کتاب : لٹ خانہ
مصنف: عبداللہ جان جمالدینی
صفحا ت : 246
قیمت : 100 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
کوئٹہ کی سردیوں میں یہاں کی فضا ایک ٹٹھرتی میٹھی خوشبو سے معطررہتی ہے۔اس روح کو ٹٹھراتی خوشبو کو،صرف کوئٹہ کے باسی ہی پوری طرح محسوس کر سکتے ہیں۔ایسے میں بابا عبداللہ جان کی کتاب ’’ لٹ خانہ‘‘، کوئلے کے گرم سٹوو اور مونگ پھلیوں سے کیا کم محسوس ہوتی ہوگی!
پڑھتے ہوئے ایک مزیدار سرور کا سا احساس ہو رہا تھا کہ انھوں نے خود بھی یہ کتاب ’لٹ خانہ‘ کوئٹہ کے خوب صورت موسموں کے خمار میں رہتے ہوئے لکھی ہے۔
لٹ، جو بے غم اور لاپرواہ کو کہا جاتا ہے اور بقول عبدالصمداچکزئی صاحب کے کسی کام کے پیچھے لٹ بن کر پڑ جانے کو بھی لٹ کہتے ہیں ۔ تو میرے خیال سے لٹ خانے کے لٹ ان دونوں معنوں پر پورا اترتے ہیں کہ لٹ خانے کے مکین دولت سازی، کی عادت اور صلاحیت کے حوالے سے بالکل لٹ یعنی لاپرواہ تھے ۔اور اپنے کام کے پیچھے لٹ بن کر ایسے پڑے کہ آج تک انھیں یاد کیا جاتا ہے۔
لٹ خانہ ، جہاں کوئٹہ کی رگوں میں خون جمانے والی سردی کا عالم ہو اور روشنی کا کوئی انتظام نہ ہو ، اس ٹھنڈی یخ بستہ سردی میں چند لٹ دلو ں کو گرما دینے والی روشنی پھلا رہے تھے۔
لٹ خانہ، ترقی پسندی اور روشن خیا لی کا مرکز تھا۔ بقول بابا عبداللہ جان کے کہ لٹ خانہ روشن فکری کا مقناطیس تھا جو سب کو کھینچ لاتا تھا۔ اس کے مکین عبداللہ جان جمالدینی، سائیں کمال خان اور ڈاکٹر خدائیداد کو اللہ نے اس صلاحیت سے نوازا تھاکہ وہ شخصیت کی تراش خراش کر کے ایک روشن خیال انسان بناتے تھے۔
زراعت کی ایک اصطلاح ہے؛ Prunning یعنی شاخ تراشی جس میں درختوں اور پودوں کی تراش خراش کر کے انھیں مضبوط ، صحت منداور مزید پھل دار بناتے ہیں۔ لٹ خانہ Prunning کے اس پورے Process کی داستان ہے کہ جس میں شخصیت کے باطن کو بڑی محبت اور توجہ سے Trim کیا جاتا تھا۔ ان میں انسانیت بھر دی جاتی تھی۔ ہیجان، جذباتیت، مایوسی کو ختم کیا جاتا تھا۔ انسان جو کسی بھی رنگ و نسل، مذہب و طبقے سے تعلق رکھتا ، اسے محبت سکھاکر ایک Balanced level تک لایا جاتا رہا۔ یوں وہ اس قابل ہو جاتے کہ اپنی شخصیت کے دائرے سے نکل کر انھیں اپنے آس پاس کے دکھ، مسائل، ظلم و جبر دِکھنے لگتے۔
دولت پرستی کا ایسا دور کہ جہاں ہوس پرستی کا یہ عالم تھاکہ حلال و حرام کی پرواہ کیے بنا دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹی جا رہی ہے، وہاں چند لٹ سرکاری نوکریوں کو الوداع کہتے ہوئے خود اپنی مرضی سے دولت مندی کو لات مار کر بے روزگار ہو گئے اور ایک چھوٹے سے ہٹ میں ڈیرے ڈال دیے۔
مارچ 1950 کا خوش قسمت سال، لٹ خانے کا جنم دن، روشن خیالی اور روشن فکری کا پہلا پڑاؤ !
ان لٹوں نے فی الحال سٹیشنری مارٹ کی صورت میں دراصل عقل و شعور بانٹنا شروع کر دیا کہ کس طرح اپنے لوگوں کی خدمت کی جائے، انھیں ترقی کی راہ سمجھائیں اور ترقی کی اس جہدِ مسلسل میں انھیں اپنا ہم سفر بنایا جائے۔
مارکسسٹ لٹریچر ،مارکس، لینن، اینگلز پڑھائے جانے لگے جو ہمیشہ وقت کی ضرورت رہے اور اس جرم کی پاداش میں حاکم انھیں CID کی عینک سے ڈھونڈتے رہے اور جیل کی اندھیری کوٹھڑیوں کے حوالے کر کے ہیرا بناتے رہے۔ کیا ایسے لوگوں کو کوئی مات دے سکتا ہے، جن کے ہیرو ماں ناول کا پاویل ہو؟ جو گرفتار ہونے کے بعد خود کوپاویل تصور کرتے ہوں اورخوشی خوشی جیل جانے کے لیے تیار ہوں؟!۔
دورِ لٹ خانہ میں پشتو اور بلوچی ادب میں بڑا بنیادی کام ہوا۔ گل خان نصیر کابلوچی کلام ،’گل بانگ‘، کے نام سے چھپا۔ بابا عبداللہ جان نے بلوچ قدیم کلاسیکی شاعری کومختلف شخصیات کی زبانی یک جا کیا تو دوسری طرف آزات جمالدینی کی بلوچی شاعری ،’ مستیں توار‘، کے نام سے شائع ہوئی۔ پشتو میں ، زر اؤ اقتصاد، اور ، خپل واکی، اسی زمانے میں شائع ہوئیں۔بلوچی ادب ئے دیوان، بلوچی لبزانکی دیوان اور پشتو ادبی تنظیم ، پشتو ٹولنہ ، کی تنظیم کاری کر کے پشتو اور بلوچی کے ادیبوں کو منظم اور ادب و شاعری کو فروغ دیا گیا۔
مختلف بین الاقوامی کتابوں کے تراجم ہوئے۔
لٹ خانہ کو پڑھ کر، لٹ خانہ کے لٹوں کے بارے میں جان کرجو مجھے سب سے بڑی خوشی ہوئی وہ یہ کہ ان کے ذہنوں ، ان کے رویوں سے مجھے تعصب کی سڑاند کبھی نہیں آئی۔ لٹوں میں بلوچ، پٹھان، پنجابی، عیسائی، مسلمان، ہندو سب شامل رہے جو کہ ایک مضبوط، صحت مند اور متحرک قافلے کو ترتیب دینے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لٹ خانہ پڑھتے ہوئے میں نے کوئی بوجھ محسوس نہیں کیا بلکہ نہایت Relax رہی کہ ایسے لوگ کبھی Negativity Generate نہیں کرتے۔
بابا عبداللہ جا ن کی سچائی اور وفا ان کی تحریر سے واضح ہے کہ انھوں نے لٹ خانہ میں ہر اس ساتھی کا ذکر کیا جو اس وقت ان کی تحریک میں شامل تھا۔
آپ پڑھتے ہوئے اس بات سے بہت لطف لیں گے کہ لکھتے ہوئے وہ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی پریشان نہیں ہوئے کہ اگر کسی وجہ سے انھیں واقعے یا شخصیت کی پوری تفصیلات یاد نہ ہوں۔ وہ ایک سچے انسان تھے اور جتنے سچ کا ان کی یاد داشت ساتھ دے سکی ،وہ انھوں نے بلا کم وکاست بیان کی۔
’شاید کمال خان اس وقت موجود نہیں تھا‘۔۔۔یا۔۔۔’ پتہ نہیں، مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔۔۔‘ جیسے جملے پڑھ کر بے ساختہ بابا عبداللہ جان پر پیار آجاتاہے۔ وہ نہ تو خود تناؤ کا شکار ہوئے اور نہ ہی اپنے قاری کو اس کا شکار کیا۔
اس سب کے باوجود لٹ خانہ، اس کی تحریک، تحریک کی تفصیل، لٹ خانے کی فضا میں کہیں بھی آپ کو ادھورا پن محسوس نہیں ہوگا۔
بابا عبداللہ جان کی جدائی سے ہم سب غم زدہ ہیں لیکن اس غم میں ایک تقدس، ایک محبت نظر آتی ہے جو ہر ایک انسان کے حصے میں نہیں آتی۔
ایسی عظیم ہستیوں کی دائمی جدائی ہمیں رنجیدہ ضرورکرتی ہے، لیکن ان کے اعمال و افکار سے ہم مزید منظم اور مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔