پہلے جنگہیں ملکوں پر قبضہ اور لوٹ مار کیلئے ہوتی تھی آج کل جنگیں اسلحہ بیچنے اور معدنیات پر قبضہ کرنے کیلئے کی جاتی ہیں ۔ میں نے اپنی کتاب امریکہ عالمی دہشت گرد میں لکھا ہے کہ اسلحہ بیچنے اور افغانستان سمیت سنٹرل ایشیاء کی معدنیات قبضہ کرنے کیلئے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا ۔ معدنیات لاکھوں سالوں کے جغرافیائی پراسس( عمل ) کے بعد بنتے ہیں ، لیکن استحصالی طبقہ ختم کرنے کیلئے چند سال لگا لیتے ہیں ۔ ہمارے حکمران معدنیات کو ٹرکوں کے ذریعے لے جاتے ہیں ۔ ملٹی نیشنل یہ کام جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پائپ لائنوں کے ذریعے لے جاتے ہیں اور سالوں کا کام دنوں میں کرتے ہیں ۔ جب نوم چومسکی نے بھارت اور پاکستان آیا تواس نے تقروں میں کہا کہ امریکہ کی ریاست بڑی ظالم ریاست ہے میں نے سالار میں یہ لکھا کہ امریکی حکومت کیظلم کا اب تو بچوں کو بھی پتا ہے اصل مسئلہ تو یہ تھا وہ ہمیں یہ بتاتا کہ یہاں کے قوموں کے ساتھ کون سے معدنیا ت ہے اور وہ انہیں ملٹی نیشنل وہ دوسروں سے کیسے بچا سکتے ہیں۔
قوم پرست کئی دفعہ اقتدار میں آئے اور بعض دفعہ مخلوط حکومت میں شامل رہے معدنیات کا قانون صوبائی قانون ہے اوراس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ان کی خاموشی راضا کاری ہے کہ یہ لوٹ مار جاری رہے ۔ ریکوڈک اور سیندک و دیگر سونا چاندی کے ذخائر ملٹی نیشنل لے جائیں گے ۔ گیس کوئلہ ،برائٹ ، پی پی ایل یعنی وفاقی حکومت لے جارہی ہے ۔ اور باقی معدنیات زیادہ تر انجنبی لوگوں کو الاٹ کئے گئے ہیں ، جن کا اس علاقے سے کسی قسم کا واسطہ نہ تھا ۔ اور مقامی لوگ دیکھتے ہی رہ گئے ، اور مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ ذہنی اذیت سے گزرتے رہے کسی نے وہاں پر ایک سکول کو عام سا سامان بھی نہ دیا ۔ بلکہ حکومتی وسائل واٹر سپلائی و دیگر ایسے کاموں پر خرچ کئے جو کہ انہیں خود کرنے چاہئیں تھے ۔ اس سارے معدنیات سے چار پانچ سو کے قریب مائنز مالکان چند لیبر ڈپارٹمنٹ ،محکمہ معدنیات اولڈ ایج بینفٹ ، مائنز انسپیکٹریٹ اور حکومتی کمپنیوں کے افسران ضرور کروڑ پتی بنے ہیں ۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ معدنیات کو ایک ٹرک میں چالیس تا پینتالیس ٹن ڈال کے لے جاتے تھے ، اور رائلٹی (ٹیکس) بچانے کیلئے پینتیس ٹن ظاہر کرتے تھے ۔ اور پینتالیس ٹن کی وجہ سے سنگل و ڈبل روڈ مسلسل ٹوٹتے رہے اور زیادہ تر پیسہ ان سڑکوں کی مرمت پر خرچ ہوتا رہا ۔ سامراجی پالیسی ہوتی ہے کہ ایک طرف وسائل لوٹو اور دوسری طرف وہاں کے وسائل کو ضائع کرو اورسڑک بھی ان علاقوں میں بنائے گئے تاکہ معدنیات کو دوسرے صوبوں تک آسانی سے لے جایا جاسکے ۔ اور جہاں عام آبادی کا تعلق تھا وہاں یہ سڑک پچاس سال تک نہ بنا ۔ نانا صاحب زیارت تا کوہلو جرنیلی سٹرک ہے ، لیکن اس سڑک کو پختہ نہ کیا گیا ۔ اسی علاقے میں روڈ مائنز کے دھماکے ہوتے رہے اور کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں ۔ دوسری طرف چمالنگ تا میختر سو کلو میٹر روڈ پانچ مہینے میں بنا لیا تاکہ چمالنگ کے کوئلے کو آسانی سے لے جایا جاسکے ۔ اور دوسری طرف کوہلو تا سبی روڈ طویل مزاحمت کے باوجود روڈ بنا لیا گیا ۔ اوریہ روڈ بھی معدنیات کے نکالنے کیلئے بنایا گیا کیونکہ حالیہ دنوں میں سیٹلائٹ کے ذریعے یہ معلومات ہوئی ہیں کہ کوہلو میں بڑے ذخائز شیل پیٹرول کے ہیں ۔ شیل پیٹرول ٹھوس پتھر کی طرح معدنیات ہے جس کا ایک کلو بیس ہزار پیٹرول لیٹر سے زیادہ طاقت ور ہے ۔ بلوچستان میں اکثر قبائلی جھگڑوں کی وجہ بھی مائنز ہے صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کے درمیان تنازعہ یہی معدنیات ہیں جسے 2002 میں پرانے مائنز کے قانون کو منسوخ کرکے بلوچستان منرل رولز 2002 کا قانون بنایا گیا اور یہ قانون بھی بین الاقوامی اور ملکی ضرورتوں کے مطابق بنایا گیا اور اس میں صرف لوکل پارٹیسیپیشن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے باوجود آئل اور گیس کو بلوچستان کے حوالے نہ کیا گیا بلکہ بڑے پیمانے پر بلوچستان میں وفاقی حکومت خود ہی مائننگ کررہی ہے۔ جس کی تفصیل نیچے درج ہے۔حکومت پاکستان کی معدنیات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے اس لئے انہوں نے نیشنل منرل پالیسی 2013 بنائی اس کے علاوہ آج کوئی بھی ایسی معدنیات نہیں جہاں ایف سی تعینات نہ ہو اور حکومت پاکستان نے ضلع چاغی کو اسٹراٹیجک ایسٹس ڈکلیئر کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے سالوں میں حکومت پاکستان خارجہ اور دفاع، داخلہ کی طرح منسٹری آف پیٹرولیم کو بھی فوج کے حوالے کرے گی کیونکہ پاکستان کی فوج پہلے ہی ہاؤسنگ کنسٹرکشن، بینک کھاد اور دیگر کارخانوں ، ایجوکیشن میں کافی حدتک سرمایہ کاری کرچکی ہے۔ لہٰذا وہ مستقبل میں مائننگ میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بین الاقوامی مائننگ کمپنیوں کی آنکھیں بھی بلوچستان، افغانستان، خیبر پختون خواہ، فاٹا اور گلگت بلتستان کے معدنیات پر ہیں اس وقت تک چائنیز افغانستان، بلوچستان، گلگت بلتستان، فاٹا اور خیبر پختون خواہ میں کئی مائننگ کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ کئی نئے مائننگ کاروباری حضرات کے پیچھے یا ان کمپنیوں میں حصے چائنیز لوگوں کے ہیں جبکہ امریکہ اور مغربی کمپنیاں آئل اور گیس یا سونا تانمبہ کی معدنیات میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ چائنیز سونا، تانمبہ، سنگیمرمر دیگر معدنیات، جیولری اور ڈیکوریشن کے پتھروں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس بھتی گنگا میں بہت سے لوگوں نے اپنے ہاتھ دھوئے اور دنیا کا امیر ترین صوبہ پینے کے پانی تک سے محروم ہے۔
بلوچستان میں جیالوجیکل سروے کے مطابق پانچ بڑے معدنیات کے ذون ہیں۔
سارا بلوچستان معدنیات سے مالا مال ہے لیکن سب سے زیادہ معدنیات چاغی میں ہیں۔ چاغی میں کاپر اور گولڈ کے علاوہ یورینیئم اور پلاٹینیئم کے بھی بڑے ذخائر ہیں۔ یورینیئم بولان کے علاوہ بلوچستان کے دیگر چند اضلاع میں بھی پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں سب سے اہم مہنگی معدنیات یورینیئم، پلاٹینیئم ، گولڈ ، کاپر اور گیس اور پیٹرول ہیں۔ جب کہ عالمی منڈی میں گیس کی قیمتیں انتہائی تیزی سے گر رہی ہیں۔
اس وقت بلوچستان میں حکومت پاکستان مندرجہ ذیل مائننگ کررہی ہے۔
الف۔ زین کو ب۔ ٹوبو پ۔ سوئی ج۔ کْپ
چ۔ ڈیرہ بگٹی د۔ پیرکو ر۔ زرغون
زرغون سے ماری گیس کمپنی نے گیس تلاش اور پیدا وار شروع کرکے نیشنل پائپ لائن کے ساتھ منسلک کردی اور اس کے علاوہ جہاندران بارکھان میں بھی گیس تلاش اور کھدائی مکمل کی اور بارکھان کے ہی علاقے بغاؤ میں کھدائی جاری ہے۔ کاکڑ خراسان اور موسیٰ خیل میں بھی کھدائی کا کام مکمل کیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ پیٹرول اور گیس کے ضلع کوہلو میں بڑے ذخائر ہیں ابھی تک جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے مکمل سروے نہیں کیا۔ یہ وفاقی حکومت کا واحد محکمہ ہے جس کا ہیڈ کوارٹر کوئٹہ میں ہے۔
الف۔ سونا اور تانبا
ب۔ ریکوڈک
دنیاکے پانچ بڑے ذخائر میں سے پانچواں ذخیرہ ہے جس پر تاحال کام جاری نہیں ہے کیونکہ اس کا تنازعہ عدالت میں چل رہا ہے۔
سیندک کی گراس ویلو 18بلین ڈالر اور ریکوڈک کے 500بلین ڈالر ہے سیندک میں 50فیصد حکومت چائنا اور 50فیصد حکومت پاکستان
حکومت پاکستان 50 فیصد حصے میں سے 30 فیصد بلوچستان حکومت کو دے رہی ہے اور 20 فیصد انکم ٹیکس اور مشینری کی قیمت میں کٹوتی کررہی ہے۔
بولان مائننگ خضدار میں بیرائٹ نکال رہا ہے جس میں حکومت بلوچستان (بی ڈی اے ) اور پی پی ایل کا مشترکہ پراجیکٹ ہے جس میں 50 فیصد بلوچستان حکومت کا ہے۔ بیرائٹ کے علاوہ دیگر معدنیات پر بھی کام جاری ہے۔
پی ایم ڈی سی سورنج ڈیگاری اور ہرنائی میں کوئلہ نکال رہا ہے۔ یہ تمام پراجیکٹ اور ادارے حکومت پاکستان کے محکمہ وزارتِ نیچرل ریسورسز کے ماتحت ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کوئلہ نکلتا ہے حکومت پاکستان ایک ٹن پر 425 روپے سیل ٹیکس فیڈرل بورڈ ریونیو لے رہا ہے جس میں حکومت بلوچستان کو 70 روپے ایک ٹن پر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں اہم معدنیات ہیں ان کی تفصیل ایسے ہے۔
جب سماج ترقی کرتا ہے تو نئے طبقات وجود میں آتے ہیں اور پرانے طبقے کم ہوجاتے ہیں یا کمزور ہوتے ہیں یا مٹ جاتے ہیں اسی طرح وقت کی رفتار نے بلوچستان میں بھی نئے طبقات داخل کیے ان نئے طبقات میں ٹرانسپورٹر، کنسٹرکشن کمپنیاں، صنعت کار، ہوٹل مالکان، پراپرٹی ڈیلر، تاجر،اخباری صنعت اور مائن اونرز ہیں۔ ان میں سب سے طاقور طبقہ مائن اونرز ہیں اس لئے بلوچستان کے چند نواب اور کئی سردار اس وقت مائن اونرز ہیں۔ سابقہ جنرل اور سابقہ بریگیڈیر بھی مائن اونر ہیں سابقہ سپریم کورٹ کے جج اور ہائی کورٹ کے جج بھی مائن اونر ہیں چند صوبائی وزرا اعلیٰ اور صوبائی وزیر ، چند ایم این اے اور سنیٹر، چند فیڈرل منسٹرمائن اونرز اور سابقہ چیف سیکریٹری اور کئی سیکریٹریز اور بیروکیٹس مائنز اونر ہیں ان سب کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔ فہرست میں حادثات کی تفصیل دی گئی ہے ۔ نہ صرف پرائیویٹ بلکہ حکومت پاکستان کے مائنز میں بھی میجر حادثات ہوئے ہیں 2011 میں پی ایم ڈی سی سورنج میں 43 لوگ فوت ہوئے تھے کسی بھی مائن اونر کو سزا نہ ہوئی انہیں معمولی جرمانہ کیا جاتا ہے ویسے تو عدالت کہتی ہے کہ فوجداری جرائم میں پولیس اپنے کیس کو ثابت نہیں کرستکی اس لئے عدالتیں انہیں بری کرتی ہیں لیکن مائنز میں چیف انسپکٹر مائنز جوکہ حکومت کا ہی محکمہ ہے مائنز قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں کمپلینٹ کرتا ہے اور لیبر کورٹ سماعت کرتی ہے ان تمام مقدمات میں مائنز اونر آکر اپنے جرم کو تسلیم کرتے ہیں اور بعض دفعہ دوسری اور تیسری جرم کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور انہیں جرمانہ کرکے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مائنز اونر مقدمات میں پیش نہیں ہوتے بلکہ ان کے منیجر پیش ہوتے ہیں
کوئلہ انگریز کے وقت سے یہاں سے نکالنا شروع کیا گیا مچھ ، مارواڑ ، ڈیگار، سورنج ، ہرنائی زردآلو ، کوسٹ ، شاہ رگ ، دکی ، چمالانگ ، وارے زئی اور نوشام جو کہ ضلع بارکھان میں ہے۔ اس میں حکومت مائنز کا کام شروع کرنا چاہتی ہے۔ اور چمالانگ سے نوشام میں ذخائر زیادہ ہیں اور یہ مری قوم کی ملکیت ہے۔ نوشام میں مائنز کے کام کرنے کے بعد نئی صورتحال جنم لے گی۔ سنگ مرمر چاغی ، لورالائی ،خضدار، کروم ، مسلم باغ اور کوارڈز چاغی سے نکالا جارہا ہے ، کوئلے کی طرح کروم بھی انگریز کے وقت سے مسلم باغ سے نکالا جارہا ہے۔ دیگر معدنیات بلوچستان کے مختلف علاقوں سے نکالے جارہے ہیں۔ بڑی معدنیات جیسے گیس ، سونا تانبا(ریکوڈک اور سیندک) ، کوئلہ (سورنج ، ڈیگاری ، شاہ رگ ہرنائی ) پی ایم ڈی سی برائٹ ( خضدار سے ) پی پی ایل نکال رہی ہے اس کے علاوہ مرکزی حکومت کوئلے پر چار سو پچیس روپے پر ٹن سیل ٹیکس لیتی ہے اور فی ٹرک 300 روپے ایف سی والے لیتے ہیں۔ روزانہ گیس کے علاوہ ہزار سے بارہ سو ٹرک معدنیات دوسرے صوبے جاتی ہیں۔ 2012ء سے 2016ء تک جرمانوں میں 5 ، 10 ،15 ، اور 20 ہزار تک خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ کیا گیا ہے۔ یہ جرمانہ بھی 2012ء میں مائنز ایکٹ میں ترمیم کے بعد کئے گئے ہیں۔ورنہ اس سے پہلے یہ جرمانے بھی بہت کم نویت کے تھے۔ جو مزدور زیر زمین کام کرتے ہیں ان کو سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کی بیماری ہوتی ہے اور اس کے علاوہ ان کے آنکھوں کی بینائی اور سننے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ پیچش ، ٹی بی ، یرقان اور سانس کی بیماریاں بھی تقریباً اندر باہر کام کرنے والے مزدوروں کا عام مسئلہ ہے۔ میں اتنا کہتا ہوں کہ سوات سے ایک صحت مند انسان ان مائنز میں کام کرنے آتا ہے اور جاتے ہوئے ایک پورا ہسپتال ہوتا ہے۔ یعنی جتنی بیماریاں ہسپتال میں ہوتی ہیں اس کی آدھی بیماریاں اس مزدور کو لاحق ہوتی ہیں۔ کینسر کے بھی کافی وجوہات ان گرد آلود ہوا ہیں۔ مائنز ایریا میں ماسوائے واریزئی باقی جگہ ڈسپنسریاں اور ہسپتال ہیں۔ لیکن دوائیوں اور عملے کی موجودگی اسی طرح ہے جیسے دوسرے سرکاری ہسپتال۔میرے خیال میں علاج سے پہلے ان حفاظتی اقدامات پر ضرور عمل در آمد ہونا چاہئے جو مائنز ایکٹ 1923ء میں درج ہیں۔ پہلے تو مائنز میں کام کے دورانیہ پر عمل در آمد ہونا چاہئے مائنز ایکٹ کے چیپٹر 6 میں درج ہے۔ ہفتہ وار چھٹی ، اس کے علاوہ چیپٹر 6۔اے میں سالانہ تہواری چھٹیاں حقی چھٹیاں ان پر سختی سے عمل در آمد ہونا چاہئے۔ ان دو سیکشنوں میں عمر کی حد ہے اور یومیہ کام کے جو گھنٹے درج ہیں اس سے زیادہ کام مزدور کو نہیں کرنا چاہئے مزدور دوران کام آرام بھی نہیں کرتا اور دوران چھٹی بھی کام کرتا ہے اس لئے اس کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کینٹین شیلٹر فسٹ ایڈ اور لیٹرینیں مائنز ایکٹ کے تحت ہونی چاہئے تاکہ وہ بیماریوں سے بچ سکیں۔ سیفٹی کے تحت انہیں عینک بوٹ اور ہیلمٹس اور دستانے دوران کام ملنے چاہئے۔ کوئلے کے مزدور وں کو ماہوار تنخواہ نہیں دی جاتی اسے کنٹریکٹ پر ملازم رکھا جاتا ہے اور وہ بھی پیس ریٹ ورکر ہوتا ہے۔ یعنی اسے فی فٹ کھدائی اور نکالنے کا معاوضہ ٹھیکے پر دیا جاتا ہے اور معاوضہ بہت کم ہوتا ہے۔ اس لئے یہ مزدور مسلسل کام کرتا ہے اور تہواری چھٹیوں کے دوران بھی کام کرتا ہے۔ اس لئے اس کی صحت متاثر ہوتی ہے اور کام سے پہلے اس کا مکمل ٹیسٹ ہونا چاہئے تاکہ سنگین بیمار میں مبتلا مزدور کو کام کی اجازت نہ دی جائے۔ اگر کوئلہ بہت نکلے تو بھی مزدور کیلئے مصیبت اور اگر کوئلہ نہ ہو تو بھی مزدور کیلئے مصیبت ، ایک ناول میں لکھا تھاکہ ایک سخت سردی کی رات میں کول مزدور کا بچہ سردی سے ٹھٹر رہا تھا تو اس نے اپنی ماں سے پوچھا کہ ماں آپ آگ کیوں نہیں جلاتی؟ وہ بولی بیٹا کوئلہ بہت ہوگیا ہے۔ بچے نے کہا جب کوئلہ بہت ہوا ہے پھر تو آگ جلاؤں۔ ماں بولی جب کوئلہ بہت ہوا تو آپ کے باپ کو بے روز گار ہونا پڑا اب کوئلہ تو ہے اس کی تنخوا نہیں تومیں کوئلہ کیسے خریدوں۔ بلوچستان میں اس وقت سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں 1250 تک کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ حج و عمرہ کمپیاں ہیں جن کی تعداد 420 ہیں اور اس کے علاوہ ٹورازم کی ہیں یہ 124 کمپنیاں ہیں۔ منرل مائننگ کی 18 کمپنیاں ، اس کے علاوہ مائننگ کی 55 کمپنیاں ہیں۔ ایکسپورٹ امپورٹ کی 39 کمپنیاں ہیں ، مسیلینس 46 کمپنیاں ہیں ، ٹریننگ و سروسز کی 68 کمپنیاں ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹی کمپنیاں بے تحاشہ رجسٹرار انڈسٹریز حکومت بلوچستان کے ساتھ بھی رجسٹرڈ ہیں۔مائننگ کی کمپنیاں ایسی بھی ہیں جو بغیر رجسٹریشن کے اسٹام پیپر پر معاہدہ کرکے اپنا کام کرتے اور اپنا نام رکھ لیتے ہیں۔ میں یہاں پر سمال اسکیل مائننگ کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا مائننگ لیز کا دورانیہ 10 تا 30 سال ہوتا ہیاور ای ایل (Exploration License) میں ای۔ ایل جو تین سال کے جاری کیا جاتا ہے یہ پہلے آر۔ ایل 1000 سکوائر کلومیٹر ہوتا ہے۔ اس کے بعد 500 سکوائر کلومیٹر پھر رینیول کے بعد 250 سکوائر کلومیٹر پھر ایک 125 سکوائر کلومیٹر کا رینیول ہوتا ہے بلوچستان میں 114 کمپنیوں کو ای۔ ایل لائسنز جاری ہوا تھا جن میں اب صرف 13 لائسنز رہ گئے ہیں۔ ان میں بھی کچھ کینسل ہونے والے ہیں۔ ریکوڈک کے کیس کے بعد ان کو مائننگ لیز جاری کرنا ایک مشکل کام ہے کیونکہ ریکوڈک جس کا ریسرچ ایک لاکھ صفحوں پر ہے اور اس نے بے تحاشا رقم خرچ کی اور بہت زیادہ ان کے ملازم تھے اور عرصہ دراز تک یہ کمپنی کام کرتی رہی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بین الاقوامی عدالت میں اس کا کیس چل رہا ہے جس میں حکومت بلوچستان اپنے مقدمے کا دفاع کر
رہی ہے تو پھر وہ دوسری کمپنیوں کی لائسنز کیسے دوبارہ جاری کرے گی۔ جبکہ ان کا ریسرچ ورک ملازمین کی تعداد اور سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے ویسے بھی ای۔ ایل جاری کرنے میں حکومت بلوچستان کو کوئی خاص نقصان نہ ہوتا تھا دس لاکھ سیکورٹی کے مد میں اور پچھتر لاکھ روپے فیس کے مد میں یعنی سالانہ پچیس لاکھ روپے ادا کرنا پڑتا تھا اور یہ بھی ریسرچ کا لائسنز تھا۔ اس لئے اس سلسلے میں حکومت بلوچستان مشکلات میں پڑگئی ہے۔ بلوچستان کی مائننگ کے سلسلے میں پچھلی حکومت کے بھی اہم ریاستی شخصیت کا نمائندہ مسلسل دورے کرتا رہا تاکہ کوئی بڑی مائننگ لیز الاٹ کرالے اور وہ بھی ریکوڈک کے ساتھ۔ حالیہ دنوں میں بھی بلوچستان کے ہی ایک اہم سیاسی شخصیت حکومت پاکستان کے ایک اہم سیاسی شخصیت کے ساتھ اسی سلسلے میں ڈائریکٹر معدنیات کے چکر اور ای۔ ایل کے چکر میں بلوچستان کے دورے کرتا رہا ہے۔ اس گورک دھندے میں بہت سے لوگ شریک رہے ہیں۔موجودہ وقت میں بلوچستان میں مندرجہ ذیل لارج اسکیل یا مائننگ لیز ہیں جن کی تفصیل اس طرح ہے۔ (الف)اونیکس آرڈنری ماربل(لارج سکیل) 661
(ب)کوئلہ(سمال سکیل) 615
(ج)آئرن 122 (د) کرومائٹ و دیگر معدنیات 290 مائننگ لیز ہیں۔ (ج) ای ایل 13
سوشل سیکورٹی کے علاوہ تمام لیبر قوانین کا اطلاق مائنز لیبر پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن متعلقہ قانون مائنز ایکٹ 1923ء4 جس میں حکومت بلوچستان نے اٹھارویں ترمیم کے بعد 2012ء4 میں جرمانہ بڑھانے اور 5 روپے پر ٹن ٹیکس لیا جاتا ہے تاکہ اس 5 روپے سے وہ ریسکیو کی ٹریننگ اور آلات خرید سکیں۔ مزدوروں کو جرمانہ بڑھانے پر اعتراض ہے۔ وہ کہتے ہیں اس سے حادثات کم نہ ہونگے اور نہ ہی مزدوروں کو فائدہ ہے بلکہ انسپیکٹریٹ آف مائنز اور عدلیہ کی بلیک میلنگ بڑھ جائے گی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مائنز ایکٹ کے سیکشن 10 کے تحت مائننگ بورڈ کو متحرک کیا جائے اس کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے اور انکوائری کے اختیارات بھی اسے دیئے جائے۔ چند قابل عمل تجاویز ہیں ویسے تو مائنز ایکٹ 1923ء4 میں بنایا گیا آج تک اسے ایک مکمل قانون سمجھا جاتا ہے۔ مسئلہ عمل در آمد کا ہے۔ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ کے تحت مزدور اپنی یونین بنا سکتے ہیں چارٹر آف ڈیمانڈ دے سکتے ہیں اور قانون کے مطابق ہڑتال کر سکتے ہیں اور اولڈ ایج بینفٹ کے تحت بڑھاپے الاؤنس کے لئے رجسٹرڈ ہوسکتے ہیں اور اسٹینڈنگ آرڈر کے تحت گریجویٹی کے حقدار ہیں اور حادثے و فوتگی کی صورت میں معاوضہ کے حقدار ہیں۔ اس کے علاوہ چھٹیوں کے اور اور ٹائم کے بھی حق دار ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 3 کے تحت استحصال کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ آرٹیکل گیارہ کے تحت غلامی و بیگار کی ممانعت ہے 15 کے تحت نقل و حرکت کی آزادی 16 کے تحت اجتماع کی آزادی 17 کے تحت انجمن سازی کی آزادی 18 کے تحت پیشے کی آزادی 19 کے تحت تقریر و تحریر کی آزادی اور آرٹیکل 4 کے تحت ان کا حق ان کے ساتھ قانون کے مطابق برتاو کیا جائے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے چارٹر کے شق 3 کے تحت آزادی کا تحفظ حاصل ہے 4 کے تحت بیگار اور غلامی کی ممانعت ہے۔ شق 13 کے تحت اسے ریاست کے اندر نقل و عمل کی اجازت ہے۔ اور 19 کے تحت اظہار آزادی کا حق ہے 20 کے تحت پر امن اجتماع اور انجمنیں قائم کرنے کا حق ہے۔ شق نمبر 22 کے تحت کام کے نویت کے مطابق معاوضے کا حقدار ہے۔ اور شق 24 کے تحت کام کے وقت کا تعین اور تنخوا کے ساتھ مکرر وقفوں اور وقتوں پر چھٹیوں کا حقدار ہے دیگر انسانی حقوق و ایک شہری کے حقوق بھی اسے حاصل ہیں جیسے کہ سیاسی پارٹی بنا ناووٹ ڈالنا قومیت رکھنا و دیگر لیکن مسئلہ یہ ہے عمل درآمد کتنے باتوں پر ہوتا ہے اصل مسئلہ یہی ہے۔ سیندک چار ارب کا پراجیکٹ تھا سولہ ارب پر مکمل ہوا۔ اور جب ابتدائی پروڈکشن دیا مزید ایک ارب کی ضرورت تھی۔ حکومت ایک ارب دینے کیلئے تیار نہیں تھی۔ اور بلآخر 2001 ء4 کو اس کے نجکاری کے آرڈر ہوئے یونین نے اسے چیلنج کیا اور ہائی کورٹ و تمام عدالتوں میں تحریری طور پر ہم نے یہ واقعات لکھ دیئے کہ خسارے میں تو واپڈا ریلوے اور پی آئی اے بھی ہے اور ان کے ایک ایک لاکھ ملازم ملک پر بوجھ نہیں تو سیندک کے ایک ہزار ملازم کس طرح بوجھ ہیں۔ دوسرا حکومت سے استدعا کی گئی کہ جس طرح مرکزی حکومت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے منسٹری آف نیچرل ریسورسز کے کچھ پراجیکٹ بند کئے تو ان کے ملازمین کو وفاقی حکومت کے دوسرے محکموں میں تعینات کیا گیا۔ اس لئے یہ گزارش کی گئی کہ ان ملازمین کو بھی مرکز کے دوسرے اداروں میں تعینات کیا جائے اور پہلے ہی مرکز میں بلوچستان کے تین فیصد کوٹہ کے تحت پوسٹیں خالی ہیں۔ انہیں یہ تجویز بھی منظور نہیں تھی ، یونین کے درخواست میں مزید لکھا گیا کہ موٹر وے کیلئے 80 ارب لاہور رنگ روڈ کیلئے 10 ارب اور لاہور کے ایئر پورٹ کیلئے 10 ارب روپے ہیں اور سیندک کیلئے ایک ارب نہیں۔ بلآخر سیندک کو پرائیویٹ کیاگیا۔ اصل میں مرکزی حکومت ریسورسز ڈیولپمنٹ کارپوریشن کو ختم کرنا چاہتی تھی جس میں ملازمین کی اکثریت بلوچستان کی تھی جن میں بڑے قابل اور کوالیفائیڈ افراد مائننگ ، جیالوجی ، الیکٹرک اور انتظامی امور میں موجود تھے۔ ورنہ تو پاکستان میں ریسورسز ڈیولپمنٹ تو مکمل نہ ہوئے۔ ایک طرف انہوں نے سیندک کو پرائیویٹ کیااور دوسری طرف ان ملازمین سے جان چھڑا لی کہ مستقبل میں نیچرل ریسورسز کے محکمے کو قبضہ نہ کر لیں۔ اور اسی لئے سیندک پر اب حکومت پاکستان 27 ارب کے خرچ کا تخمینہ لگائے بیھٹی ہے اور اسے حکومت بلوچستان سے وصول کرنا چاہتی ہے جو کہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ سیندک کا خورد برد کا مقدمہ نیب میں نہ تو زندہ ہوتا ہے اور نہ ہی مردہ۔ مشینری خریدنے اور دیگر تمام اخراجات خود وفاقی حکومت نے کیے جس میں بلوچستان کے ملازمین کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔
18 ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کو دوسرے چند وفاقی محکموں کے ساتھ ریکوڈک ، سیندک ، سوئی گیس ، سوئی سدرن ، پی ایم ڈی سی ، بولان مائننگ کے محکمے بمعہ اثاثہ جات صوبے کے حوالے کرنے ہیں۔ اور 2010ء4 میں 18 ویں ترمیم آئی لیکن تاہم ابھی تک اس پر عمل در آمد نہ ہوا۔اس سال اکتوبر کو اسلام آباد میں اس سلسلے میں ایک اجلاس ہوا۔ وفاقی وزیر خاقان عباسی نے اجلاس کو یہ کہہ کر ملتوی کردیا کہ میں بلوچستان اور سندھ کا دورہ کرنے کے بعد اجلاس بلاؤں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی ترقیاتی کام تو نہیں ہے کہ خاقان عباسی اس کو دیکھ کر فنڈ جاری کرے۔ وفاقی حکومت اس معاملے کو طول دینے کیلئے 18 ویں ترمیم کی تشریح و آئین کے آرٹیکل 173 کی تشریح۔ اور اس کیلئے ایک آئینی ماہر کو تعینات کرے گی اور پھر اس کی رائے کے بعد ایک نیا تنازعہ شروع ہوگا اور اسی طرح 10 سال پھر عدالتوں میں پڑا رہے گا۔ اور جونہی 18 ویں ترمیم آئی اس کے بعد وفاقی حکومت کو معدنیات پر سیل ٹیکس کا خیال آیا اور 425 روپے ٹیکس فی ٹن لگا رہے ہیں حتیٰ کہ وفاقی حکومت کیلئے 25 روپے سلیز ٹیکس کافی ہے۔ وفاقی حکومت تمام معدنیات پر سیل ٹیکس لگا کے صوبائی حکومتوں کو واپس مرکز کا محتاج کرنا چاہتی ہے۔
ماحولیات کا مسئلہ اس وقت عالمی مسئلہ ہے۔ کوئٹہ شہر کوپہلے ہی دنیا کے چندآلودہ شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 2000ء4 میں بلوچستان شدید خشک سالی کا شکار ہوا جس نے بچے کچے جنگلات اور باغات کو ختم کیا۔ اس کے بعد لوگ باغات کی بجائے سبزیاں کاشت کرتے ہیں۔ بلوچستان کا موسم انتہائی خشک ہے ، زیر زمین پانی کی سطح گر رہی ہے اور سولر ٹیکنالوجی کے آنے کی وجہ سے پانی کی سطح مزید گر جائے گی۔ پانی ، گیس اور معدنیات کے مسلسل نکالنے سے زمین خشک ہوتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے زمین کے پھٹنے کا خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ روزانہ ایک ہزار سے زیادہ ٹرک ان معدنیات کو جب لے جاتے ہیں ٹرکوں پر کپٹرا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے معدنیات کے زرات ہوا میں اْڑتے رہے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کو بھی بیماریوں کا خدشہ ہوتا ہے۔ زمین میں اتنے گہرے کھڈے پڑ چکے ہیں کچھ مائنز کی کھدائی تو لمبائی کلو میٹرسے بھی زیادہ ہے۔ اور عالمی ماحولیاتی اثرات اس کے علاوہ ہیں حالیہ سالوں میں ہرنائی اور زیارت کے زلزلے کہی جگہوں پر پہاڑوں میں اچانک دھماکہ ایک خطرناک صورت کی نشاندہی کررہے ہیں۔ویسے بلوچستان میں ڈیم بنان کوئی مشکل کام نہ ہے۔ چاروں طرف پہاڑ ہیں حکومت کو صرف گیٹ لگانا ہے۔ہزاروں ڈیم بن سکتے ہیں لیکن حکومت یہ کام کرنے کو تیار نہ ہے۔
۔ جب پیپلز پارٹی نے انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2002 کو منسوخ کرکے انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2008 جاری کیااور اس میں لکھا یہ قانون 30 اپریل 2010 تک لاگو رہے گااور پہلی دفعہ قانون میں مخصوص وقت لکھا گیا 30 اپریل 2010 کے بعد نیا تنازع کھڑا ہوا اور ہائی کورٹ لاہور ، ہائی کورٹ کراچی اور نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن نے متضاد فیصلے دئے بلآخر سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ18 ویں ترمیم کے تحت نئی قانون سازی کی جائے اور حکومت بلوچستان نے صنعتی تعلقات 2010پنجاب کے قانون کی نقل کی اور غلطیوں سے بھرا ہوا ایک متنازع قانون دیا اور حکومت پاکستان نے صنعتی تعلقات کا قانون 2012 جاری کیا جس میں ایک نیا لفظTrans provincial لکھا کہ ایسے ادارے جو 2 صوبوں میں کام کرتے ہیں ان پر وفاقی قانون لاگو ہوگا اور اس قانون کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا بلوچستان ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ قانون درست ہے اور وفاقی حکومت کو آرٹیکل 142۔141 کے تحت نہ صرف قانون سازی کا حق ہے بلکہ جب ایک مسئلے پر دو قوانین موجود ہوں تو آرٹیکل143 کے تحت مرکزی قانون صوبائی قانون پر غالب رہے گا۔ اب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں چار سال سے پڑا ہوا ہییہ آرٹیکل تو 18ویں ترمیم سے پہلے موجو دتھے اور 18ویں ترمیم کے بعد لیبر معاملات صوبوں کے معاملات ہیں اور لفظ Trans Provincial کی وجہ سے اکثر ادارے اور کارخانوں کا برانچ آفس دوسرے صوبوں میں ہیاور بلوچستان حکومت نہ تو ان اداروں سے ویلفیئر فنڈ لے سکتی ہے اور نہ ہی ان اداروں پر صوبائی قانون لاگو ہوگا۔ بلوچستان حکومت نے اس مقدمے میں کوئی دلچسپی نہ لی اس کے بعد صوبائی حکومت نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی طرف سے صوبائی قوانین سازی کیلئے ایک کنسلٹنٹ مقرر کیا اور ایک کنسلٹنٹ کیلئے پورا مشاورتی اجلاس کراچی میں بلایا اور بلوچستان کے سارے متعلقہ لوگ بمعہ چار صوبائی ایم پی اے کے 30 سے زیادہ افرادجن میں 15 کے قریب افسیران کراچی گئے کنسلٹنٹ پر کافی اعتراضات کیے گئے جب لیبر قوانین کے مسودے پر بحث ہوئی تو ایک اعتراض تو یہ کیا گیا کہ شرکاء4 کو مسووے کی کاپیاں پہلے دینی چاہئے تھی تاکہ تیاری کرسکتے۔ میں نے اس کے علاوہ یہ اعتراض اٹھایا کہ قوانین سے پہلے لیبر پالیسی ہونی چاہئے تھی اور پھر قوانین بنانے چاہئے تھے اور پھر حکومت نے اس سال لیبر پالیسی جاری کی اور وہ بھی بغیر کسی بحث کے پاکستان مائنز لیبر فیڈرشن کی طرف سے ہم نے دو مقدمات بلوچستان ہائی کورٹ میں مائنز لیبر کے داخل کئے ایک آئینی درخواست میں یہ استدعا کی گئی کہ 2011ء4 میں پی ایم ڈی سی میں حادثہ ہوا جس میں 43 افراد مارے گئے ہیں ، اور اس سلسلے میں ایک کمیشن بنایا اور اس نے اپنی رپورٹ حکومت بلوچستان کو دی جس میں استدعا کی گئی کہ حکومت کو ہدایت کی جائے کہ وہ رپورٹ شائع کریں۔ اور دوسری آئینی درخواست میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ حادثات کی صورت میں فوت شدہ اشخاص کا معاوضہ ان کے ورثاء4 کو دیا جائے ، اور مائن ورکرز کے بچوں کے وظیفوں اور دیگر فلاحی کام کے سلسلے میں جو درخواستیں پڑی ہیں محکمہ ورکر ویلفیر بورڈ کو ہدایت جاری کی جائے کہ ان کو نمٹائے ان آئینی درخواستوں میں صوبائی اور مرکزی حکومتیں پارٹیاں ہیں تاحال ایک سال سے زیادہ ہوا انہوں جواب نہیں دیا۔ اور یہ مفاد عامہ کی درخواستیں ہیں جن کی سماعت روزانہ کے بنیاد پر ہونے چاہئے۔ ہائی کورٹ اور حکومت کی سنجیدگی دیکھیں ایک سال تک جواب نہیں آیا۔ اس کے علاوہ بھی مفاد عامہ کی درخواستیں ہیں جو آخر کار بے مقصد ہوجاتی ہیں کیسکو میں سی بی اے یونین کے نمائندے کیسکو کے بورڈ کو چیلنج کیا کہ یہ غیر قانونی ہے۔ اس کا فیصلہ تین سال میں نہ ہوا حکومت نے نیا بورڈ تشکیل دیا اس کے بھی تین سال پورے ہونے والے ہیں ، لحاظہ یہ دونوں درخواستیں بے مقصد ہوگئے ہیں۔ اس طرح پروموشن کے بھی کئی مقدمات وقت پر فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے غیر موثر ہو گئے۔
(الف)سوئی گیس۔ (ب)سوئی سدرن۔ (ج) پی ایم ڈی سی۔ (د) بولان مائننگ (ہ) سیندک
اس وقت ان اداروں میں کم از کم بلوچستان کے 5000 ملازم ہیں۔ سیندک میں منیجر کیڈر کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو پوسٹوں پر بھی بلوچستان کے لوگ تعینات ہیں جبکہ باقی اداروں میں صرف مزدور اور کارکن ہی تعینات ہیں اور سوئی گیس میں چند پوسٹوں پر بلوچستان کے لوگ منیجر کیڈر میں ہیں لیکن ایگزیکٹو کیڈر میں نہیں۔اور کوئلہ میں تقریباً 70 ہزار اور دیگر معدنیات میں 30ہزار کے قریب ملازم ہیں یہ پیس ریٹ یعنی ٹھیکے پر ملازم ہیں اکثر قانونی حقوق سے محروم ہیں اور اولڈ ایج بینیفٹ میں 1976 سے لیکر آج تک 20ہزار مزدور رجسٹرڈ ہیں جن میں کوئلہ میں 6ہزار مزدور رجسٹرڈ ہیں اور چمالنگ میں 15 ہزار مزدور کام کررہے ہیں اور ان میں صرف 400 مزدور رجسٹرڈ ہیں۔بولان مائننگ پی ایم ڈی سی اور سوئی میں یونینیں رجسٹرڈ ہیں اور سی بی اے بھی ہیں اور کسی حد تک قانونی طور پر جدوجہد کر رہے ہیں۔پرائیوٹ اداروں میں پاکٹ یونینیں ہیں اور انکی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے دو فیڈریشنیں پاکستان مائن لیبر فیڈریشن اور سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن دونوں نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن سے رجسٹرڈ ہیں اور ان کے ساتھ تقریباً 20 یونینیں منسلک ہیں ۔ کئی انقلابی اور کئی لیبر لیڈر پوری دنیا گھوم چکے ہیں لیکن اپنے گھر سے تیس کلو میٹر کسی مائنز میں مزدوروں کی صورتحال کو دیکھنے نہ گئے ۔ ہماری ہاں تو پاکٹ یونین ہیں لیکن لاکھڑا کول فیلڈ اور جمپر ضلع ٹھٹھہ میں جو ٹریڈ یونین کام کررہی ہیں۔ یونینوں نے معاہدات کے ذریعے کانکنوں کے بنیادی مراعات میں قابل ذکر اضافے کرائے ہیں جب معاوضہ موت و معذوری قانوناً دو لاکھ تھا وہ معاہدات کے تحت یونین نے چھ لاکھ روپے مقرر کیا اور معذوری کی صورت میں معاوضے کے بعد تا حیات 3600/-روپیہ الاؤنس بھی مقرر ہے ۔ گریجویٹی دس سال سروس مکمل کرنے پر ڈبل کی ہے ۔ عید الفطر پر پندرہ یوم مدت ملازمت پر تین ہزار رورپیہ ہر ملازم کو عیدی ملتی ہے اور عید الضحیٰ پر مزدوروں کی تعداد کے لحاظ سے مالک بیل خرید کر کٹواتے ہیں تاکہ تمام ملازمین اور کانکنوں کو گوشت میسر ہو اب تک یونین کے معاہدات کے ذریعے پانچ سو اسی کارکن کمپنی کے خرچ پر حج کرچکے ہیں ۔ ہر قسم کے علاج کی ذمہ داری کمپنی پر ہے اور زخمی ہونے پر دوران علاج صحت یابی تک متاثرہ کارکن کو 500 روپیہ یومیہ الاؤنس ملتا ہے ۔ ہر سال کارکنوں کو معاہدے کے تحت کمبل ، پنکھے بذریعہ قرعہ اندازی ملتے ہیں ۔ لاکھڑاکول فیلڈ کے کانکنوں کو جو مراعات حاصل ہیں وہ ہمارے صوبے کے کانکن تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ کوئلے کا سخت کام کرنے کی وجہ سے یہ مراعات آئیڈیل نہیں ہیں ۔ ہمارے لوگوں کا اور مزدوروں کا تاریخی استحصال کیا گیاہے ۔ اتنی بڑی معدنیات کے باوجود بلوچستان کے چند جیالوجسٹوں اور مائنگ انجینئر ز کو روز گار نہ مل سکا ۔ ٹرینڈ سپروائز کو بھی نوکری نہیں دیتے مائنگ کمپنیوں کو مائنگ انجینئر اور سند یافتہ سپروائز کو ملازم رکھنا ہوتا ہے اگر سیندک اور سوئی کی طرح کوئلہ ، سنگ مرمر اور کروم کے کارخانے معدنیات کی جہگوں پر لگائے جاتے ہے تو ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا کروم اورکوئلہ بلوچستان سے نکلتا لیکن اسٹیل مل کراچی میں ہے۔سیندک میں طاقت ور یونین تھی جب سے پرائیوٹ ہوا اور فری ٹریڈ زون کے قانون کا نفاز ہوا اس لئے وہاں یونین کلعدم ہوگئی کیونکہ فری ٹریڈ زون میں یونین نہیں ہوسکتی۔مزدوروں کی طرح مائنز مالکان کی بھی ایک فیڈریشن ہے جوکہ نہایت طاقت ور ہے۔ویسے مائنگ کی صنعت سے تقربیاً4لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
یہ کلچر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے متعارف کرایا ہے لیکن بلوچستان میں نہ ہونے کے برابرہے جب پہلے ہم اس کا مطالبہ کرتے تھے تو اسے مذاق سمجھا جاتا تھا لیکن حالیہ سالوں میں کچھ نہ کچھ کام ہورہا ہے زرغون ماری گیس کمپنی نے 2015 میں پانچ لاکھ ڈالر کمیونٹی کے خاطر ہرنائی کے ڈپٹی کمشرں کو ادا کیے گئے اور سی ایس آر کمپنی اور ڈپٹی کمشنر کا مشرکہ اکاونٹ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے بھی مل کر کام کرتے ہیں۔ سیندک میں 30کروڑ روپے سی ایس ار کی مد دئے گئے جب سیندک پرائیوٹ ہوا تو معاہدہ ہوا کے سیکورٹی سمیت لیبر مقامی لوگ ہونگے اور اس کے علاوہ ارد گرد کے پانچ گاوں کو بجلی مفت دی گئی اور والدین کمیٹی کو ماہوار 5لاکھ روپے سکول کے ٹیچروں کے مد میں اور ارد گرد کی آبادی کو علاج کے لئے ڈاکٹر معیا کیا جائے گا جب داوایاں مقامی لوگ خود خریدینگے اور اس کے علاوہ فلٹر پانی سیندک ملازمین کیلئے تیار کیا جاتا تھا وہ ٹینکر کے ذریعے ان پانچ گاؤں کو بھی دیا جاتا تھااورسبزی گوشت وائیٹ واش کے ٹھیکے بھی مقامی لوگوں کو دئے گئے اگر اس طرح دوسرے ادارے بھی کرتے تو بہتری ہوتی۔ یہ پتہ نہیں کہ سوئی گیس نے اس مد میں اب تک کتنی رقم دی بھرحال سوئی گیس نے 2015 میں 5.5 اور 2016 میں6.5 بلین روپے رائلٹی دی ہے۔جو کہ سیل پر 12.50 فیصد ہے۔لیکن پرائیویٹ ادارے سی ایس آر میں کوئی بھی رقم نہیں دیتے اور محمد صابر کول مائن اونر اپنی این جی اوکے ذریعے مقامی لوگوں (ہرنائی) کی فلاح وبہبود کیلئے کچھ نہ کچھ کام کررہا ہے۔پرائیوٹ مائنز مالکان کمونیٹی سوشل رسپانسیبلیٹی چھوڑئے مزدوروں کو قانون کے مطابق معاوضہ نہیں دیتے علاقے کی ترقی میں دلچسپی نہیں لیتی۔بلکہ کہ چند نے ایم پی اے اور ایم این اے کا فنڈ اپنے مائنز میں خرچ کیا اس کے علاوہ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے پاکٹ یونیوں کے ساتھ مل کہ مزدوروں کی سائیکلیں سلائی مشین اور سکالر شپ اور لیبروں کے مکانات اور جیز فنڈ بھی کھا گئے اور ورکرویلفیئرفنڈ میں حصہ نہیں ڈالتے لیکن حادثے کی صورت میں ادھا معاوضہ مزدور کو ویلفیئر فنڈ سے ادھا کرتے ہیں جو کہ کار خانوں اور ودوسرے اداروں کا فنڈ ہوتا ہے اس لئے آج بھی پاکٹ یونینیں مطالبہ کرتے ہے کہ ان فنڈ کو خرچ کرنے کیلئے مزدور کا اولڈ ایج بینفٹ والی شرت ختم کیجائے اور بلوچستان کی اکثر قبائلی لڑائیوں کی وجہ بھی یہی معدنیات ہے پہلے صوبائی حکومت کو ٹیکس بھی نہیں دیتے تھے لیکن اب انہیں ایف سی کے تین سو روپے پر ٹرک اور چار سو پچیس روپے سیلز ٹیکس پر اعتراض نہ ہے۔اور چند معدنیات پچتر فیصد تک نکالے جا چکے ہے۔اس کا فائدہ صرف تین چار سو مائنز مالکان کو ہے اور بلوچستان کو اس میں کیا فائدہ ہوا۔تو یہ مطالبات تو جائز ہے کہ معدنیات کو بند ہو جانا چاہئے لیکن پنجاپ کے کارخانوں بٹوں کیلئے یہ معدنیات ضروری ہے اس لئے ہر حالت میں ان کو نکالنا چاہتے ہے۔دوسرا اگر ڈیرہ بگٹی کا مزدوروں کا اپنا ورکرویلفیئر کا فنڈ اور کمینونیٹی سوشل رسپانسیبلیٹی فنڈ ڈیرہ بگٹی پر خرچ ہوتا تو آج یہ جدید شہر ہوتا۔میں نے اس میں رائلٹی کے رقم کا ذکر نہیں کیا جو موجودہ اور پچھلے سال کے گیارہ ابلین روپیسے زائد ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان معدنیات پر پہلا حق وہاں کے عوام کا ہے جو صدیوں سے اس زمین کے باسی ہیں اور گرمی سردی میں اپنی زمین کا دفاع کیا اور مشکل حالات میں بھی اس کو چھوڑ کے نہیں گئے۔ دوسرا حق ان مزدوروں کا بنتا ہے جو اس معدنیات کو نکال رہے ہیں اور اس کے بعد مالکان اور صوبائی حکومت کا ہے۔