شکستہ ہو گئی میں بھی انا بھی
کہیں رویا نہ ہو میرا خدا بھی

چپک جاتے ہیں جا کر آسماں سے
مری آنکھوں کے آنسو بھی دعا بھی

ہوا بھی چل رہی ہے رات بھی ہے
سرہانے جل رہا ہے اک دیا بھی

یہ کس موسم کا جھرنا بہہ رہا ہے
پرندے گا رہے ہیں اور فضا بھی

مری الجھی لٹوں میں راکھ بھر کر
دکھایا جا رہا ہے آئینہ بھی

مرے قدموں کو باندھا جا رہا ہے
نچایا جا رہا ہے راستہ بھی

ردا میری مصلیٰ ہو گئی ہے
عبادت بن گئی میری حیا بھی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے