قدیم لوگوں کے خیال میں ایک فن کار ملہم ہوتا ہے،جس کی ذات میں کوئی مافوق الفطرت قوت سما جاتی ہے اور وہ اس کی زبان میں گفتگو کرتا ہے۔اس لیے قدیم یونانی زبان میں الہام اور جنوں میں کوئی فرق نہیں تھااور یونانیوں کے نزدیک ایک فن کار ملہم بھی تھا اور مجنون بھی تھا۔عام لوگوں کے برعکس ایک فن کار کی ذات میں مافوق الفطرت قوت حلول کرتی ہے،جواس سے حالتِ جنون میں فن کی تخلیق کرواتی ہے۔اسی نظریے کو افلاطون نے اپنی کتاب”Phaedrus”میں بہت وضاحت کے ساتھ مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
"جنون کی تیسری قسم ان کی ہے ،جن پر شاعری کی دیوی کا تسلط ہوتا ہے۔وہ شائستہ اور کنواری ذات میں نفوذ کرتی ہے اور اس میں جنون پیدا کرتی ہے۔وہ اس میںآنے والی نسلوں کی ہدایت کے لیے قدیم ہیرؤں کے شان دار اور لاتعداد کارہائے نمایاں کے ساتھ شاعری اور تمام دیگر علامات بیدارکرتی ہے۔لیکن جس کی ذات کا میوز کے جنون سے کوئی واسطہ نہیں ہوتاہے،وہ دروازے پر آتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ فن کے ذریعے معبد میں داخل ہوجائے گا ۔۔ ۔۔۔۔ میرے خیال میں وہ اور اس کی شاعری تعریف کے درجے تک نہیں پہنچتی ہے۔اس شخص کا وجود کہیں دکھائی نہیں دیتا ہے،جب وہ جنون سے دشمنی مول لیتا ہے۔”(44)
افلاطون نے اسی نظریے کو مزید وضاحت سے اپنی کتاب” Ion ” میں اس طرح بیان کیا ہے:
"تمام اچھے اچھے رزمیہ شاعرفن کے ذریعے شاعری کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔بلکہ اس وجہ سے کیوں کہ وہ الوہی طور پر ہدایت اور ملہم ہوتا ہے۔غنائیہ شاعر بھی ایسے ہوتے ہیں۔شاعری کرتے وقت وہ کوی بینٹوں (جب وہ رقس کرتے ہیں)سے زیادہ حواس باختہ ہوتے ہیں۔جونہی وہ ردھم اور ٖغنامیں داخل ہوتے ہیں”،وہ بچنٹوں کی طرح راستے سے بھٹک جاتے ہیں اور ان پر کسی کا تسلط ہوجاتاہے،جو اپنے جنون کی کیفیت میں سر چشموں سے دودھ اور شہد نکالتے ہیں۔”(45)
ارسطو کے مطابق ہر عظیم شاعر مجنون ہوتا ہے۔(46)
عینیت پسند فلسفی ادبی و فنی پیداوری عمل میں مصنف اور معروضی دنیا کے مابین جدلیاتی رشتوں کے تعامل کو نظرانداز کردیتے ہیں۔وہاس سلسلے میں صرف اس کی موضوعی صفات (شخصی واہموں، نفسیاتی نیوراث،الجھنوں اور روز خوابی کو ہی اہم اور حتی تصور کرتے ہیں۔مثال کے طور پرمشہورانگریز ادبی نقاد والٹر پیٹرکے ڈرج ذیل الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں:
"For just in proportion as the writer’s aim consciously or unconsciously, comes to be the transcribing, not of the world, not of mere fact but of his sense of it, he becomes an artist and his work fine art”.(47)
لینن کے مادی نظریہِ انعکاس کے مطابق فن انسانی زندگی کے حسن وجمال کو انفرادی و اجتماعی سطح پر ازسرِ نو تشکیل دیتا ہے اور پھر انسانی زندگی بھی بدلے میں حسنِ فن کو تشکیل دیتی ہے۔اس کے مادی نظریہ انعکاس پر اگلے ابواب میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

حوالہ جات

1.Anatole France, On Life and Letters, Four Series Vol.ii, J. Lane, The Bodley Head, New York, 1914-1924, p.176
2. Will Durant, The Life of Greece, Simon and
Schuster,New York, 1966, pp.313-314
3. Ibid. p. 408
4.The Kama Sutra of Vatsyanyana, Benares—–New York, 1883-1925, pp. xvi–xviii
5.اور ریت کے ٹیلے ایسے تھے جیسے کنواری لڑکیوں کے سرین( ذی الرمہ )دورِ جاہلیت کا مشہور شاعر امرا القیس اپنے معلقے میں اپنی محبوبہ کے حسن وجمال کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتا ہے،جو عربوں کے حسنِ نسوانی کے معیار کا بہترین اظہار ہیں:
ھمصرت بفودی راسھا فتمایک علی ھضیم الکشح ریا المخلخل
مھفھفۃ بیضا ء غیر مضافۃ ترائبھا مصقولۃ کا لسجنجل
ترجمہ: میں نے اسے بالوں کی دونوں چوٹیوں سے پکڑ کر اپنی طرف جھکایا تو وہ نازک کمر،بھری بھری پنڈلیوں والی میرے اوپر جھک گئی۔فربہی سے پاک شکم والی سیمیں اندام،اس کا سینہ شیشے کی مانند شفاف اور براق تھا۔
6. ۔قمر الزمان میں قصے میں الصیف کہتا ہے: اس کی زلفیں سنہری اس قدر سنہری تھیں کہ اسے سہیلیوں سے ممتاز کرتی تھیں۔جب وہ تین لٹوں میں منظم ہوتی تھیں تو اس کے قدموں کو چھوتی تھیں۔وہ ایسے دجھائی دیتی تھیں جیسے تین راتیں بیک وقت اکٹھی ہوگئی ہوں۔اس کا چہرہ ایسا سفید تھا جیسے روشن دن ہو جس میں دوبارہ دوست ملتے ہیں۔اگر میں اسے چودہویں کے چاید کی موجودگی میں دیکھوں تو ایسا لگتا، جیسے میں بیک وقت دوچاند دیکھ رہا ہوں۔
7.Emile Zola, Nana, Pocket Library, New York, 1958, p. 25
8۔لڑزی چھوں سرگواثاں سمین ایغاں (مست توکلی)،سیاہ معربندیں چھوٹو ثنگیں(بیورغ)
9۔قدحیں چماں میسک زوادیں سیرمغاں( شہہ مرید)
10۔ابروسیسانی کمان (جام دورک )
11۔مزگ مثالیں ناوکاں (جام دورک )
12۔تھنگویں دیم گوں کاگدی رکھاں (محمد خان گشکوری)، شہ کنشکانی کاگدیں رکھاں (بیورغ) اور ایک بلوچی فوک لور میں کاغذی لبوں کا ذکر ایک مکالمہ کی صورت میں اس طرح آیا ہے:
دئے مناں تہ وثی کاگدیں رکھاں
یا دعا کں مں تکائی مراں
نیں دیاں مں ترا وثی کاگدیں رکھاں
نیں وثی دف آ دعایاں داثہ کناں
13۔انفی کاٹاری میان (جام دورک)،تھنگویں پلوہ اث شیفغیں انف آ
14۔حس اژ کونجی گڑدن آ کھثتیش(بیورغ)
15۔گال کثہ روشے چہاردہی ماھا(بیورغ)
16۔اژ پیافیں مردانغ آنش مندری (بیورغ)،حنی ژریں موڑ دانآاں (شہہ مرید)
17.Samuel Alexander, Space, Time and Deity, The Huminities Press, New York, Macmilan and Co L.t.d. London, 1920, Chapter ix, pp. 236-246
18. Marx, Economic and Philosophic Manuscripts of 1844, Moscow, 1967, p. 101
19۔ جمالیات(Aesthetics)؛ الیگزینڈر کوٹلب بام گارٹن (1714ء تا1762ء)نے جمالیات کے موضوع پر بہت علمی اور تحقیقی کام کیا ہے ۔اس نے تاریخِ فلسفہ میں سب نے سب سے پہلے فلسفہِ حسن وجمال کے لیے اپنے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے "Philosophical Thought of Matters Connected” میں جمالیات کا لفظ استعمال کیا۔

20.Plato, Collected Dialogues, Edith Hamilton Cains, eds., Princeton: Princeton University Press, 1961, P.559
21.Plotinus, The Six Enneads, Stephen McKenna and B.S.Page, trans., Chicago Encyclopedia Britannica Publishing, 1952, 1, P. 6
22.Immanual kant, Critique of Judgement, J.H.Bernard, trans., New York: Macmillan, 1951, Section 1, P. 45
23.Ibid. p. 45
24. Hegel, G.W.F. Hegel’s Aesthetics: Lectures on Fine Art, in two volumes, T.M. Knox, trans., Oxford: Clarendon, 1975, P. 22
25. Kemp, Gary, "Croce’s Aesthetics”, The Stanford Encyclopedia of Philosophy (Fall 2014 Edition), Edward N. Zalta (ed.), URL = .
26.Schopenhauer, The World as Will and Idea, E.F.J.Payne, trans., New York Dover, 1966, Vol. 3, 7th edition. of Haldane and Kemp’s translated. p. 253 f
27. Leo Tolstoy, On Art, Aylmer Maude, trans., Humphrey Milford: Oxford University Press, 1924, pp.
28.Chernyshevsky, Collected Works, Vol. 2 Moscow, 1949, p. 10
29. David Hume, Of The Standard of Taste, 1757, Essays Moral and Political, London: George Routledge and Sons, 1894, P. 136
30.V.I,lenin, Collected Works, Vol.38, p.182
31.V.I. Lenin, Collected Works, Vol. 38, p. 194
32.Robert. Service, Robert Service, Lenin: A Biography, London: Cambridge Massachusetts, 2000, p. 44
33. Ibid. pp. 99-100
34. Ibid. p. 100
35. Ibid. p. 160
36. Ibid.p. 136
37.Clara Zetkin, Reminiscences of Lenin, International Publishers New York, 1934, p. 43
38.Nadezhda Krupskaya, Memories of Lenin, London, p. 38
39. V. I . Lenin, Collected Works, Vol.37, p. 73
40. Robert H. MacNeal, Bride of The Revolution: Kropskaya and Lenin, Ann Arbor: University of Michigan Press, 1972
41.Marx and Engeles On Literature, edited by Lee Baxandall and Stefan Morawski, Telos Press, St/ Milwaukee, 1973, p. 22.
42.Hesiod, Theogonia”, II; 22 – 3
43.Homer, "Odyssey”, XXII, II. 347 – 8;
44.Plato, "Phaedrus”.
45.Plato, "Ion” trans. Lane Cooper (Oxford University Press, 1938); see also Plato’s "Republic” 2 – 3 and 10, trans. D.A. Russell, (Oxford University Press, 1989).
46. See for Aristotle’s theory of poetry, his "Poetics” trans .M.E Winter Bottom, in "Classical Literary Criticism,” edited by D.A. Russell, and M.E. Winter Bottom (Oxford University Press, 1989).
47. Walter Pater, Appreciations, MacMillan and Co Limited – St. Marlins146s Street London, 1944., p-6

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے