ابھی تم اس جگہ بیٹھے سحر کی بات کرتے تھے
نگاہوں میں اداسی کے شجر پر
صبح نو کرنیں سجاتی تھی
مبارِززندگی
چہرے کے ہر لمحے پہ لکھی تھی
گھٹن کو قہقہوں کی موج سے تحلیل کرتے تھے
حیاتِ بے ثمر کی تلخیوں کو
مسکراہٹ میں بھلاتے تھے
اندھیروں کے مقابل
اپنی سوچوں کے چراغوں کی
صفیں ترتیب دیتے تھے
ابھی تم اس جگہ بیٹھے سحرکی بات کرتے تھے
مگر خوابوں کی گھٹڑی کو اٹھا ئے
تھکن سے چور شاید ہوگئے ہو
اچانک بھول کر سارے جھمیلے
خموشی سے کہیں پر سوگئے ہو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے