شعرو ادب کی دنیا سے اگر ’’تنقید ‘‘کو منہا کردیا جائے تو شعری اور ادبی تفہیم کے دروازے بند ہوجائیں گے کیونکہ تفہیماتِ ادب اور تحقیق و تجزیہ کے لیے تنقید بنیادی حوالہ ہے۔ لیکن اسے صرف ادب کا حوالہ سمجھنا بھی صحیح نہیں ۔ تنقید کی اپنی اہمیت ہے اور یہ اپنے طور پر خود ادب بھی ہے ۔گزشتہ دو صدیوں میں ادبیات کے میدان میں تنقید ایک بڑے ڈسپلن کے طور پر متعارف ہوئی ہے ۔ تنقید ،جستجو اور کاوش سے عبارت ہے ۔جس کی تحریک انسان کے فطری ذوقِ جستجو ، تجسس اور نئی باتوں کی دریافت ، حصولِ علم اور اپنے تجربات کو بیان کرنے کے جذبے سے ہوتی ہے ۔ اس فکر اور قول کے پیش نظر مغربی نقاد آرنلڈ تنقید کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:’’ دنیا میں اچھی سے اچھی باتیں سوچی اور معلوم کی گئی ہوں اور پھر ان کی جستجو اور کھوج کی ایک والہانہ خواہش کا عنوان ’’تنقید ‘‘ہے۔ چاہے اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے کیوں نہ ہو ۔‘‘ اس لیے آسکر وائلڈ نے کہا تھا کہ :’’جس دور میں اچھی تنقید موجود نہ ہو اس عہد میں اچھا ادب تخلیق نہیں ہوسکتا ۔‘‘
اور پروفیسر آل محمد سرور نے اس بات کی مزید وضاحت اس طرح بیان کردی کہ:’’اچھی تنقید محض معلومات ہی فراہم نہیں کرتی بلکہ وہ سب کام کرتی ہے جو ایک مؤرخ ، ماہر نفسیات ، ایک شاعر اور ایک پیغمبر کرتا ہے ۔ تنقید ذہن میں روشنی کرتی ہے اور یہ روشنی اتنی ضروری ہے کہ بعض اوقات اس کی عدم موجودگی میں تخلیقی جوہر میں کسی شے کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔‘‘اس بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تنقید ادب عالیہ کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ لیکن پاکستان کی علاقائی زبانوں میں بڑی تنقید کا فقدان ہے ۔جس سے یہ خطرہ پیدا ہورہا ہے کہ یہاں عظیم شعرو ادب کا سلسلہ کہیں منقطع نہ ہوجائے ۔
اس سوال کا جواب یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ انھی قومی زبانوں (پنجابی ، سندھی ، سرائیکی ، بلوچی اور پشتو)میں وارث شاہ ، سچل سر مست ، خواجہ غلام فرید ، مست توکلی اور خوشحال خان خٹک جیسے عظیم شاعر بھی تو پیدا ہوئے اور اس وقت تنقید اور تنقیدی افکار کا کسی بھی سطح پر چرچا نہ تھا ۔ لیکن ایک بات ضرور تھی کہ ان زبانوں کی مالک قومیں تہذیبی اعتبار سے کامل اور پختہ تھیں اور وہ صدیوں سے اپنی الگ اور منفرد شناخت کے ساتھ زندہ تھیں ۔اس لیے ایلیٹ کے نزدیک :’’کلاسیک اس وقت وجود میں آتا ہے جب کوئی تہذیب کامل یا پختہ ہوچکی ہوتی ہے ، اس کا ادب اور زبان کامل ہوچکی ہوتی ہے ۔ کلاسیک حد درجہ مہذب اور ترقی یافتہ دماغ کا کارنامہ بھی تو ہوتا ہے جو اپنی تہذیب و زبان کی سب خوبیوں کو جامعیت کی صورت دے کر ان کو آفاقی درجہ دلا دیتا ہے ۔ دماغ کی پختگی ، زبان کی پختگی اور اسلوب کی آفاقی جامعیت ایک کلاسیک کے اوصاف ہیں ۔‘‘اس تناظر میں وادی سندھ میں بسنے والی قومیں مکمل ، سچی اور زندہ تہذیب کی رکھوالی تھیں ۔ اس لیے یہاں خواجہ فرید جیسے شعراء نے لاجواب شاعری کی اور اپنا لینڈ سکیپ اسی دھرتی کو بنایا ۔
سرائیکی زبان جو اپنے عقب میں طویل تاریخ اور بڑی تہذیب رکھتی ہے وہاں اس کے شعر وادب کی پرکھ کے لیے تنقیدی ، افکار اور اسالیب نہ ہونے کے برابر ہیں اور میں اسلم رسول پوری کی اس بات کے ساتھ مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں :’’موجودہ سرائیکی ادبی تنقید زیادہ تر عملی ادبی تنقید ہے ۔ نظر ی تنقید کا نسبتاً فقدان ہے ۔ اس کے علاوہ یہ تنقید تاثراتی تنقید کے زمرے میں آتی ہے اور یہ ماضی یا آج کے مختلف ادبی نظریات سے نابلد ہے اور کہیں بھی ان کا اطلاق نہیں کیا گیا ۔ اس لیے یہ زیادہ تر ایک ادھوری تنقید ہے جو قاری میں سوچنے اور سمجھنے کے عمل کو تحریک نہیں دیتی اور یہ عملی تنقید زیادہ تر شائع ہونے والی سرائیکی کتب کے جائزوں یا تبصروں پر مبنی ہوتی ہے یا پھر کسی لکھاری کے کام کا جائزہ ۔ سرائیکی میں نظری تنقید پر کام کا رجحان بہت کم ہے ۔بعض تخلیقی لکھاری ابھی تک اردو سے اپنا دامن ہی نہیں چھڑا سکے اوروہ سرائیکی ادبی تنقید بھی اردو زبان میں لکھتے ہیں ۔یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح اردو کا نقاد آج تک اپنا دامن مغربی تنقید سے نہیں چھڑا سکا ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ عالمی شعریات اور ادبیات کو جو فنی اور فکری توانائی ملی وہ اہل مغرب ہی سے ملی ۔
ہمارے ہاں تنقید کا مشرقی تناظر بھی موجود ہے جو فارسی سے اردو میں منتقل ہوا،فارسی زبان کے ساتھ ساتھ عباسی عہد میں عربوں نے بھی تنقیدی افکار متعین کرنے میں زبردست کاوشیں کی تھیں جو آج زبانِ اردو میں ترجمہ ہوچکی ہیں ۔ سرائیکی زبان میں آج تک شعرو ادب کے اصولوں پر کوئی مبسوط کتاب نہیں لکھی گئی ، جس کی وجہ سے تخلیق کار کی ذہنی تشکیل میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ تخلیق اور تنقید کے مابین ایک بڑا رابطہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں (تخلیق اور تنقید ) ایک دوسرے کے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں ۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ ان دونوں میں کسے اولیت ہے اگر ہم ادب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ یہ دونوں صلاحیتیں ایک دوسرے کے فروغ کے لیے ممدو معاون ہوتی ہیں ۔ تنقیدی اصول ہمیشہ فنی تخلیقات کی بنیادپر استوار ہوتے ہیں اور عظیم فن پاروں سے اخذ کیے جاتے ہیں ۔ مگر ایک بار جب یہ اصول وضع کر لیے جاتے ہیں تو آئندہ فنی تخلیق کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
جدیدسرائیکی شاعری کا بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ اس کا اپنے کلاسک سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے ۔ اردو کی مغلوبیت نے اسے ’’کافی ‘‘کے باطنی احساس سے بالکل الگ کردیا ہے ۔ سرائیکی شاعری کے گزشتہ تناظر میں گیت ، ماہیا ، ٹپا ، سمی ، دوہڑا اور کافی اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ موجود ہیں مگر آج کے سرائیکی شاعر نے نظم معریٰ ، آزاد نظم ، نثری نظم ، غزل ، ہائیکو کے تتبع میں سرائیکی شعری روایت کو بالکل نئے آہنگ سے قبول کر کے اپنی شعری روایت سے منہ موڑلیا ہے ۔ اب اس کی علامتیں ، استعارے ، تلازمے ، کنائے ، اشارے اور تشبیہیں سرائیکی لینڈ سکیپ کی بجائے کہیں اور سے کشید ہونے لگی ہیں ، یہی حال سرائیکی نثر بالخصوص ’’سرائیکی تنقید ‘‘کا ہے ۔ سرائیکی ادب کا بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں تنقید کا نام و نشان تک نہیں۔ ہم عزیز شاہد ، اشو لعل اور رفعت عباس کو کب تک سرسری تجزیوں اور تبصروں سے پرکھتے رہیں گے ۔ ان جیسے شعراء کے ذہنی ارتقاء اور ان کے استعاراتی نظام کو سمجھنے کے لیے سطحی علم ناکافی ہے ۔ عزیز شاہد پورے وسیب کا شاعر ہے۔ اس کے ماحول کو سمجھے بغیر ان کی تحلیل نفسی ناممکن ہے۔ اشو لعل کو تھلوچی تہذیب اور سندھو ثقافت کے تناظر میں لے کر ہی’’ ڈی کوڈ‘‘ کیا جا سکتا ہے اور رفعت عباس کی شاعری کو چناب کی لہروں اور گردو نواح کے فطرتی لینڈ سکیپ کی گہرائی میں جا کر ہی سمجھا جا سکتا ہے ۔ ہم عجیب لوگ ہیں تنقیدی ادبی اور شعری مباحث کو سمجھے بغیر شاعری کیے جا رہے ہیں ۔ اور جب اپنے شعراء کی شاعری کو قارئین کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے تو اردو میں ہی پڑھے گئے تبصروں اور تجزیوں کے پس منظر میں محدود مطالعے کے زور پر دو چار سطریں لکھ دیتے ہیں اور بغلیں بجاتے ہیں کہ ہم نے فلاں شاعر کا تنقیدی تجزیہ پیش کر دیا ہے۔اردو کے مقابلے میں سرائیکی زبان و ادب کا یہ امتیاز ہے کہ اس کے عقب میں بڑی تہذیب ، بڑی شعری روایت، تاریخ ، اساطیر اور لوک ادب موجود ہے ۔ ہمارے شعراء کی ایک بڑی کھیپ اس تناظر سے نابلدہے۔ وہ اپنی علمی ، ادبی اور شعری روایت کو اپنے اساطیر اور لوک ادب سے وابستہ کرتے ہی نہیں ۔ اسی طرح سرائیکی تنقید ہے ۔ہم نے چند جملے مغربی ناقدین کے رٹے ہوئے ہیں اور انھی جملوں کے آغاز سے تنقیدی مطالعات کرتے رہتے ہیں۔مذکورہ بالا تینوں شاعروں کے ہاں سرائیکی وسیب کی ریتیں ، روایتیں ، اساطیری حوالے اور لوک ادب سے ماخوذ شعری علامتیں دکھائی دیتی ہیں ۔ انہی علامتوں کی مو جودگی نے ان شعراء کو تخلیقی ادائیں بخشی ہے کیونکہ سرائیکی وسیب کا مجموعی احساس ، جس میں محرومیوں کی نشاندہی بھی ہے ۔ لطیف جذبات و احساسات کا اظہار بھی ہے جن میں پورا وسیب جیتا جاگتا دکھائی دیتا ہے ۔ اگر آج کے سرائیکی نقاد نے اپنی شاعری کو اس پس منظر میں پیش نہ کیا تو پھر آنے والی نسلیں تھل ، دمان ، روہی اور اپنے پورے لوک ادب اور لینڈ سکیپ سے نا آشنا رہیں گی ۔؂۱۱گزشتہ صدی میں رومانیت ، مارکسزم ، وجودیت اور دیگر علوم فنون اور کسی حد تک سائنس کی متنوع تھیوریز نے عالمی ادبیات کو متاثر کیا اور شعری اور نثری اسالیب نئے سرے سے متعین ہوئے اور آج کی بحث میں ساختیات ، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے مباحث نے عظیم فنکاروں کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کیا ہے۔ اگر چہ سرائیکی زبان جو اس وقت عظیم شاعری قارئین کو دے رہی ہے اس کی تفہیم کے لیے مذکورہ مباحث سے استفادہ نہیں کیا جا رہا ۔ عالمی سطح پر ’’مین سٹریم ‘‘ میں شامل ہونے کے لیے ’’مقامیت‘‘ سے بہت آگے جا کرخود کو منوانے کا عمل تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا تو پھر بڑی تخلیق کی حوصلہ افزائی کس طرح ہو گی ؟
شاید یہ المیہ پاکستان کی تمام قومی زبانوں کا مقدر بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری جامعات جہاں ایم ۔ اے ، ایم ۔ فل، اور پی ۔ ایچ ڈی کی سطح کی تحقیق ہو رہی ہے وہاں بھی چور دروازوں سے ’’کاغذ کے پرزے‘‘ جن پر ڈگری کا عنوان درج ہوتا ہے ، برابر تقسیم ہو رہے ہیں ۔ شخصیات پر مقالے لکھوانے کی بجائے علمی اور فلسفیانہ موضوعات پر کام ہونا چاہیے ۔ مثلاً ڈاکٹر اشو لعل کی شاعری کا ساختیاتی مطالعہ یا لسانیاتی اور نفسیاتی مطالعہ وغیرہ ۔ اسی طرح سرائیکی کے لوک ادب کا جدیدیت کے تناظر میں تحقیق اور تنقیدیا سرائیکی شاعری کا اساطیری مطالعہ وغیرہ۔ بلاشبہ زبان و ادب کا ارتقاء ریاستی سرپرستی کے بغیر سست روی کا شکار ہو جاتا ہے اور ہمارے ہاں یہ خلا موجود ہے لیکن ریاست سرائیکی شعبہ جات کے کام میں رکاوٹ تو نہیں اور نہ ہی انفرادی سطح پر کسی طاقت نے ہمارا ہاتھ روک رکھا ہے کہ ہم ادبی مطالعات کو مختلف افکار اور نظریات کی روشنی میں آگے نہ بڑھائیں ؟تخلیق کے لیے وجدانی ذوق ناگزیر ہے مگر تنقید کے لیے ذوق کے ساتھ گہرے مطالعے، تاریخی شعور اور اپنی علمی ادبی اور شعری روایت سے آشنائی بھی لازم ہے ،نہیں تو ہم سطحی اور سستے مذاق سے عبارت تبصرے اور تجزیے ہی پڑھتے رہیں گے اور اپنی شاعری کو کوئی بڑی اور ٹھوس علمی بنیاد فراہم نہیں کر سکیں گے۔
سرائیکی زبان میں اب تک صرف ایک تنقیدی دبستان متعارف ہوا ہے اور یہ دبستان بھی کسی مربوط صورت میں موجود نہیں کیونکہ دبستان کا یہ صرف ’’واہ‘‘ کا پہلو ہے۔ یہ تاثراتی تنقید کا سب سے کمزور پہلو ہے جس کی بدولت ناپختہ شاعر بھی خود کو خواجہ فرید سمجھنے لگے ہیں ۔ اس لیے سرائیکی لکھاریوں کو اپنے تخلیقی ورثے کی حفاظت کے لیے معاصر عالمی تنقید سے روشنی لینا پڑے گی اور پھر اس عالمی تنقید کو وسیبی علمی ، شعری اور ادبی حوالوں سے منسلک کر کے سرائیکی شعرو ادب کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کر کے بڑی تخلیقات کے لیے نئی راہیں متعین ہونے کے اسباب پیدا کرنے ہوں گے۔ اب سرائیکی ادب کے نقاد کو اپنے اندر اعتماد پیدا کرنا پڑے گا اور ’’اردو زدہ‘‘ نثر یا تنقید کی بجائے سرائیکی لہجے اور اسالیب میں بڑی تنقیدلکھنی ہو گی ، نہیں تو ہمارے ہاں بڑی تخلیق کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے