دہر میں یوں تو کیا نہیں موجود
پھر بھی وہ لطف سا نہیں موجود
جو میسّر رہا ، غنیمت تھا
جو میسّر رہا ، نہیں موجود
یاد یاراں کا داغ جلتا ہے
اور کوئی دیا نہیں موجود
اس خمار طلب میں کھلتا نہیں
کیا ہے موجود ، کیا نہیں موجود
پہلے اذن کلام غائب تھا
اور اب مدّعا نہیں موجود
دو گھڑی تم ہو دو گھڑی ہم ہیں
کوئی ہم میں سدا نہیں موجود
اب یہیں خاک ہو رہیں گے ہم
اب کوئی راستا نہیں موجود
اے غبار رہ طلب گاراں !!
کہیں اس کا پتا نہیں موجود
ہم نے مانگا نہیں ہے جب کچھ بھی
پھر ہمیں کیا کہ کیا نہیں موجود
ہم پہ اے دوست ، ہاتھ رکھ اپنا
ہم میں اب حوصلہ نہیں موجود

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے