ہمارے ملک کے ممتاز مارکسی دانشور عبداللہ ملک کی پہلودارشخصیت سے پاکستان کے بیشتر پڑھے لکھے افراد واقف ہیں بلکہ ملک سے باہر بھی اُن کے پرستاروں کی فہرست خاص طویل ہے، اور لاہور تو اُن کا اپنا شہر تھا، یہاں کے ایوانوں، گلی کوچوں اور چائے خانوں میں عبداللہ ملک کے نعروں اور قہقہوں کی گونج بہت سے سینوں میں محفوظ ہے۔ اُنہوں نے صحافت میں نام کمایا، سفرناموں کے ذریعے ہمیں دنیا کے مختلف ممالک کی سیر کرائی، خاص طور پر اُن ممالک کی جہاں سوشلسٹ نظام پر تجربے کیے جا رہے تھے اور جہاں پاکستان کے شہری بوجوہ جا نہیں سکتے تھے۔ آپ نے ٹریڈ یونین تحریک کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اور قلم کے اس دھنی نے ڈھیروں کتابیں تصنیف کرنے کے علاوہ ذاتی تحریروں، روزنامچوں اور یادداشتوں کا ایسا بڑا اورگراں بہا ذخیرہ چھوڑا ہے کہ ابھی تک اُن مسوّدات کو سنوار کر شائع کرنے کا کام جاری ہے اور یقین ہے کہ ایم۔ آر شاہد کے ہوتے ہوئے جاری رہے گا۔ جب ڈاکٹر کوثر عبداللہ کو آج کی تقریب کے لیے کوئی معزز آدمی نہ ملا اور اُنہوں نے ایک طرح سے گھر میں سے ہی ملزم برآمد کر لیا، تو میرے لیے اس گفتگو کا عنوان تلاش کرنے میں دقت نہیں ہوئی۔ کیوں کہ میری نظر میں عبداللہ ملک کا جو کارنامہ ہمیشہ زندہ رہے گا وہ اُن کی تاریخ کے موضوع پر تحریریں ہیں۔ لیکن میں شروع میں ہی واضح کر دوں کہ آج کی مختصر مجلس میں عبداللہ ملک کی تاریخ نویسی کا مکمل جائزہ لینا ممکن نہیں ہو گا، زیادہ سے زیادہ میں آپ کی خدمت میں چند اشارے پیش کر سکوں گا جن سے آپ کو عبداللہ ملک کے کینوس کی وسعت اور اُن کی نظر کی گہرائی کا شاید کچھ اندازہ ہو سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ ملک کی پہلی کتاب جو میری نظر میں آئی وہ بلغاریہ کے اشتراکی راہنما ڈیمٹریس کی ولولہ انگیز جدّوجہد، قید اور شہادت کی داستان تھی۔ عنوان غالباً تھا وہ جو نہ مر سکا، یہ آزادی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے۔ ملک صاحب کی تحریر میں جوانی کا زور تھا، اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کتاب کے کور کی پشت پر ملک صاحب کی تصویر سے ظاہر ہوتا تھا کہ علم و ادب اور تحقیق کی لگن نے سر کے بال سنوارنے کی مشقت سے آزاد نہیں کیا تھا، اس مختصر سوانح حیات کو بھی تاریخ نویسی کے ایک شعبے میں جگہ دی جا سکتی تھی، لیکن عبداللہ ملک کی تاریخ نویسی کے میدان میں پہلی قرار واقعی کوشش، بنگالی مسلمانوں کی صد سالہ (1757-1857) جہد آزادی ہے۔
عبداللہ ملک انقلاب روس کے تین سال بعد پیدا ہوئے، اور اُنہوں نے بہت چھوٹی عمر میں مذہبی تعلیم کے ساتھ اشتراکیت کا مطالعہ بھی شروع کر دیا۔ بیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اُن کی پہلی کتاب سرمایہ داری شائع ہو چکی تھی، تھوڑے عرصے بعد اُن کی دوسری کتاب جاگیرداری منظر عام پر آ گئی۔ ان دونوں کتابوں کے عنوان سے ہی آپ مضمون کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نوجوان عبداللہ ملک کو غُصّہ کیوں آتا تھا۔
بنگالی مسلمانوں کی صد سالہ جہد آزادی لکھنے کا بنیادی مقصد مشرقی بنگال اور مغربی پاکستان کے درمیاں مغائرت کم کرنا تھا۔ ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست میں قومیتوں کے کردار کا سائنسی تجزیہ بھی پیش کرنا مقصود تھا۔ ملک صاحب نے اپنا مدعا کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں واضح کر دیا اور وہ اُنہی کے الفاظ میں آپ کی نذر ہے۔
’’جب میں نے یہ تحقیق شروع کی تھی تو میرے پیش نظر پاکستان کی مختلف قومیتوں اور خطّوں کی تاریخ کو کھنگالنا تھا، کیونکہ ہندستان ہو یا پاکستان یہ مختلف قومیتوں کے ملک ہیں۔ چنانچہ ان ملکوں میں قومی آزادی کی تحریکیں مختلف قومیتوں کے حوالوں سے اُبھر کر ہی ایک مضبوط، منظم اور عامۃ الناس کی ایک حد تک نمائندہ تحریکیں بنیں، جو آزاد ہندوستان اور آزاد پاکستان پر منتج ہوئیں، اس لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو ان قومیتوں کی تحریکوں اور ان کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے دیکھیں‘‘۔1
اپنے اس مقصد کی وضاحت عبداللہ ملک نے یوں کی کہ تحریک پاکستان میں شامل ہونے والی قومیتوں کی خواہشات، تمنائیں اور خواب تو مختلف تھے ہی اِن قومیتوں کی ترقی کی سطحیں بھی مختلف تھیں۔ ان کی نفسیات بھی مختلف تھیں، قرارداد لاہور میں ایک سے زیادہ ریاستوں کے قیام کی طرف اشارہ اس لیے کیا گیا کہ ’’کسی قومیت کو آزاد پاکستان میں ایک معاشرے کی بالادستی کا ڈر اور خوف نہ ہو۔ اسی لیے یہ بھی طے پایا تھا کہ پاکستان جو مختلف قومیتوں کا وطن ہے کو اگر ایک قوم کے طور پر اُبھرنا ہے اور اُسے جدید طرز کی جمہوری ریاست بننا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام قومیتوں کو اپنے اپنے انداز میں نشوونما کے مواقع ملنے چاہئیں۔ یعنی پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک وفاق کے طور پر زندہ رہنا چاہیے۔ ہر اکائی یعنی قومیت کو اپنے دائرہ کار میں پوری آزادی ہو، اس کی اپنی اسمبلی اور اپنی حکومت ہو اور جو معاملات وہ مرکز کی تحویل میں دینا چاہیں وہ اپنی رضامندی سے مرکز کو دیں اور باقی تمام اختیارات قومیتوں کی اپنی حکومتوں کے پاس رہیں‘‘3
عبداللہ ملک نے یہ بھی بتا دیا کہ مندرجہ بالا خیالات اُنہوں نے لینن سے مستعار لیے ہیں اور یہی اُن کے عقائد ہیں اور انہی عقائد کے پیش نظر اُنہوں نے اس کتاب پر کام شروع کیا تھا۔
اس کتاب کے آغاز میں ’’فہرست‘‘ کے نیچے ایک اہم سطر یہ ہے: ’’پوری کتاب ایک نظر میں‘‘۔4 یہ جدّت میں نے کسی اور کتاب میں نہیں دیکھی۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ مضامین کے عنوان دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مصنف کیا بیان کرنا چاہ رہاہے، آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔ پہلا حصّہ ہے ’’پرانا معاشی نظام اور اُس کی تباہی‘‘، یعنی انگریزوں کی آمد سے پہلے بنگال کا معاشی نظام کیا تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے گماشتوں نے کس بے دردی کے ساتھ لوٹ مار کا طوفان برپا کیا، کس طرح مال گزاری میں حد سے زیادہ اضافے نے کاشتکاروں کی کمر توڑ دی، زرعی معیشت تباہ ہو گئی، کاشتکار بنئے سے قرض لینے پر مجبور ہو گئے اور بعد میں یہ بنیے زمین کے مالک بن گئے، پھر اُنہوں نے کمپنی کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر ناقابل بیان مظالم توڑے۔
اس چیرہ دستی کی پہلی مزاحمت کاشتکاروں کے احتجاج کی صورت میں سامنے آئی، لیکن لاقانونیت کی فضا میں فقیروں اور سنیاسیوں کو بھی لوٹ مار میں شامل ہونے کا موقع مل گیا اور جنگلی قبائل نے بھی بغاوت کا راستہ تلاش کر لیا۔
پھر ایک نیا دور شروع ہوا، جس میں کاشتکار منظم ہونے لگے، فرائضی تحریک کا علم بلند ہوا، زمین اللہ کی ہے کہ نعرے لگنے لگے، تحریک کے قائد تیتو میاں اور اُن کے ساتھیوں نے متبادل حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ ٹیکس وصول کرنے شروع کر دئیے۔ انگریزوں کی جوابی کارروائی میں تیتو میاں لڑتے لڑتے شہید ہوا، تحریک کچل دی گئی، فرائضی تحریک کے بعد بنگال میں قوم پرستی کی تحریک نے سر اُٹھایا، تعلیم کے میدان میں ترقی کے لیے مؤثر تنظیمیں بنیں اور ان تنظیموں میں سے ہی آزادی کے نئے متوالے نکلے اور اخبارات کی آزادی کی تحریک نے جنم لیا، ان واقعات کی تفصیل آج بھی تاریخ کے طلباء مفید پائیں گے۔ فرائضی تحریک کی ناکامی اور نئی تحریکوں کے فروغ پر عبداللہ ملک کا سچا اور سفّاک تجزیہ قابلِ غور ہے۔
’’یہ تھے دو بنگال جو اُنیسویں صدی کی پہلی چوتھائی ہی میں واضح طور پر اُبھرنے شروع ہو گئے تھے۔ ایک بنگال جو ماضی کے لیے مصروف پیکار تھا اور ایک بنگال جو مستقبل کے لیے کوشاں تھا۔ ہماری جذباتی وابستگی کسی سے بھی ہو لیکن ایک حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ ماضی کو لوٹانے کے لیے کتنی ہی بھرپور جدّوجہد کی جائے وہ کامیاب نہیں ہو سکتی، اور تاریخ نے کبھی ایسی تحریکو ں کو زیادہ دنوں تک توانائی نہیں بخشی۔5
یہاں عبداللہ ملک ہمیں مورخ کے اصل روپ میں نظر آتے ہیں، اور ہمارے سامنے ایک ایسا کلیہ پیش کر تے ہیں، جس کی روشنی میں ہم آج کے دور میں ہونے والی تبدیلی کی کوششوں کی صحت اور وقعت کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
کتاب کے آخری حصے میں جو 15 ابواب پر مشتمل ہے مصنف نے شمالی ہندوستان میں پیدا ہونے والی تحریک جہاد میں بنگال کے مسلمانوں کی شرکت کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے، سیّد احمد شہید کی تحریک کا سیاسی اور معاشی پس منظر کیا تھا، اُن کی تحریک نے شاہ ولی اللہ کی تعلیمات سے کیا راہنمائی حاصل کی، شاہ اسمٰعیل شہید کا کیا کردار تھا، ہمارے شمالی علاقہ جات میں جہاد کی تحریک کا بنگال میں کیا اثر ہوا اور کس طرح فرائضی تحریک کی باقیات نے اس جہاد کی تحریک میں اپنا کردار تلاش کرنے کی کوشش کی۔
عبداللہ ملک نے اس کتاب کے ذریعے مغربی پاکستان کے عوام اور سیاسی قائدین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ
’’اس خطے کی تاریخ اور اس کے بسنے والوں کی جدوجہد کے دھارے ہم مغربی پاکستان والوں سے مختلف رہے ہیں۔ تاریخ کے اس اختلاف کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک بین حقیقت تو یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے پورے خطے جب برطانوی تسلط کے زیر انتظام آئے تو اس وقت تک مشرقی پاکستان اور بنگال پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو قریب قریب ایک صدی گزر چکی تھی۔ برطانوی اقتدار وہ تمام عمل یہاں جاری کر چکا تھا جس کا ہمیں ابھی اندازہ بھی نہ تھا۔ اور جب مغربی پاکستان والے برطانیہ کے زیر اقتدار آئے تو اس وقت تک مشرق پاکستان اور بنگال کے لوگ اور مسلمان کئی ایک مزاحمتی تحریکوں کو جنم دے چکے تھے۔ انہوں نے بغاوتیں بھی کی تھیں، ہتھیار بھی اٹھائے تھے، وہ برطانوی اقتدار کو للکار بھی چکے تھے، پٹ بھی چکے تھے اور پٹنے کے بعد فطری طور پر نئی راہوں کے متعلق سوچ بچار شروع ہو چکا تھا۔ غرضیکہ دونوں خطوں کی تاریخ میں اختلاف ہوتے ہوئے بھی یکسانیت ہے، بُعد ہوتے ہوئے بھی قربت ہے، دوری کے باوجود نزدیکی ہے۔ سن و سال کی اس تقدیم و تاخیر کے باعث مشرقی پاکستان کی تاریخ کا اپنا ایک مخصوص رنگ ہے اور اس کے پس منظر میں ہی اسے سمجھنا، سمجھانا چاہیے۔‘‘6
آپ عبداللہ ملک کے عزائم کا اندازہ کیجئے۔ وہ واضح طور پرdiversity میں unity پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو بعد میں ہم سب کا نعرہ بن گیا، لیکن مغربی پاکستان (اور آج کے پاکستان) والے یہ نہ بھولیں کہ پنجاب پر انگریزی اقتدار قائم ہونے اور 1857 کی جنگ آزادی سے پہلے مشرقی بنگال کے مسلمان کیسے کیسے تجربات سے گزر چکے تھے، آزادئ وطن اور آزادئ فکر کے لیے کتنی قربانیاں دے چکے تھے۔
عبداللہ ملک کی تاریخ کی دوسری اہم کتاب پنجاب کی سیاسی تحریکیں ہے،
جب بھٹو صاحب اقتدار میں آ گئے، یا شاید اُس سے ذرا پہلے، عبداللہ ملک بطور چیف رپورٹر امروز اُن (بھٹو) کے استقبال کے لیے ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے تو اس کتاب کا نسخہ ساتھ لے لیا اور بھٹو صاحب کو پیش کیا، سرورق پر اس تحریر کے ساتھ ’’اگر پاکستان پر حکومت کرنا ہے تو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کیجئے‘‘۔
ملک صاحب نے یہ دعویٰ کیسے کر دیا، آپ کتاب پڑھ لیں، جواب مل جائے گا۔
اس کتاب کی ابتدا عبداللہ ملک اپنی اس مستقل شکایت سے کرتے ہیں کہ پاکستان میں تاریخ سے گریز کیوں جاتا ہے، تاریخ کو نظر انداز کرنے کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ہم نے قیام پاکستان سے قبل چلنے والی تحریکوں پر خاطر خواہ غور نہیں کیا۔
’’مسلم لیگ نے اپنی نمائندہ حیثیت منوانے کے سلسلے میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں جو طور طریقے اختیار کیے، بدقسمتی سے اس کے اثرات نے ہماری سیاسی زندگی میں وسعت خیالی اور اختلافِ رائے کے احترام کو شدید نقصان پہنچایا، نتیجتاً ’’حُبّ وطن‘‘ مسلم لیگ سے خاص ہو گئی اور اس کے سوا دوسری جماعتوں کے لیے صرف حقارت اور نفرت کے جذبات مختص ہو گئے۔7
ظاہر ہے اس رویے کے مہلک نتائج نکلے، اور دوسری جماعتوں کے اراکین یا مسلم لیگ میں شامل ہو کر منافقانہ سیاست پر چل پڑے یا سیاست سے کنارہ کش ہو کر گوشہ نشین ہو گئے۔ نقصان جمہوری عمل کو پہنچا۔ عبداللہ ملک کے نزدیک سیاسی تحریکوں اور جماعتوں کو پرکھنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کس طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں۔
’’اس کے ساتھ اُس دور کے مختلف طبقات کا تناسب (آبادی میں) اور اُن کے تضادات سبھی پر نگاہ رکھنی ہو گی، اور سچ یہ ہے کہ ان طبقات اور سماج کے اندر ان طبقات کے تضادات کے پورے علم کے بغیر تحریکوں کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔8
عبداللہ ملک خاصی تفصیل سے تاریخ کے سائنسی نظریے کی وضاحت کرتے ہیں، ابن خلدون کو علم التاریخ کو زیادہ سائنسی بنیادوں پر گامزن کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن چلتے چلتے اُسے کہنی بھی مار دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ وہ اپنے وضع کردہ اُصولوں پر خود عمل نہیں کرتا اور عقائد کی زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے۔ مزید برآں وہ تصوف اور بعض انسانی روحوں کی خصوصی قوت کی بات کرتا ہے۔9 مصنف کی نظر میں اصل علم تاریخ کو نئے اسلوب سے جانچنے کا سہرا مارکس کو ہی زیب دیتا ہے۔10 بالآخر عبداللہ ملک اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ
’’تاریخ ہر حال میں طبقاتی جدّوجہد جانے بغیر قلمبند نہیں ہو سکتی، لیکن یہ جدوجہد کبھی سامنے نظر آتی ہے اور کبھی آنکھوں سے پوشیدہ رہتی ہے، اس لیے صحیح تاریخ رقم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے مختلف طبقات کا تجزیہ ہو، ان کی خواہشات و تمناؤں کا ذکر ہو، اُن کے تصادم کی کہانی ہو، اُن کے ظاہر و باطن کا تذکرہ ہو، کیونکہ بہت دفعہ یہ تصادم نظر آتا ہے اور بہت دفعہ سطح آب خموش اور ساکت دکھائی دیتی ہے، لیکن تاریخ کے تجزیہ نگاروں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس سطح آب کے نیچے پرورش پانے والے سیلابوں پر بھی نگاہ رکھیں اور ان کا حال قلمبند کریں۔‘‘11
ملک صاحب نے اس کتاب میں کئی اہم تحریکوں کا بشمول کانگریس، مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی ذکر نہیں کیا، کیونکہ وہ اُن کے بارے علیحدہ جلدیں مرتب کرنا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے کتاب میں صرف تین تنظیموں کو تجزیے کے لیے چُنا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ، مجلس احرار اور خاکسار تحریک۔ جماعت احرار اور خاکسار پنجاب میں پیدا ہونے والی مسلمان وقار کی بحالی کی تحریکیں تھیں اور راشٹریہ سیوک سنگھ نے وسطی ہند کے شہر میں مرہٹہ برہمنوں کی ڈیوڑھی میں جنم لیا لیکن پنجاب میں مقبول ہوئی۔ کتاب کا وہ حصہ خاص طور پر توجہ کا طالب ہے جس میں عبداللہ ملک پنجاب میں ہندو مسلم کشمکش کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ دولت اور سیاسی جدّوجہد کا جھنڈا ہندو کے پاس تھا اور زمینوں پر خاص طور پر نئی نہروں سے سیراب ہونے والی اراضی کے خاصے بڑے حصے پر قبضہ مسلمانوں کا تھا، صوبے میں سکھ بھی تھے، جن کی تعداد کم تھی لیکن نوکریوں میں اُن کی نمائندگی خاصی تھی، اور اُن کے قبضے میں زمینیں بھی تھیں، انگریزوں نے اپنے مفاد کی خاطر مسلمان زمینداروں کی زمینوں کو بنئے کے ہاتھ میں جانے سے روک دیا، الیکشن سے متعلق اور دیگر اقدامات کے ذریعے مسلمان زمینداروں کے سیاست میں مقام کا تحفظ کیا، یوں پنجاب ملک میں سب سے زیادہ کمیونل تصادم کا صوبہ بن گیا، یو پی سے بھی زیادہ۔ چنانچہ شمالی ہند کے ان دو صوبوں بالخصوص پنجاب میں شدت پسند مذہبی تحریکوں کی راہ ہموار ہو گئی۔
راشٹریہ سنگھ نے پنجاب میں جس زہریلی سیاست کی فصل تیار کی وہ آج ہندوستان میں کاٹی جا رہی ہے، پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ جو اس جماعت نے کیا سو کیا۔
احرار اور خاکسار دونوں درمیانے اور نچلے طبقوں کے مفاد کے تحفظ لیے میدان میں آئی تھیں۔ دونوں اسلامی نظام کے احیا کی داعی تھیں، راستے مختلف تھے، احرار تشدّد کا سہارا لیے بغیر کانگریس کی تقلید میں جمہوری راستہ اختیار کرنے کو تیار تھے جبکہ خاکسار یورپ کی فسطائی تحریکوں سے متاثر تھے اور تربیت یافتہ مسلح جتھوں کی مدد سے انقلاب لانے کے خواب دیکھتے تھے۔ دونوں جماعتیں پنجاب کے معروضی حالات کی پیداوار تھیں اور بہت مقبول ہوئیں، لیکن دونوں مسلم لیگ کے ہاتھوں پٹ گئیں، کیونکہ مسلم لیگ نے عوام کو جو خواب دکھایا اس کی مختلف طبقات نے اپنی اپنی خواہشات کے مطابق ایسی دل خوش کن تعبیر کی کہ احرار اور خاکسار اُس کے قافلے کی گرد کو بھی نہ چھو سکے۔
جو سبق عبداللہ ملک اس کتاب کے ذریعے سیاستدانوں کو دینا چاہتے تھے وہ غالباً یہی تھا کہ پنجاب کا معاشرہ ایک خاص ماحول میں وجود میں آیا تھا، یہاں کے طبقات کے تضادات پر مذہبی رنگ خاص وجوہات کی بنا پر چڑھ گیا اور اس کے اثرات ختم نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ اُنہی اثرات نے بھٹو کے سامنے ایسی مشکلات کھڑی کر دیں کہ وہ اُن پر قابو نہیں پا سکے۔
ایک اہم بات احرار کے باب میں، جو بوجوہ کتاب کا طویل ترین باب ہے، یہ ہے کہ عبداللہ ملک احرار اور احمدیہ جماعت کے تصادم کو مذہبی فرق سے کم اور سیاسی اختلافات سے زیادہ تعبیر کرتے ہیں، اور اگر یہ بات زمین میں رکھی جاتی تو احمدی مسئلہ کا حل وہ نہ ہوتا جو 1974 میں نکالا گیا۔
تاریخ نویسی کے باب میں عبداللہ ملک کا اگلا کام پاکستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت کے سلسلے کے متعلق ہے، اور اس کے گراں قدر ہونے سے انکار ممکن نہیں۔ عبداللہ ملک نے اس مضمون پر سال ہا سال توجہ دی۔ ابتدا اُس کتاب سے کی جس کا عنوان ہے پاکستانی فوج کی ابتدا اس کے بعد فوج اور پاکستان شائع ہوئی اور اس سلسلے میں نئی کتابیں یکے بعد دیگرے سامنے آئیں۔ ان میں ملک صاحب نے ہندوستان میں فوج کی تشکیل، اُس کے انتظامات اور اُس کے سول انتظامیہ سے تعلقات اور تنازعات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ ہندو، مسلم، سکھ فسادات میں فوج کے کردار پر روشنی ڈالی، ’’پاکستان کی بنیادی حقیقتیں اور پاکستانی فوج کی ابتدا میں اپنے تاریخ نویسی کے فن کو جلا دی اور ملک کی سیاست میں فوج کی مداخلت کے اسباب سیاسی جماعتوں کے فقدان اور معاشرے کے اندرونی تضادات میں تلاش کیے۔ مسلم لیگ کی سیاست کی کمزوریوں کا احاطہ کیا اور پنجاب کے مسلم زمینداروں کی مصلحت کوشی کے اثرات کا جائزہ لیا۔ فوج کی سیاست اور اُس کے سول انتظامیہ سے تصادم کا ذکر عبداللہ ملک کے اخباری کالموں میں جاری رہا۔
عبداللہ ملک کی کالم نویسی کا کمال یہ ہے کہ اُن کے ایک ہی مضمون پر لکھے گئے کالم ایک مستقل کتاب کے باب بن گئے اور بیانئے کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔
عبداللہ ملک نے تاریخ بیان کرنے کے انداز میں جو تجربے کیے اور جدّت پیدا کرنے کی کوشش کی ان کی منفرد مثال وہ کتاب ہے جس کا چھوٹا عنوان سوانح میاں افتخار الدین ہے اور جلی عنوان عالمی کمیونسٹ تحریک ہے۔ یہ کتاب مصنف کی علالت کے ذکر سے شروع ہوتی ہے، برطانوی دور میں جدّوجہد کے کٹھن مقامات اور کشور ناہید کے لازوال مصرعوں کی یاد تازہ کرنے کے بعد مصنف نے سوانح نگاری کے بارے میں اپنے نظریات پیش کئے ہیں ان کی اپنی حدود اور میاں افتخار الدین کے اہل خانہ کی خواہشات میں تصادم ہو گیا۔ عبداللہ ملک اپنے راستے پر قائم رہے اور ایک باریش افتخار الدین کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کے محرکات مارکسسٹ تحریک میں تلاش کرنے چل پڑے۔ پھر پاکستان ٹائمز پر ایوب سرکار کی یورش کا حال بتانا ضروری ہو گیا، اِس کے بعد پروگریسو پیپرز کے اخبارات کے اجرا کا حال قلمبند کیا گیا، بعدازاں افتخار الدین کے خاندان کے پُرشوکت ماضی اور شالامار باغ کی تاریخ کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ یوں کوئی 100 صفحے گزرنے کے بعد افتخار الدین کی ولادت ممکن ہو سکی۔ اُن کو جلدی سے ایچی سن سکول سے فارغ کر کے آکسفورڈ بھیجنے کے بعد ملک صاحب نے کمیونسٹ تحریک کی تاریخ شروع کر دی اور پہلی، دوسری اور تیسری انٹرنیشنل کے ذکر سے فارغ ہوتے ہوئے وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں 20 ویں صدی کی تیسری دہائی میں بائیں بازو کے اثرات تک پہنچ گئے۔
اس کتاب میں واقعات کو ایک chronological order میں پیش کرنے کے بجائے مصنف نے کہانی / فلم کا وہ راستہ اختیار کیا ہے جس میں کہانی کا انجام پہلے بیان کر کے فلیش بیک کے ذریعے پہلے کے واقعات کا انکشاف کیا جاتا ہے۔ مصنف وقت میں آگے پیچھے سفر کرتا رہا ہے۔
اس طرز بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عبداللہ ملک اوّل و آخر اشتراکیت کے ہمہ وقت علمبردار تھے۔ وہ تمام معاملات ہی نہیں شخصیات کا مطالعہ بھی مارکسی تھیوری کے تناظر میں کرتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ اُن کے کینوس کی وسعت لامحدود تھی، وہ ایک کتاب لکھنے کی بجائے ہر مضمون پر کتابوں کا ایک سلسلہ تصنیف کرنے کا منصوبہ بناتے تھے، اور ہر سلسلے کی پہلی کتاب، جیسے پنجاب کی سیاسی تحریکیں کے آغاز میں بعد میں آنے والی کتابوں کی تمہید باندھ دیتے تھے، میاں افتخار الدین کی سوانح کے ذریعے عالمی کمیونسٹ تحریک کی تاریخ لکھنے کے منصوبے کو اسی تناظر میں دیکھنا مناسب ہو گا۔
کچھ ذکر عبداللہ ملک کی تحریر کے بیانیہ پہلوؤں کا بھی ہو جائے۔
ملک صاحب تاریخ گفتگو کے انداز میں لکھتے ہیں۔ گفتگو اپنے بیٹوں کے ساتھ۔ شاید یہی طریقہ یونانی فلسفیوں نے اختیار کیا تھا۔خاصے عرصے تک ملک صاحب کوثر سے گفتگو کرتے رہے، پھر خیال آیا کہ سرمد کونے میں بیٹھا ہے، تو پھر مخاطب سرمد ہو گئے۔ ہم ملک صاحب کے دونوں صاحبزادوں کے شکر گزار ہیں کہ اُنہوں نے سعادت مندی کی روایات اور خاموشی کے سنہری اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے ملک صاحب کی تحریر کی روانی میں خلل نہیں پڑنے دیا۔ وہ کوئی سوال کر بیٹھتے تو مضمون جانے کہاں سے کہاں چلا جاتا۔
عبداللہ ملک کے پاس الفاظ کا ایسا ذخیرہ تھا کہ نہایت فراخدلی سے استعمال کے بعد بھی اُن کی فراوانی میں فرق نہیں آیا، یہ وصف زبان پر مکمل قدرت کے بعد ہی حاصل ہو سکتا ہے، اور الفاظ کو چھوڑئیے عبداللہ ملک شاعر تو شاید نہیں تھے لیکن اُن کی بیاض میں سینکڑوں شعر درج تھے جو وقفے وقفے سے اُن کی نثر کو رنگین بنا دیتے تھے۔
ملک صاحب کی خود احتسابی کی حسِ خاصی مضبوط تھی اور وہ اُن کشادہ دل لوگوں میں سے تھے جو اپنے اوپر ہنسنے سے نہیں ڈرتے تھے۔ یہ اعتماد ذریعہ ابلاغ پر عبور کے بعد ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر سوانح افتخار الدین میں ایک بائیں بازو کی تنظیم کے قیام کا ذکر کرتے ہیں جس کا نام رکھا گیا تھا The league against imperialism and colonial oppression and for national independence اس بارے میں ان کا نہایت شگفتہ تبصرہ ملاحظہ کیجئے۔
ویسے سرمد میاں! تم کمیونسٹ اور ان کے ہمنواؤں میں ایک خاصیّت ضرور محسوس کرو گے کہ ان کی تمام قراردادیں بے پناہ طوالت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہی حال ان کی دستاویزات کا ہے، دراصل وہ بات اتنی وضاحت سے کرنا چاہتے ہیں کہ اس میں کوئی ابہام نہ رہے اور دشمن کو ان میں سے اپنے مطالب کے معانی نکالنے کے تمام دروازے بند کر دئیے جائیں، یہی حال ان کی جماعتوں کے ناموں کا ہے، چنانچہ اب یہ جو نام رکھا گیا یہ بھی شیطان کی آنت کی طرح طویل اور پیچیدہ ہے، چنانچہ پھر ترقی پسند لوگ خود ہی ان ناموں کے مخفف کو زبانِ زدعام کر دیتے ہیں، چنانچہ یہ تنظیم جس کا اتنا طویل نام رکھا گیا، مخفف ہو کے صرف اینٹی امپیریلسٹ لیگ رہ گیا۔
اگر آپ کو اس مضمون میں ملک صاحب کی تحریر کا کوئی اقتباس طویل نظر آیا ہو تو معافی کا خواستگار ہوں، وجہ آپ کو بتا دی، شاید میں بھی عبداللہ ملک کی طرح آپ کو ابہام کے راستے فرار ہونے کی اجازت نہیں دینا چاہتا تھا، لیکن یہ حرکت میں نے مضمون کے شروع کے حصّے میں ہی کی، پھر آپ کے اور اپنے پاس وقت کی کمی کا احساس ہوتے ہی اقتباسات کسی اور موقع پر استعمال کے لیے بچا لیے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ میں عبداللہ ملک کی تاریخ نویسی کے ساتھ کتنا انصاف کر پایا ہوں، لیکن جہاں تک میں اُن کی تحریروں کی چھان پھٹک کر سکا ہوں اس سے یہی نتیجہ نکلا کہ جب تاریخ کے دربار میں پاکستانی مورخین کے نام پکارے جائیں گے، ڈاکٹر مبارک علی کا نام آئے گا، عائشہ جلال کا نام لیا جائے گا، کے ۔ کے عزیز کا نام پکارا جائے گا ڈاکٹر طاہر کامران کا نام آئے گا، غلام رسول مہر کا ذکر ہو گا، اور بات اشتیاق احمد تک پہنچ جائے گی، ہاتف سانس لینے کے لیے رُکے گا تو ایک کونے سے عبداللہ ملک کی پاٹ دار آواز بلند ہو گی۔ اوئے ساڈی ویری شیم شیم۔
عبداللہ ملک میموریل لیکچر ۔ 12 نومبر 2016
حوالہ جات
-1 عبداللہ ملک، بنگالی مسلمانوں کی صد سالہ جدّوجہد، دوسرا ایڈیشن، ص 11
-2 ایضاً ،ص 13
-3 ایضاً ، ص 14
-4 ایضاً ، ص 3
-5 ایضاً ، ص 200
-6 ایضاً ، ص 11
-7 عبداللہ ملک، پنجاب کی سیاسی تحریکیں، ص 4-5
-8 ایضاً ،ص 81
-9 ایضاً ص 17
-10 ایضاً ، ص 18
-11 ایضاً ،ص 24
-12 سوانح میاں افتخار الدین ،ص 363