لائے کہساروں میں نغمگی کا دھیما پن
خیمہ بستیوں کے پاس دلکشی کا دھیما پن

تیری یاد کے جگنو راستوں میں لاتے ہیں
شام کے اترتے ہی روشنی کا دھیما پن

اس اجاڑ موسم پر جانے کتنی مدت سے
کب سے بھول بیٹھے ہیں ہم خوشی کا دھیما پن

جب بھی بھول ہوتی ہے راہ دھول ہوتی ہے
راستہ سجاتا ہے آگہی کا دھیما پن

دشمنوں نے بھی سن کر پھینک دی ہیں تلواریں
اس کے نرم لہجے میں سادگی کا دھیما پن

عرش سے پرے جا کر تجھ کو جوڑ جاتا ہے
ہم کو توڑ جاتا ہے بے خودی کا دھیما پن

رات کے اندھیرے میں دیکھ کر ترا چہرہ
راہ موڑ لیتا ہے چاندنی کا دھیما پن

بجلیاں چمکتی ہیں بارشوں کے موسم میں
مجھ کو روک لیتا ہے اک ہنسی کا دھیما پن

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے