نومبر2016
اس ماہ کا سنگت ملا۔ نگاہ جو ٹایٹل پر کی تومیرے بابا عبداللہ جان جمالدینی کا روشن چہرہ نظر آیا۔ طبعیت خوش ہو گئی ان کو دیکھ کر۔ اسی خوشی کو لیے سنگت کا مطالعہ کرنے کے لیے نشست سنبھالی اور ورق گردانی شروع کر دی۔
میری پہلی دوڑ دانش کدے کی جانب تھی ۔ ٹھیک سمجھے آپ ، میں پوہ زانت ہی کی بات کر رہی ہوں، جہاں علم و دانش سے بھر پور باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔
’سماجی ارتقا کی گردن ، جنگل سماج کے ہاتھوں میں‘ پڑھا۔ واہ جی مزہ آگیا۔ کیا خوب صورت مکمل مضمون تھا صاحب۔ ایک ہی مضمون میں دانش ور صاحب نے پوری دنیا کا چکر دے ڈالا۔
’’ دنیا میں سب سے زیادہ جواں مردی یہ ہے کہ جب چند مفاد پرست افراد قوم کو گم راہی کے گڑھے میں دھکیلنا چاہیں تو اس وقت سینہ تان کر سیدھی بات کہہ دی جائے۔ ‘‘یہ ہے ٹکڑ ا غلام محمد شاہوانی اور عبداللہ جان جمالدینی کے مضمون ،’’ ہمارا بلوچستان‘‘ کا۔اس مضمون پر میں کیا کہہ سکتی ہوں کہ یہ تو اتنے بڑے لوگوں کی تحریر ہے۔ بس اسی پر اکتفا کررہی ہوں کہ کیا کہنے !
’’جو کہ بچھڑ چکے ہم سے‘‘عزیز بگٹی صاحب کا مضمون بابا عبداللہ جان کے بارے میں ایک بہت اچھا مضمون تھا۔ اس میں ان کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا تھا جس سے ہم پر بابا عبداللہ جان کی سوچ مختلف حوالوں سے مزید واضح ہو گئی۔ہاں مگر کاظمی صاحب کے بارے میں ایک طویل پیراگراف اس مضمون میں بلا ضرورت لگا۔
پھر ر خ جو ہم نے دانش کدے کے ایک اور مضمون،’’ ماما عبداللہ جان ‘‘کی طرف کیا تو پڑھ کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ سرور آغا صاحب جو باقاعدہ لکھاری نہیں ہیں، نے ایک بہت اچھا مضمون لکھا۔
ڈاکٹر عطااللہ بزنجو صاحب کی ،’’ماما جمالدینی، فن اور شخصیت‘‘ کے عنوان سے ایک اچھی تحریر تھی۔
لالا ظاہر خان مینگل کا مضمون ،’’ یہ تحفہ کبھی بھول نہیں سکتا‘‘میں انھوں ایک بہت اہم بات کی کہ،’’ جب لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے مقصد سے ہٹ جاتی ہے تو لوگوں کا یہ جمِ غفیر ایک ہجوم میں بدل جاتا ہے‘‘۔ جی ہاں بالکل ٹھیک کیوں کہ ہجوم میں تو بس اک بھاگ دوڑ ہی ہوتی ہے ، مقصد کہیں دور ہی رہ جاتا ہے۔ بابا عبداللہ جان میں لوگوں کو منظم کرنے اور منظم رکھنے کی صلاحیت بہ درجہء اتم موجود تھی۔
اب ذرا قدم بڑھاتے ہیں بیرم غوری صاحب کے زبردست مضمون ،’’ اک منشور نما‘‘ کی جانب۔ ’’ سمندروں میں ابھرنے والے جزیرے موسم کے مزاج کے مرہونِ منت رہتے ہیں۔ سو تاریخ مرتے لمحوں کا قبرستان نہیں، آنے والے دنوں کے تعین کا اہم استعارہ ہے۔‘‘ کیا بات ہے اس مضمون کی۔ کیا خوبصورت تمہید سے شروعات کی گئی۔ بابا عبداللہ جان پر ایک حسین تحریر جو، ان کا حق تھا۔
اب جو ہم نے رخ ایک اور مضمون کی اَور کیا تو وہ تھا وحید زہیر صاحب کا مضمون ،’’بولتا استاد بیدار انسان۔‘‘ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں بھی بابا عبداللہ جان کو بڑی محبت اور خوبصورتی سے یاد کیا گیا۔ وحید صاحب ایک جگہ کہتے ہیں کہ ،’’بابا، روز دوسروں سے ایک دفعہ خود سے ملتے اور ہم کلام ہوتے تھے۔ دوسروں میں شر تلاشنے سے پہلے اپنے آپ میں تلاشتے تھے، جسے خود احتسابی کہتے ہیں۔‘‘ بھئی سچی بات ہے کہ مزہ آگیا پڑھ کر۔
ڈاکٹر علی دوست بلوچ صاحب نے ہمارے اور اپنے بابا پر ایک بہت اچھا مضمون ،’’ عبداللہ جان جمالدینی کی علمی، ادبی اور فکری جدوجہد‘‘ کے عنوان سے لکھا۔
عبدالحنان جمالدینی نے ، عبداللہ جمالدینی ایک استاد محترم، مختصر لیکن اچھا مضمون لکھا۔ان کے بقول بابا عبداللہ جان اس قدر اعتماد دیتے تھے، کہ بندہ میں خود اعتمادی از خود آ جاتی تھی۔ بڑے بڑے کام بڑے آرام سے ہو جاتے ہیں ۔ اعتماد ہی تو چاہیے بس!
یہ تو تھے محبت کرنے والوں کے نذرانے بابا عبداللہ جان کے لیے اور اب چند متفرق مضامین کی بات کرتے ہیں۔
’’سمو لینی میں لینن کے شب و روز‘‘ یہ مضمون ہے سلمیٰ اعوان کا۔ایک اچھی تحریر رہی۔
جاوید صاحب ایک سلسلہ وار مضمون لکھ رہے ہیں۔ اس دفعہ کے آرٹیکل میں انھوں نے نہایت خوبصورتی سے حسن و جمال کو لینن، اکتوبر انقلاب، بد صورت استحصالی سماجی تشکیل اور فنونِ لطیفہ سے مربوط کیا ہے۔ اس دفعہ کی ان کی تحریر ذرا مدھم اور ہلکے سُروں میں تھی ۔
ببرک کارمل نے’’ سکندر علی جمالی‘‘ پر بنا تمہید کے ایک مضمون لکھا جو بس ٹھیک ہی تھا۔
اور اب با ت ہو جائے ان مزیدار خطوط کی جو سائیں کمال خان شیرانی نے پشتو میں لکھے تھے اور جن کا میاں خیل بارکوال نے اردو میں ترجمہ کیا۔ سائیں کی کیا بات ہے کہ انھوں نے نام سے بات شروع کر کے کس خوب صورتی سے اپنی بات اپنی سوچ اگلے تک پہنچا دی۔
حال حوال میں سنگت پوہ زانت اور سموراج ونڈ تحریک کی رپورٹس شامل تھیں اور ساتھ ہی اکتوبر کے سنگت کا ریویو ’’سنگت کے بکھرے موتی‘‘ کے نام سے تھا۔
کتاب پچارمیں اس دفعہ تین کتابوں تبصرے تھے جن میں دو تو عابدہ رحمان کے تھے ۔ ایک میکسم گورکی کی کتاب ’ ماں‘ پر تھا جب کہ دوسرا ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتاب ’ بلوچ ، مہر گڑھ سے تشکیلِ ریاست تک‘ پر تھا۔
تیسرا تبصرہ جس کا خاص طور سے ذکر کرنا چاہوں گی وہ ہے ’’، مست ئے مسیت۔۔۔بلوچستان‘‘، جو نوشین قمبرانی نے ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ’’ مستیں توکلی‘‘ پر بہت ہی شاندار انداز میں کیا۔
کہتی ہیں کہ،’’ عورت محرک بنتی ہے؛ انقلابی شاعری کی محرک، انسان دوستی، آزاد خیالی، شعور اور روشنی کی دیوی‘‘ ایک اور جگہ کہاکہ،’’ مست، سمو کے مہر میں انسانی حقوق اور بھلائی کا علَم برداربنا ،جیسے اسے سمو کے عشق میں خود عورت ہونے کا تجربہ ہوا ہے۔‘‘
محبت کی چاشنی سے لبریز تحریر تھی نوشین کی کہ جسے پڑھ کر اب تک میرے منہ میں مٹھاس گھلی ہوئی ہے۔
اور جناب اس دفعہ کے قصے پڑھ کرپچھلے سارے گلے شکوے دور ہو گئے۔
’’پتلیاں‘‘ سبین علی کی کہانی۔ مشین جو انسانی زندگی کو سہل کرتی ہے ۔ مشین، نئی ٹیکنالوجی انسان کے لیے ہے ، انسان مشین کے لیے نہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ جب مشینی روبورٹس، مشینوں کی بھرمار اس قدر زیادہ ہو جائے گی کہ انسان ان میں کہیں اندر ہی دب جائے گا ،بس مشینیں ہی مشینیں ہوں گی۔ یہ ہے موضوع اس افسانے کا جسے سبین نے بڑی خوب صورتی سے نبھایا۔
گوہر ملک کا افسانہ ’’ بیٹی‘‘ کے عنوان سے تھا، معاشرہ جس کی پیدائش پر کبھی خوش نہیں ہوتا۔اسے ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔اسی موضوع پر ہے یہ افسانہ۔ ایک خوشی کی بات جو اس افسانے میں ہے کہ مرد جو ہمیشہ عورت کو بیٹی پیدا کرنے کا ذمہ دار سمجھتی ہے، اس کہانی میں وہ بڑا Positive دکھایا گیا ہے۔ کہانی کا انت تو ان فقروں کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے کہ ،’’عورت بچاری تو مفت میں تہمت کا شکار ہوتی ہے۔ جو بیج بویا جائے گا وہی فصل تیار ہوگی۔ جَو کاشت کروگے تو جَو اٹھاؤگے، گندم کاشت کروگے تو گندم ملے گا۔‘‘
’’ریت کا قلعہ‘‘ آدم شیر کا ایک مختصر مگر اچھا افسانہ تھا جس میں بتایا گیا کہ ملک معاشی، بے روزگاری، صحت، سکیورٹی جیسے مسائل میں جکڑا ہے جب کہ دوسری طرف میزائل کے تجربے ہو رہے ہیں۔ دوسری بات جو افسانے میں ہے کہ دہشت گردی ، بے روز گاری اور دوسرے مسائل اب اس قدر روز کا معمول بن گئے ہیں کہ پڑھنے والا بھی اب تو پڑھ کر اخبار ایک طرف ڈال کر کسی اور کام میں مصروف ہو جاتا ہے۔
بات کرتے ہیں میکسم گورکی کے افسانے پر جسے صابرہ زیدی نے’’ پرچارک‘‘ کے نام سے بڑی عمدگی سے ترجمہ کیا ہے۔
افسانہ جو سوشلزم پر مبنی کہانی ہے۔ پادری لوگوں کی عقل عقیدے کے نام پر کنٹرول کر کے اسے اپنے مطابق ڈائریکٹ کرتا ہے اور اس طرح انھیں ایک اَن دیکھی غلامی کی زنجیر میں جکڑ لیتا ہے۔ بہت اچھا افسانہ تھا۔
اور چلیں اب ہو جائے ذرا شاعری کا تڑکا:
سینئرز میں اردو شاعری کی بات ہو تواس دفعہ سنگت میں بیرم غوری صاحب کی نظم ’’موسمِ نجاتِ عشق‘‘، جو8 اگست کے حوالے سے تھی ، بے مثال تھی، جسے پڑھ کر شال میں غم کی چادر مزید دبیز محسوس ہوئی۔
محسن شکیل صاحب کی غزل کی بات نہ کی جائے تو بڑی نا انصافی ہو جائے گی، ایک بہت حسین غزل رہی۔
چراغ جلتے رہیں گے ہوا بغور یہ سن
ہنر پہ تجھ کو ابھی دستگاہ تھوڑی ہے
واہ جی!
نوشین قمبرانی کی نظم جو انھوں نے بابا عبداللہ جان پر کہی ہے، پڑھئے اور سر دھنئے۔ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو اس نظم کا:
نہ کوئی مذہب تھا جان کا دشمن
نہ ماتمی رنگ چاندنی تھی
وہ کیا سماں تھا محبتوں کا
ہماری راہوں میں روشنی تھی!
ہماری انجیل صحیفہ نامی خوب صورت نام کی لڑکی کی’’ سستی نظم‘‘ بھی بھئی بہت ہی جاندار تھی۔
اب کوئی حادثہ ہو بھی جائے اگر تو بھی ہوتا نہیں
نظم لکھوں مگر
اب میرے شہر میں نظم لکھنے پر کوئی بھی
روتا نہیں !!
اس کے علاوہ بلال اسود کی غزل، قندیل بدر کی نظم ’’ رنگ منچ کی کٹھ پتلیاں‘‘ بھی اچھی رہیں۔
جب کہ مست توکلی کے خوب صورت روح پرور کلام کا انگریزی ترجمہ بھی فیض بلوچ صاحب بہت اچھا کر رہے ہیں۔
بلوچی کا حصہ اس بار ذرا کم ہی رہا۔ پوہ و زانت میں ایک مضمون ارجنٹینا کے معروف شاعر، ادیب لوئیس بورخیس سے متعلق تھا۔ پیٹری لیو کوئن کے مضمون کو عبید شاد نے بلوچی میں ترجمہ کیا۔ بورخیس کے فن و شخصیت پر ایک جامع مضمون، بالخصوص بلوچی پڑھنے والوں کے لیے نہایت مفید۔
اس کے علاوہ شاعری میں ماما جمالدینی پہ لطیف الملک بادینی کی نظم رواں، سادہ اور سب سے اچھی تھی۔رفیق مغیری اور مسرور شاد کی غزلیں بھی بلوچی شاعری کا حصہ رہیں۔
ارے ہاں ، ڈاکٹر منیر رئیسانی کی ایک براہوی غزل بھی شامل تھی اس بار۔ کتنا اچھا لگا انہیں براہوی میں پڑھ کر۔
سوچا،کاش برائے نام ہی سہی کوئی ایک آدھ چیز ایسی ہی پشتو میں بھی ہوتی تو یہ گلدستہ مزید مہکار دیتا ناں!!
مجموعی طور پر اس ماہ کے سنگت نے دھماکے دار پرفارمنس دی۔ مبارک باد کے ٹوکرے قبول کیجئے ایڈیٹر صاحب۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے