نیا سال ایک ایسے موقع پر آرہا ہے جب دنیا بھر میں کامن سنس کا منہ بہت بری طرح ’’ چڑا‘‘ ہوا ہے۔ ایسے میں امریکہ میں خیر کا برعکس ،ٹرمپ آگیا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب عالمی سرمایہ داری نظام نے پہلے ہی ترقی پذیر دنیا کو بنیاد پرستی کی انارکی میں جھونک رکھا ہے۔ ہر جگہ پہ فروعی اور غیر بنیادی تنازعات کو اتنا ابھارا گیا ہے کہ یہ اب یہ تنازعات دیوہیکل شعلوں کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، حتیٰ کہ خود یورپ میں انسانیت بھسم ہورہی ہے۔ افغانستان ، اور اس سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقہ ( بشمول کے پی کے اور بلوچستان) دہشت گردی کے ذریعے برباد کیے جاچکے ہیں، ہندوستان میں مذہبی انتہا پسند پارٹی کی حکمرانی قائم کردی گئی ہے، مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ مخالف علاقوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔ بظاہر تو یہ ملکی سرحدوں کے اندر کی خانہ جنگی ہے لیکن یہ ہے دراصل عالمی جنگ جو چھڑی ہوئی ہے۔ طبقاتی اور دیگربنیادی تضادات خانہ جنگی والی اس عالمی جنگ کے دبیز دھوئیں کی اوٹ میں اوجھل ہوگئے ہیں۔بظاہر تو یہ خودرو اور بغیر ریاستی پشت پناہی والا قتلِ عام ہے لیکن بھلا سپر طاقتوں کی آشیر باد کے بغیر بھی کچھ ہوسکتا ہے؟۔
یورپ میں دہشت گردی کے علاوہ بھی اتھل پتھل شروع ہے۔ یورپی یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ تارکینِ وطن توکیا خود وہاں کے مزدوروں کے لیے بھی روزگار کے ذرائع گھٹ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور مہنگائی کے خلاف مزدور تحریک سڑکوں پہ ہے۔اِدھر،سرمایہ داری نظام کا ایک اور ستون ،چین اپنے جنیز میں ماضی والے فاقہ اور بھوک کے عناصر رکھے، پوری دنیا کے جسم میں اپنی زیست کے لیے شریانیں کھولتا جارہا ہے۔ ایک بڑی شریان (شاہراہ)سی پیک کے نام سے ہمارے خطے میں جاری ہونے کو ہے۔ خیال تھا کہ یہ ایک ایسا منصوبہ ہوگا جس میں ہماری افرادی قوت کھپ سکے گی ،ہم بے روزگاری سے نجات حاصل کرپائیں گے اور عوام کی زندگیاں بہتر ہوں گی۔ مگر وہ سب کچھ نہ ہوسکا۔ اس لیے کہ اکیسویں صدی میں مزدور کی جگہ ٹکنالوجی اور مشین نے لے لی۔ نئی ٹکنالوجی نے ہماری افرادی قوت کو اس منصوبے میں کھپ جانے کا موقع ہی نہیں دیا۔
اس لیے، ایسا نہیں ہے کہ دنیا کی موجودہ برباد حالت ٹرمپ کا پیدا کردہ ہے ۔ یہ حالت تو اُس کے اقتدار میں آنے سے قبل کی ہے۔امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں ایسے بڑے معاملات کو شخصیات یا پارٹیوں پر نہیں چھوڑتیں۔ عالمی سرمایہ داری نظام کی مسلسل و مربوط پالیسیوں کو ایک صدر یا وزیر خارجہ سے منسلک کرنا درست نہ ہوگا۔ اس لیے کہ دنیا کی موجودہ ماتمی حالت تو خود ہلری کلنٹن کی پارٹی کے دور کے اختتام تک کی ہے ۔ عالمی سپر پاورز اپنی بنیادی پالیسیوں میں ایک تسلسل اور دوام سے چلتی ہیں۔
ہلری کلنٹن اور ٹرمپ میں یہ فرق ہے کہ اگر ہلری صدر منتخب ہوتی تو وہ بربریت کی پالیسیوں کو اپنے نرم ’’ چہرے‘‘، میٹھی باتوں، اور جمہوریت وغیرہ جیسی چکنی لفاظی کے پیچھے چھپا کر جاری رکھتی۔ ڈپلومیسی، ادب آداب اور رکھ رکھاؤدکھا دکھا کر پیچھے سے برباد ی لاتی جاتی۔ مگر ٹرمپ اِن ساری کاسمیٹک الفاظ و حرکات کو غیر ضروری سمجھ کر ایسا کرے گا۔
ڈونلڈٹرمپ سرمایہ داری کے اُس حلقے کی نمائندگی کرتا ہے جو اِس فرسودہ استحصالی سامراجی نظام میں استدلال و منطق کی رہی سہی رمق کو بھی غیر ضروری گردانتا ہے۔’’ رائے عامہ کو گولی مارو، سرمایہ دار ی کا نفاذ ٹھوکر کے زور پر‘‘۔ عالمی منڈی کا حصول اپنی شرائط پہ۔ ایسی بے حجاب و بے نقاب نیشنلزم جس میں خود اپنے قریبی اتحادیوں تک کی نفی ہو۔ کثیر النسل، اور کثیر المذاہب امریکی سماج میں بورژوا جمہوریت مزید سکٹر کر محض سفید فام نسل، محض مسیحیت اورمحض مرد تک محدود و مخصوص ہو۔ سرمایہ داری نظام کے اصل سیاسی ومعاشی چہرے یعنی وحشت ناک استحصال کوجواز اور دلیل کی ضرورت نہ ہو۔ شاونزم ، نسل پرستی اور فاشزم کے ازلی ابدی ساتھ کو چھپانے کی کوشش نہ ہو۔’’ اسلحہ حتیٰ کہ ایٹمی اسلحہ کی دوڑ ہونے دو‘‘۔ ڈونالڈ ٹرمپ اُس بڑی امریکی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے جو فلسطین کے بارے میں ایک بھی کلمہِ خیر کوغیر ضروری سمجھتی ہے۔ اس کے خیال میں عورت حقیر مخلوق ہے۔اور نسل بس ایک ہی اعلیٰ وارفع ہے۔
دوسری طرف سرمایہ داری نظام کی مخالف دنیا اس وقت تقریباً تقریباً بغیر ترجمان اور بغیر لیڈر کے ہے۔ کاسٹرو موجود نہیں ہے کہ اِس سارے منظر نامے پہ متبادل سائنسی موقف کے لیے بولتا لکھتا رہتا اور کم از کم لاطینی امریکہ کے نو(9) ہم فکر ممالک کو ساتھ لیتا۔کاسٹرو کی غیر موجودگی ،انسانی نجات کی منزل کے قابلِ حصول ہونے کی دلیل کی علامت کی غیر موجودگی ہے۔ کاسٹرو انسانیت کے بیانیے کے طویل مضمون کا ہیڈ لائن تھا، جس کے تحت تفصیل میں جائے بغیر تفہیم ہوجاتی کہ امن، خوشحالی، بین الاقوامیت پسندی اور بہبودِ بشر ممکن ہے، استحصال سے پاک معاشرہ ممکن ہے،اور ’’باوقار زندگی، سب کے لیے ‘‘ ممکن ہے۔ ڈاکٹرز کی رجمنٹیں بھیج کر سرحدوں براعظموں سے پرے بھی علاج معالجہ ضرورت مندوں کے دروازوں تک مہیا کیا جاسکتا ہے۔ معروض کو مواقف بنانے کی ہنر کاری سے بھرپور یہ انسان نہیں رہا تو اپنے حق کو لینے کے امکان کا نظریہ کچھ عرصہ تک بے آواز تو رہے گا ہی ۔ بلاشبہ بے امیدوں کو اپنی امید تو خود ہی برلانی ہوتی ہے،مگردلدار دعا گو اور ’’ شاوا شاوا‘‘ کہنے والے کسی کاسٹرو کے ہونے کا احساس تو اِس امید کی ہمت کوبڑھانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ کاسٹرو کی غیرموجودگی سے انسانی قافلے کی رفتار بڑھانے، اور اس میں موجود رکاوٹوں کوشناخت کرنے کا اِس وقت کا سب سے بڑا ماہر مر گیا۔۔۔۔۔۔۔ مگر قافلے کبھی بے ماہر نہیں رہتے۔ ٹھوکریں سب سے بڑے ماہر ہوتی ہیں۔
بلوچ میں بھی منصفانہ سماج کے حصول کے لیے استقامت کے ساتھ جہداں قافلے کا جھنڈا بردار عبداللہ جان جمالدینی نہ رہا۔ جھنڈا گرا تو نہیں کہ حق کا جھنڈا کبھی نہیں گرتااور ہمہ وقت بے شمار بڑھتے ہاتھ اُسے تھامنے موجود ہوتے ہیں۔بڑے لوگ ، قافلے پیدا کرتے رہنے کا واحد کام نہ کریں تو اُن کی بڑائی کیسی؟۔ مگر دنیا کے مظلوموں کو ہمارے کونے میں بھی اِس جھنڈے کی موجودگی جتانے میں کچھ وقت لگے گا۔
لہٰذااس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ابھی سرمایہ داری نظام میں خود کو زندہ رکھنے کی adaptability موجود ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یورپ ابھی تک اپنے مقصد والی شائستگی، جمہوری نظام، انسانی حقوق کے ذخیرہِ الفاظ کو ترک نہیں کرے گا ۔ خود امریکہ کے اپنے اندر سرمایہ داری نظام کے سیاسی ادارے اور سٹرکچرز ٹرمپ کی ڈنڈے ماری میں کچھ نہ کچھ رکاوٹیں ڈالیں گے۔مگر یہ بات یقینی ہے کہ ٹرمپ اگلے چار سال تک دنیا میں گفتگو، رویوں، بیانات اور رکھ رکھاؤ میں مہذب ارتقا کو سست ضرور کرے گا۔ سرمایہ داری استحصال مزید وحشی، مزید ڈائریکٹ اور مزید سفاک ہوگا۔ کیپٹلسٹ منڈی اپنی رکاوٹیں زیادہ بے رحمی سے ہٹاتی جائے گی۔ پسماندہ طبقات اور قومیں مزید نیچے دھکیلی جائیں گی۔
الغرض ، نیا سال انسانیت کے لیے مزید جاگتے رہنے ، اور اپنی نجات کی جدوجہد کو مزید تیز ومنظم کرتے رہنے کا متقاضی ہے ۔ ایک وحشی تر چہرے کے ساتھ حملہ آور سرمایہ داری نظام کا متبادل تلاش کرناہوگا ۔ اورسرمایہ داری نظام کے مخالف لوگوں کو ہر ہر معاشرے میں ایک متحدہ اورمتحرک لیڈر شپ مہیا کر کے جدو جہد تیزکرنی ہوگی۔
سعید احمد خان بلوچ
ملتان کا ہمارا دوست اور تحریکی ساتھی جناب سعید احمد خان گذشتہ دنوں انتقال کرگیا۔ یہ رند بلوچ بہت میٹھا انسان تھا۔ اس نے ساری زندگی مظلوموں مجبوروں کی نجات کی تحریک میں گزاردی۔ بہت ہی وفا دار ، سچا اور کھرا انسان تھا۔ کسانوں کی تحریک کو منظم کرنے میں اس کی کوششیں لائق صدِ ستائش ہیں۔ وہ بلوچ دوست انسان تھا۔ بلوچستان ہمیشہ اُس کا سورس آف انسپیریشن رہا۔ سب کی خیر مانگنے والا ،خیر بانٹنے کے مشن میں زندگی لگانے والا سعید خان ایک بڑی خلا چھوڑ کر چلا گیا۔ ہم اُسے یاد رکھیں گے۔