سمّو دیوی۔۔۔۔!۔
بادلوں کی رتھ پر سوار
اپنی تمام بے رُخیوں کے ساتھ
کتنی پُر کشش ہے
موسموں کی یہ رنگ بدلتی پری
اس سے کہنا کہ
ہوا کو سانسوں کے زنداں میں قید مت رکھنا
جنگل کا دم گُھٹ جائے گا
سمّو دیوی
اس پری کو خبر نہ ہونے پائے
کہ ان دریاؤں کے
سوکھے ہونٹوں کی ویرانیوں میں
ٓآبِ حیات کے کتنے بھنور پڑتے ہیں
اس تشنگی کی شانِ بے نیازی کا کیا کہنا
جو قرنوں کی وفا بیچ کر
چلّو بھر پانی خریدتی ہے 2
سمّو دیوی
یہ دلکش پری شاید نہیں جانتی
کہ تمہاری خمیر ہی وفا ہے
جو اقدار کے سرچشموں سے سیراب ہوکر
پہاڑوں کو بالاچ 3 کی طرح ناقابلِ تسخیر بنا دیتی ہے
اور کبھی مست 4 بن کران پتھروں میں
محبت کی روح پھونک کر
ان سے ہمکلام ہوتی ہے
یہ جو اُڑ رہی ہیں قطار اندر قطار آسمان میں
یہ کونجیں نہیں
اسی شہید وفا کے لاشے ہیں
’’ سمّو ونڈ ‘‘ 5 کے لئے
سمّو ۔۔۔۔۔ تم جو محبوبہ ہو
وفا ہو
گُلزمین ہو
1 ۔ سمّو : بلوچ بزرگ شاعر مست توکلی کی محبوبہ۔سمّو کی محبت و بے پناہ عشق نے مست کی آنکھوں میں
دنیا کی ہر مظہر کو سمّوکی صورت بخش دی تھی۔
2۔ یہ دو مصرعے وفا ک حوالے سے ایک مشہور بلوچی محاورہ ’’ ایک کٹورے پانی کے بدلے سو سال وفا کرو‘‘ سے ماخذ ہیں ۔
3۔ بالاچ : بلوچی ادب و فکر میں مذاحمت کے سب سے بڑے شاعر و ہیرو مانے جاتے ہیں۔
4۔ مست : مست توکلی
5۔ سمّو ونڈ : ونڈ یعنی حصہ ۔مست توکلی کو جب بھی کوئی کچھ دیتا تو مست کہتا ’’ سمّو ونڈ ‘‘ یعنی سمّو کا حصہ کہاں ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے