جناح روڈ ( بروس روڈ) پر بلوچستان کا واحد سکول ،کالج ،آرٹس ،سائنس وغیرہ کا ادارہ تھا۔ میں اس میں تین دفعہ تجرباتی طالب رہا ۔ لُنگی والے فیض محمد ہیڈ ماسٹر کے زمانے میں سکول کے کچھ دن یاد ہیں، یحییٰ صاحب سکول جانے سے پہلے ، میٹرک کرنے ، پھر کالج۔ کراچی سے ایف اے کرنے کے بعد پھر داخلہ!! درمیانی زمانے میں ہم بلوچ طلبا کو ئی15 آدمیوں پر مشتمل ہونگے۔ سمیع کھوسو، اور طورخان مری خود بخود ہی ہمارے بلوچ محافظ بن گئے۔ اسی دوران میرا ہم نام امان جمالدینی آٹپکے ۔میں مکران سے اور وہ نوشکی سے دواجنبی بھائی، نہ میں نے کبھی نوشکی دیکھا نہ اس نے تربت ۔پنجگور کا نام صرف نام سنا ہے لیکن پتہ نہیں۔ ہم زندگی بھر کے لیے بھائی بن گئے۔ کوئٹہ میں ہندوؤں کی دکانیں خالی نہیں تھیں مہاجرین کو سرکاری افسروں نے نام لکھ کر آپس میں تقسیم کیاتھا۔کچھ مہاجرین کو بھی ملے تھے، مکان وغیرہ پربھی وہی قابض تھے اکثر پنجاب کے۔ کچھ اصلی جیسے ہمارے سکول کالج کلاس فیلو کے والد حکیم تاج محمد وغیرہ ،اثر بھائی ، عین سلام وغیرہ ۔
ایک دن امان جمالدینی بھرے بازار میں ایک دکان پر لے کر گیا جس کا نام تھا ۔’’ فی الحال‘‘ سٹیشنریز۔ عجب مضحکہ۔ نہ اسلامی نہ پاکستانی، نہ تجارتی، اسلامیہ پریس ،اسلامی سٹڈیز ۔ وہاں ایک مسکراتے عجیب انسان سے ملاقات ہوئی جو طلباء پر اتنا مہربان تھا، کہ جس کے پاس لکھنے کے لیے کاپی قلم نہ ہو کتاب نہ ہو وہ اس دکاں سے مفت حاصل کرسکتا تھا۔ وہاں پہ ایک مخنی سا آدمی ( نام انجم قزلباش) اور کھڑا تھا۔ جس نے زنانہ کوٹ پہن رکھا تھا ( یہ کوٹ طاہرہ مظہر علی خان نے اُس کو کوئٹہ سردی سے بچنے کے لیے لاہور میں دیا تھا۔ لاہور میں کافی ٹھنڈی پڑتی ہے ۔
وہ آدمی بھی اسی طرح مسکرا کر ملا جیسے ہم امان نوشکوی مکرانی کو صدیوں سے جانتا ہو۔ پھر اسی دکان کے ذریعہ کامل القادری اور کتنے اور انسان دوستوں سے ملاقات ہوئی ۔ عبدالرحمن غور بھی شاید وہیں ملے۔ پہلی ملاقات میں عبداللہ جان جمالدینی نے روسی سفارتخانے سے مفت ملے با تصویر رسالوں اور لینن نے کیا فرمایا اور سٹالن نے کیا لکھا ،لاد دیے۔ ہم نے مروت میں لیے۔ اور واپس ہوسٹل آکر اُن کو پڑھنا شروع کیا۔ توایک ’’ ماں‘‘ کے علاوہ ایک کتاب بھی پانچ صفحے سے زیادہ پڑھ نہ سکے۔ ہم نے روسی مائیکل شو لو خوف، ترگنیف ، ٹالسٹائی وغیرہ پڑھے تو مزہ آگیا۔ ہم نے مزاح بنایا کہ عبداللہ جان دور سے پہچان جاتا ہے کہ ’’ یہ خرعیسیٰ ہے اس لیے کتابوں سے لاد دیتا ہے، سکول کے زمانے میں سکھ ہندو ہمارے ہم عمر سائیکل چلاتے ریلوے کے انگلو انڈین اب پاکستانی خود بخود بن گئے تھے ، وہ بھی سائیکل چلاتی تھیں ۔ ہم نے بھی سائیکل خریدی، پرانی سہی، نئی پتلونیں سلائی تھیں ۔ ڈفل کوٹ بنایا اور کالجٹ بن کر سائیکل چلانی شروع کی۔
پھر مکران میں اپنے چچا کا ٹرک زبردستی قبضہ میں لے کر بھاگنے کے جرم میں غلام محمد شاہوانی تربت حوالات میں ملا تھا۔ جو ہوسٹل کے ساتھ واقع تھا۔ اس کو مہاجرت استادوں جیسے اقتدار اسلام ہاشمی صاحب،زبیری صاحب وغیرہ سے رسالہ نیاز فتح پوری صاحب اور کتابیں لا کر دیں۔ اور یہ بتایا کہ نسیم حجازی سے ان لوگوں نے جان چھڑائی ہے تو اُن کو حیرانی ہوئی کہ علم کی روشنی غربت اور جہالت کے صدیوں سے غلامی اور مولدی نظام کے تحت کراہتے ہوئے مکران ’’ بُن پور‘‘ مظالم سے نجات کی تلاش میں علم کی روشنی کی لو کے مدہم سہی میں بلوچ منزل کی تلاش میں ہیں۔ جو بلوچ روٹس کی تلاش میں غلام زادہ الیکس ہیڈلے سے سبق سیکھ لے گا۔
عبداللہ جان سے ملاقات سے اس کا نام عجیب جگہ پر سنایا۔ر باشی کا شوقین سابق بلوچستان کے مسلم لیگ سٹوڈنٹ فیڈریشن کا روح روان، اُن کے اخبار کاایڈیٹر جس میں خواتین کا نام درج تھا۔ اور صدر مسلم لیگ ،قاضی عیسیٰ کا دست راست فضل احمد غازی اقتدار منتقلی میں قاضی صاحب میر جعفر جمالی جان محمد کانسی کے بجائے کرنل صاحبان اور سرکاری پنجابی مسلم وزیراعظم کو منتقل ہوکر قائد جناح اور لیاقت سے برگشتہ ہوکر پشتون قوم پرست بن گئے تھے۔
ہمارے حلقے میں انوکھا لاڈلا ، فخر الدین راشدی اور ہماری سیاسی دوستی فطری تھی۔اسی لیے بادشاہ خاں ( تیسرے درجے میں سرحدی گا ندھی ) کو خوش آمدید کرنے سٹی سٹیشن ٹانگوں کے جلوس میں شریک ہونا فرض تھا۔
اُن کو مشہور سندھی قوم پرست عبدالمجید سندھی کے بنگلے پہنچا کر صبح اُن کے دربار میں حاضری بھی ضروری تھی، جب ہم صبح اُن کے بنگلے پر پہنچے تو بزرگ بڈھوں کی محفل جمی تھی، جی ایم سید صاحب چہکنے سے زیادہ لکھنے کے ماہر تھے ، بلوچستان سیاست کا روح روان ، پہلی بلوچ کانفرنس کے صدر خان عبدالصمد چہک رہے تھے، سامنے ٹیبل پر کاغذ پنسل رکھے وہ موجودہ پاکستان کی تقسیم کا نقشہ بنا رہے تھے۔ اٹک سرحد اور بولان سے چترال پشتونستان سب نے سر تسلیم خم کیا، سندھو دیش، وہ تو ہمیشہ سے موجود تھا موجود رہے گا ۔ پنجاب فطری طور پر آبی ضروریات کے وجہ سے عظیم پنجاب۔ اب بات ریگستان بے آب و گیاہ بلوچستان کی۔ اس کا مستقبل کیا ہوگا ؟؟؟ تقسیم اس طرح قرار دی گئی کچھی، تا بولان (پشتوں سرحد) اور مزارستان سرائیکی فطری سندھ صوبہ کے حصہ۔ مستجار علاقے ویسے افغان علاقے تھے۔ پشتونستان کے فطری حصے تسلیم کیے گئے۔ اب باقی رہا سابق ریاستیں! اُن بیچاروں کا مستقبل۔۔۔۔۔۔ پشتونستان میں بھائی بن جائیں یا سند ھ میں شامل ہوجائیں۔خان صاحب نے کہا کہ بلوچوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن میں کوئی لیڈر شپ نہیں ہے ، اب عبداللہ جمالدینی اور غلام محمد شاہوانی سے تو کیا بات ہوسکتی ہے۔ میں نے اس شام فضل غازی کوبتایا کہ آج کے بعد میں دربار میں نہیں آؤ نگا۔ فخر الدین راشدی نے بھی کہا کہ ٹھیک کہتا ہے جب وہ بلوچ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تو بلوچ کو حاضری کی کیا ضرورت ہے۔فضل احمد غازی نے کہا چھوڑ یں یہ تنگ نظر بوڑھے مجھے کب پشتون تسلیم کرتے ہیں۔ میں اُن کے لیے دفتر چلانے کو ضروری ہوں ۔نہیں تو وہ مجھے آپس میں بیٹھ کر قندھاری ،فارسی بان اور کیا کیا کہتے ہیں!!
اچھا تو یہ ہے وہ عبداللہ جان جمالدینی جس کا ذکر عظیم لیڈروں کے درمیان ہوا تھا ۔ پھر وہی ہوا جو خفیہ اداروں جن کو جنگ عظیم کے زمانے میں سرحدی جاسوسی، اور جرمن ’’ ہمدرد‘‘ انگریز دشمنوں کو ڈھونڈ کر پابند سلاسل کرنا تھا۔اُس وقت تک صرف شاہی قلعہ لاہور یا ترا سب سے بڑی سزا ہوتی تھی، یہ دن دیہاڑے اغوا، غیر انسانی اسلامی سزا قتل، مسخ کرنا ، مشرف کہانی شجاع وغیرہ کی پنجاب مسلم کی ایجاد نہیں اس سے پہلے ناخن نکالنا، اعدام ( پھانسی ) شاہ ایران کے ’’ ساواک‘‘ کو امریکی استادوں نے سکھایا تھا۔ لاش مسخ کی شہرت ازائیگی، موساد وغیرہ کی نہیں ہے ۔بلوچستان میں غداروں (بلوچ پشتون) مقامی وفا دار (سٹلر) حکمران، محکمہ جو جعفر خان جمالی کے ٹانگے کے پیچھے حوالدار کو سائیکل پر میں نے خود دیکھا۔مولوی عبداللہ بھی اُن کے ساتھ بیٹھے تھے۔ فکری طو ر بلوچ ، بیر گیر بالاچ، کوچ و بلوچ ،کوہندی بلوچی شترباں سے، باکردار، بلوچ کوڈآف آنر ( غلط صورت میں سیاہ کاری ) قاتل سے ، آدمی سے انساں بنانے اور اس کو صدیوں کی نیند جگانے اور غلامی ( اصل غلامی سردار کے ظالمانہ نظام کی غلامی کے علاوہ خان اور استعار (پہلے انگریز آج مسلم پنجابی) کی مشترکہ غلامی سے نجات کی بلند آواز سردار غربت زدہ ریگستان چاغی نوشکی کے جشکابہ سے بلند کی۔
را ج کرے سرداررے بھیا!
اس آواز کے پیچھے کشمیر کے شیر شیخ عبداللہ ، پنڈت جواہر لال نہرو اور لاہور کے زمیندار ایڈیٹر مولانا طفر علی خان (بذریعہ نواب یوسف علی خان،محمد امین کھوسہ وغیرہ) مسلم لیگ کے حسرت موہانی ۔محمد حسین عنقا صمد درانی اور کئی دھیمی آوازیں شامل تھیں۔ ہولناک جنگ کے قحط۔ ایران اس کے ملحقہ بلوچستان ہندو بنگال قحط ۔ بھوکے ایرانی بلوچ، چائے کی پتی ، گندم آٹا، جلا وطن ایرانی کردوں کی طرح عصمت فروشی کے ذریعہ نئی دولت مند طبقہ بھی جنم دے گئی۔ کوئلے کے کان مالک بعد میں ماربل کنگ میر نبی بخش میر برادراں مالی طور پر خوشحال امیر قادر بخش امام بخش، میر خدا بخش خاندان سیاسی انتخابی میدان میں’’ سیٹ‘‘ تلاش میں تھے۔ سنجرانی ، مکران کے گچکیوں اور خاران کے نوشیروانی قبائلیت ؟ خان انگریز مشترکہ مقابلہ میں پسا ہوکر اقتصادی میدان میں مقابلہ کی قوت نہ رکھنے کی بنیادی وجہ سے اس سیاسی خلاء کو پُر کرنے کے لیے میر برادراں آگے بڑھ گئے۔
کچھی کے وڈیرہ شاہی، سبی کے ریلوے انگریز بادشاہ قاضی داد محمد کی آواز، عبدالرحمن غور، جیکب آباد سے امین کھوسو ، مکرانی عنقا، نظامی کی دھیمی آوازوں کو بلند آہنگ اسی عبداللہ جان کی مرکزی فکر سے اسی بلوچی اسٹریٹ کی گلی سے اٹھی۔ قلم کو تلوار بنا کر یہ لوگ فکر نو ، اُمید کی شمع جلانے تاریک مظلوم بلوچستان کی آواز بن گئے۔ پاکستان بننے کے بعد متحدہ ہند کے نقیب ’’کانگرسی ‘‘دیو بندی علماء مسجدوں میں محصور کئے گئے ۔ کیچ کے ہمارے استاد عالم محمدحیات صاحب مدرسہ تربت میں قید ۔ خوش گفتار راست گو ملا محمد عمر مستونگ میں اور باقی کوئٹہ میں مدرسوں میں قید ہوگئے تھے۔ عبدالصمد خان اچکزئی اور ساتھی پھر وہی مچھ جیل کی مشقت، ( انگریز جاتے جاتے بلوچستان میں اپنے وفادار فوجی ؍سول سٹلرز کو اُن کی وفاداری ، غدر میں ہند فتح کرنے، دو جنگوں میں عرب، مصر اور فرانس کی سردی بھرتی کے ایندھن بننے وفادارپنجابی مسلم کو وسیع ریگ اور ویراں پہاڑوں میں شتر باں ، باغی، قبائلی، جہالت کے اندھیروں میں صدیوں سے بھوک سے لڑتے، پانی کی تلاش میں دربدر، پشتون بلوچ چرواہوں کے مالک بنا کر گئے۔( اب2016 میں پنجابی مسلم نے اُن کے ساتھ جو سلوک کیا وہ قابل تحریر نہیں)۔
عبداللہ جان نسل نو کے نمائندہ ، پرامی تھیوس بن گئے۔ مساوات ،آزادی ، انسانی برابری کے قلمی نقیب بن گئے۔
دوست اُن پر ضرور لکھیں گے ، اُن کی بلوچی ادب پر تحقیق، ادب کاوشوں اور اُن کی استادِ اول کی حیثیت ۔نثری استاد کے شرف کو اُن کی عزت اُن کی ابدی مسکراہٹ ، بھوک اور غربت سے لڑنے کی اُن کی صلاحیت آزاد جمالدینی اپنے شاعر بھائی کے سنورے میں بلوچی رسالہ (جس میں میرا پہلا مضمون بھی چھپا )کی خدمات کا ذکر کرینگے ،ضرور کریں۔لیکن اس کے پیغمبر ، بلوچ قبائلی سردار سرکار خان مشترکہ مظالم کے خلاف انفرادی جُہدتو ہمیشہ سے جاری تھی۔لیکن ’’ٹیم ورک ‘‘،تنظیم، منظم جہد، اشتراکی فکر ، سرمایہ داری کے مزدور کے حقوق کا تصور کے خلاف مشترکہ قلمی جہد کا پس ماندہ قبائلی معاشرہ میں پہلی دفعہ جس میں ٹیم نے کیا اس کی سرد راتوں میں آگ سلگانے کا کام کی ابتداء کی ۔اس کی سربراہی کا اعزاز اسی عبداللہ جان جمالدینی کو حاصل ہے ۔ جس کے جسد خاکی کو نوشکی کے ریگستان میں دفن کرنے کئی صورت خان جمع ہیں ،کئی ڈاکٹر مری ہیں کئی پشتون صاحبی و کمال خانی ہیں۔
انہوں نے جو آگ سلگائی اس کی محبت کی چنگاریاں پھیلنے لگیں تو ہم نے اور پہلے غلام جان شاہوانی، امان جمالدینی، امان گچکی ، کئی براہوئی بلوچ بن گئے تو پہلی دفعہ گوادر میں یہ آوازملانے والوں میں سر شاعر ظہور ہاشمی اور دوستوں نے ’مید‘ مچھیروں، سابق بلوچ دلت ( جو انگریز نے آزاد کئے) بلوچ برابری ، انسانی مساوات۔ ٹوٹتی متروک سردار لرزہ براندام ہوگئے۔ صدیوں سے محو خواب چرواہے ، جاگ پڑے تو سردار کو چھپنے اور اپنی ذات اور مفاد کو اپنی روایاتی برتری کو قائم کرنے کے لیے ، مالی مشکلات سے نکلنے کے لیے تمام راستے بند گلی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔
آسان راستہ ، نئے عسکری پنجابی مسلم کی سایہ عافیت میں خدمات کا عوضانہ اور مراعات طلب بن جاؤ۔ اکثر نے یہی راستہ اختیار کیا۔
لیکن عبداللہ جان نے ملا مزار کا قبائلی سردار پرستی کا قومی شاعر ’’بگھی‘‘ والا ڈھونڈ کر مہم جو ، تعلیم یافتہ ،باشعور مگر اپنے سردار ی مفاد کے محافظ قوم پرست سردار کو بلوچ معاشرے میں باعزت مقام دیا۔ اب انسانی تاریخ کے المیہ میں یہی ہوتا ہے جو عبداللہ جان اور ساتھیوں کے فکر کے ساتھ ہوا۔ سردار مفادات کی بلوچ قبائلی پر تضاد ماحول میں عبداللہ جان کے قلم کو چوری کرکے توڑ دیا گیا۔ امن کے قلم چھن جانے کے بعد نوشکی کے نوجوانوں کو نہ گاندھی امن پسند گل خان نصیر یاد رہا نہ قلم جہاد بلوچ آزادی مساوات ، انسانیت، برابری کا استاد، عبداللہ جان، تشدد کے خلاف انہوں نے قلم کی جگہ کلاشن تھام لیا۔ یہی پر تشدد پنجابی مسلم کی خواہش تھی۔
اپنی ناجائز حکمرانی کو جائز اور بلوچستان پر حکمرانی کا مسلم پاکستانی بلوچ کے حق کی طلب میں اُن کو مظالم کا جواز مہیا ہوگیا۔ اور عبداللہ جان وقت اور عمر اور حالات کے تحت خاموش تماشائی بن گیا۔ ڈاکٹر مری کو خدا سلامت رکھے اور دوستوں کے نسل نو ۔اُن کی مرضی، قلم کا جہاد جاری رکھیں یا کلاشن اٹھائیں۔
ظلم اور غیر انسانی سلوک جو روا رکھا گیا ہے اس کے خلاف ۔۔۔۔۔۔
کیا جائز کیا ناجائز؟؟؟
چاغی ریگستاں میں کمزور سرداری کو دھکیل کر جگہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بلند آواز سردار مخالف میر گل خان نصیر کی خدمات حاصل کیں۔ انہوں نے اخبار’’ نوائے وطن ‘‘بلوچستان کا اجرا کیا جس کا ایڈیٹر نصیر اور معاونیں پنجابی نئے حکمرانوں کے معتوب، مالی اور سیاسی مشکلات کے شکار عبدالکریم شورش مستونگ کے ملک عبدالرحیم خواجہ خیل طبقے کے سابق کانگریسی (بزنجو صاحب اور غلام محمد شاہوانی وغیرہ کا قلات مسلم لیگ بنانے کے باوجود ناقابل قبول طبقہ)۔ اس بلوچ اخبار کے غربت زدہ پروانے بن گئے۔ لیکن ہر تحریک کی طرح اپنے اندرونی تضادات بہت جلد ابھر کر سامنے آگئے
thesis, Antithesis, Synthesis
کے اشتراکی سیاسی فارمولا ، شاید سیاسی بصیرت کا بہترین نمونہ ہو۔ نوجواں قلم کار ، مشہور ، ’’میزان ‘‘کا ایڈیٹر ابوالجمیل عبدالکریم کے اخبار میں کام چھوڑ کر غلام محمد شاہوانی نے بھوکے’’نوائے بلوچستان ‘‘میں بے تنخواہ نوکری کر لی اور سرداری نظام اور خان نوابوں کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا۔ اس نیک کام میں اُن کو عبداللہ جان جمالدینی کی فکری اور عملی ‘ او رغور ‘ انجم ،عین سلام وغیرہ دوستوں کی قلمی مدد حاصل تھی اور فکری مرکز لٹھ خانہ GHOبن گیا۔میر نبی بخش سرمایہ نظام (کان کنی حد تک )سرداری مفاد سے ٹکراؤ کے لیے زہری قبائل کے سرداردودا خان کے پناہ میں چلے گئے۔ اُن کی انتخابی گٹھ جوڑ میں سردار مخالفت کی ضرورت غیر ضروری بن گئی۔ اُن کے اور میر گل خان کی عملی اخبار (مدد کی حد تک ) ختم ہوگئی ۔
اسی دوران غلام محمد شاہوانی جو ’’نوائے وطن ‘‘ کے روح رواں انٹی سردار اور انٹی خان اور استعمال کے جانشیں پنجابی مسلم بلوچستان حکمرانوں کے خلاف قلم چلانے لگے تھے سے میر گل خان کے اختلافات شدید ہوگئے۔ اس میں فکری اور عملی طور پر عبداللہ جان، ملک پناہ اور غور اور دیگردوستوں نے غلام جان کا ساتھ دیا۔
میر گل خان سرداری نظام کے مخالف لیکن بلوچ خانیت (قلات سیوا شاہی جن کے قبائلی وفاداری ہمیشہ نوشکی نیا بت نمائندگی کی تاریخی وجوہات ) اور خان احمد یار کے مالی اور کسی وقت سیاسی سرپرستی جس کو اس وقت (براہوئی قبائلی برتری وغیرہ )کے ،اس میں اُن کو میر غوث بخش صاحب اور آغا عبدالکریم ‘ اور عنقا حسن نظا می وغیرہ کی قلمی فکری ہمدردی حاصل تھی۔ وہ سردار کو شاعری اور ادبی ، سیاسی اور عملی طورپر بلوچ دشمن ‘قابل نفرت ، تاریخ میں متروک اور بلوچ کو قبائلیت سے نکل کر قوم بننے کے راستے میں پتھر تسلیم کرتے تھے ۔ لیکن اس نظام پر قائم خان ‘ کو اور خاص کر خاں نصیر خان کو بلوچ مرکز یت کے قیام کا ہیرو سمجھتے تھے۔ عبداللہ جان اشتراکی انسانی برابری کے علم بردار بن کر ہماری نسل کے فکری رہبر بن گئے۔
( یہ جو BSOمیں بزنجو صاحب کے فکری باغی انٹی سردار طلباء نے جنم لیا، اس فکر نے لٹھ خانے کے صحن میں جنم لیا تھا) ۔
بلوچ کو آدمی سے ا نسان بنانے کا سفر آج گوادر میں تیابی نعرہ بازی ، شاعری ، اور گویوں کے ہاتھ بین القوامی طور پر سرداروں نے قابل فروخت بنایا ۔ اس شمع کی لونے عبداللہ جان کے لٹھ خانے میں مساوات برابری ، آزادی ’’بلوچ‘‘ کی پیدائش ہمارے سامنے ہوئی۔ اس سے پہلے مکران کیا ہر جگہ مری بینگ ، مکرانی مولد ، جھلاواں کی قابل فروخت بیٹی سرداری نظام کے جس کو خان انگریز کی سرپرستی حاصل تھی کراہ رہی تھی۔ مظالم ، خان ، سردار ، استعمار مشترکہ غلامی میں انصاف طلب ، انسانی حقوق، مساوات ، اقتصادی آزادی، محنت کی قیمت کیا کیا طلب کررہی تھی۔
عبداللہ جان ، اور ملک پناہ ، انجم قزلباش ، کامل القادری ، غربت کی چکی اور حکمرانوں کے مظالم کے خلاف سیاسی بلوچستان کی تاریخ میں اشتراکی قوم پرست بلوچ پشتون ’’غدار‘‘ بن گئے۔