ایسٹر 2016 ء لاہور خود کش حملے میں مرجانے والوں کے نام
———————————————————–
کتنی آوازیں روزانہ تمہیں بلاتی ہیں
کام میں گم
دفتر کی میزوں میں دھنسے ہوئے
تم ان کو سُن نہیں سکتے
زنگ آلودہ جھولوں کی چُر مُر چیخیں
بچوں کے دل میں گرتی رہتی ہیں
تم ان کو سُن نہیں سکتے
رات اور دن
زندگیوں کی یک طرفہ سڑکوں پرکھڑے درختوں کی مانند گزرتے ہیں
تم رُکتے ہو
بازاروں میں
گرجوں میں
مسجد میں
یا روشن سینما گھروں کے باہر
لیکن بچوں کے پارک میں
ٹوٹی پینگ مرمت کرنے کبھی نہیں رکتے ہو
ٹی وی پر روزانہ خبریں سنتے ہو
زہر زدہ چہروں کی
پھٹے ہوئے جسموں کی
اور کچرے میں بکھرے انسانی اعضاء کی
چائے کے وقفے سے بھی کم
تم کچھ لمحے ہی رکتے ہو
اجنبیوں کے مرنے اور اُن کو بھولنے میں
بس اِک کھانے کا وقفہ ہے
کتنے دن تک دفتر میں دل دُکھی دُکھی سا رہتا ہے
جب ٹیم کرکٹ ہارتی ہے
گری ہوئی درمیانی وکٹ
بچوں کے ٹوٹے دودھیا دانت سی لگتی ہے
تب تم بس لمحہ بھر کو سوچتے ہو
میٹروپولیٹن شہروں کے شور میں ساری آوازیں دب جاتی ہیں
کتنی چیخیں تم تک بِن پہنچے ہی مر جاتی ہیں
گلشن پارک کے باغیچے سے خون کی سرخ لکیریں
اورنج لائن کی پٹڑی تک بِچھ جاتی ہیں
تم کہتے ہو
ایسٹر امیدوں کا دن ہے!
اور تم خوشیوں کی خواہش میں
میزوں پر انڈے رکھ دیتے ہو
اِس سال اے مرے دوست!
سارے انڈے تڑخ گئے ہیں