنا یا جائے۔جامع اور مدلل انداز میں موقف بیا ن کر کے دوسروں کو کہنے کا موقع دیا جائے ،وگرنہ طویل موقف سے اپنی اولاد بھی اکتاہٹ شکار ہوتی ہے۔گفتگو کم،موثر اور مدلل ہو تو ہی سامعین کو متوجہ کرتی ہے۔نئے مفاہم اور جدید حسیت کی آئینہ دار یہ نظم ثابت کرتی ہے کہ شاعرہ کے سوچنے کا انداز جدا بھی ہے اور فعال بھی۔
امرت مراد کشمیر میں بپا قیامت خیز ی کا احوال پابند نظم ’’کشمیری بچی کی عید‘‘ میں سنا کر انسان دوستی کا اظہار کرتی ہیں۔بے چارگی کے بیان کے ساتھ دیگر نظموں کے برعکس اس نظم میں انداز و اسلوب سے فنی سلیقہ بہتر انداز میں نمایاں ہوتا ہے۔ہر دو مصرعوں میں الگ الگ قافیہ سرنگوں،کہوں،خواب سرنگوں،کہوں،خواب،نایاب،گونج،کونج،اب شب،روؤں،سوؤں،بال ،خدوخال،عید،دیداور دوتین اشعار کے وقفے یا پھر تسلسل سے آتے ردیف کو،کہاں،ہیں،ہے ردیف سے جوڑ کر،تکرار لفظی سے فکر کو نمایاں کرنے کے ساتھ فن پر بھی توجہ دیتی ہیں۔یہ سلیقہ پھیکے ،تیز رنگوں کے ملے جلے امتزاج سے نظم’’فرصت‘‘ میں بھی دکھائی دیتاہے۔برسات،پہاڑوں،پیڑ، ستاروں،موتیے کی کلیوں،برگ و بارکے گوناگوں مناظر کی مسحوریت و دلکشی سے روٹھنے ،منانے،سچی محبت کے تجربوں اور جدائی کے خلا کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ان کی دیگر نظموں میں شاخوں،پھولوں،دھوپ،سایہ،سورج،چاند،گیت،برف،پھولوں،دھوپ،سایہ،سورج،چاند،گیت ، ساون،بہاروں،ساحل کی بکھری ریت،صحرا مظاہرفطرت میں دلچسپی رومانوی اندازِ نظرکی غمازی کرنے کے ساتھ فکری تصویروں کو اجاگر کرنے میں بھی معاون بنتے ہیں۔یہ صورت حال انسانی حرکات و سکنات،اندرونی کیفیات پھینچے ہونٹوں،سپاٹ، چہرے،انجان آنکھوں، بھیگے لہجے جیسے الفاظ کے اظہار سے بھی ملتی ہے۔ امیدوں کی مالا،سوچ کے آنگن،سرد مہری کی برف،یاد کا چاند،یادوں کے پنجرے،امید کا پنچھی،میٹھی ممتا کا جام شعریت بھری تشبیہات بھی اظہار کا ذریعہ بنتی ہیں۔امرت کی نظمیں بے ساختہ بیان سے معمور ہیں ۔معاشرتی ،سیاسی اورسماجی المیوں کے بیان کے ساتھ ساتھ ،زمانے کے بدلتے تقاضوں،دلی کیفیات کا رچاؤ دکھائی دیتا ہے۔
ہائیکو : فنی و فکری مطالعہ
امرت مرادنے ہائیکو کے مروجہ روایتوں کی پاسداری کرتے ہوئے محبت کے نازک احساسات کوساون،پھولوں،
رات،چاند کی چاندنی،پانی سے ہم کلامی کے ذریعے مربوط کیا۔فطرت سمونے سے جاپانی روایتوں کی امین بنتی ہیں تو قافیہ ردیف کے استعمال سے فنی نوک پلک سنوارنے کی کوشش انہیں پاکستانی ہائیکو گو شعراء کے قریب کر دیتی ہے ۔’’جدید نظم میں ہائیکو کا جواز‘‘ میں امرت جدید نظم کے ہمہ جہت فکری وسعت کے امکانات اور ہائیکو کی فنی و فکری امکانی وسعتوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:
’’پاکستان آکر اس کے شعور میں بالیدگی کا عنصر پیدا ہوا تو ہائیکو داخلی کے علاوہ خارجی عناصر سے بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکی ۔وہ فطرت اور موسم کی حدوں سے نکل کر معا شرتی مسائل،سماجی ناہمواری ۔۔۔مسائل کے ساتھ ساتھ سامراجی قوتوں کے خلاف آواز بلند کرنے لگی اس کی سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔‘‘(4)
فنی لوازم کو دیگر پاکستانی ہائیکو گو شعراء کی طرح اس زاوئیے سے برتتی ہیں کہ کبھی پہلے و تیسرے مصرعے میں بہتا،سہتا قوافی کے ساتھ ردیف ہے تو کبھی رات،مات ،چھنکائے،مسکائے جیسے صحیح قوافی ملتے ہیں تو تازگی لانے کے لئے اوک،لوگ ، اگا،لا،موسم،تم ،ڈوری،پوری جیسے کم مربوط قوافی بھی لاتی ہیں۔ان کے ہائیکو میں کوئی نئی ردیف یا قافیہ نہیں ملتا ،بلکہ اردو ہائیکو میں ان کا استعمال اکثر دکھائی دیتا ہے۔ان کے بعض ہائیکو میں خالص نسائی با زگشت سنائی دیتی ہے جب وہ ماں کو دکھوں کا احوال سناتی لڑکی،پائل چھن چھنکاتی ،آنکھ میں پھیلے کاجل،’’پانی بھرتی لڑکی‘‘ جیسے الفاظ و مصرعوں کا استعمال کرتی ہیں۔دکھوں کا احوال سناتے یہ ہائیکو نئے لہجے و رنگ کی بدولت ان کے دیگر ہائیکو کے مقابلے میں زیادہ بہتری سے متوجہ کرتے ہیں۔ان کی دیگر شاعری کی طرح ہائیکو میں بھی تکرار لفظی کا استعمال بہت ملتا ہے۔ ساون ساون،ہولے ہولے،تاراتاراجسے الفاظ برت کر نیا آہنگ دینے کی سعی کرتی ہیں۔ان کے ہائیکوروایت اور جدید طرز احساس کے ملے جلے سانچوں میں ڈھل کر سامنے آتے ہیں ۔
انتقال سے غالبا دو سال قبل نظم ’’نذرحبیب جالب‘‘میں خیا ل کی گہرائی،جذبوں کی شدت اور الفاظ کا چناؤ،موقع محل کے مطابق ان کا استعمال اب امرت پر پورے اترتے ہیں۔
’’بچھڑے جو اس کمال سے دنیا نے یہ کہا
چاہت کا ایک باب کہیں خام رہ گیا‘‘(5)
کومل اور نرم نازک جذبوں سے سینچ کر شاعری اور مضامین تخلیق کرنے والی یہ شاعرہ اب ہمارے بیچ میں نہیں ہے ،البتہ یہ حساس اور توانا ہو گیا ہے۔ جب تک کسی عظیم شخصیت کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں ہماری بند ہوتی ہیں اور ان کی بند ہوتی ہیں تو ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔امرت کی وفات کے بعد افضل مراد کی شاعری کا محورومرکز امرت کی ذات ٹہرتی ہے۔
’’پردہ ڈال دیا
تم نے میری چاہت پر
صدمہ ڈال دیا ‘‘ (6)
ان کی وفات کے بعد بکھرے ہو ئے مواد کو افضل مراد نے مجتمع کیا۔خوبصورت سرورق،گرپوش،عقب پہ امرت کی تروتازہ،شادابی سے بھرپور بولتی تصویرشعری مجموعہ ’’پیاس‘‘، ’’نیوکالج پبلی کیشنز‘‘ سے طبع کیا گیاہے۔ افسانوی مجموعہ ’’گیلاکاغذ‘‘ کے نام سے ہے ۔جس میں پندرہ افسانے مکمل اور آخری افسانہ ’’تحقیقی مقالہ‘‘ نامکمل ہے جس کاجواز افسانے کے اختتام پر یہ بتایا گیا ہے کہ امرت نے یہ افسانہ بستر مرگ پر لکھنا شروع کیاتھا ،ناگہانی موت کے سبب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ ’’پیاس‘‘118نثری نظموں پر مشتمل ہے۔
’’اگر درد دل رپورٹ ہوتا
اور میرا بائی پاس ہوتا
تو جانے میری مری ہوئی خواہشوں
کی باقیات مل جاتی
تو ایک اور نیا
موہنجوڈارو دریافت ہوجاتا‘‘(7)
نظم کے حوالے سے امرت نے نت نئے زاویے اور رجحانات کو سامنے لانے کی سعی کی ہے۔ اپنی ذات کے بیان کو اورزندگی کو اپنے وقت کے تقاضوں،نت نئے مشاہدوں اور تجربوں کے ساتھ برتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات

1۔علی دوست بلوچ،ڈاکٹر:’’بلوچی دیوان‘‘،مشمولہ روزنامہ جنگ،کوئٹہ۔
2۔افضل مراد: مشمولہ روزنامہ جنگ،کوئٹہ۔
3۔شاہ محمد مری ،ڈاکٹر:’’گیلا کاغذ‘‘ص ندارد۔
4۔امرت مراد:’’جدیدنظم میں ہائیکو کا جواز‘‘،مشمولہ روزنامہ جنگ،کوئٹہ۔
5۔امرت مراد:’’نذرِحبیب جالب‘‘،مشمولہ روزنامہ جنگ،کوئٹہ۔
6۔افضل مراد:مشمولہ روزنامہ جنگ،کوئٹہ۔
7۔امرت مراد:’’پیاس‘‘،ص143۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتابیات
1۔امرت مراد::’’گیلا کاغذ‘‘،کوئٹہ،انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈپبلی کیشن۔2016۔
2۔امرت مراد:’’پیاس‘‘،نیو کالج پبلی کیشنز،لاہور2016۔
اخبارات
3۔افضل مراد:’’ہائیکو‘‘،مشمولہ روزنامہ جنگ،کوئٹہ،24 فروری 2016
4۔افضل مراد: مشمولہ روزنامہ جنگ،کوئٹہ،16مارچ 2016۔
5۔امرت مراد:’’جدیدنظم میں ہائیکو کا جواز‘‘،مشمولہ روزنامہ جنگ،کوئٹہ،20 نومبر 2014ع۔
6۔امرت مراد:’’نذرِحبیب جالب‘‘،مشمولہ روزنامہ جنگ،کوئٹہ،7 اگست 2014ع۔
7۔علی دوست بلوچ،ڈاکٹر:’’بلوچی دیوان‘‘، مشمولہ روزنامہ جنگ کوئٹہ ،13 جنوری 2016۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے