برصغیر پاک وہند میں ترقی پسند تحریک کا آغاز 1936ء میں پہلی کُل ہند کانفرنس لکھنو میں ہوئی ، اس سے پہلے ہندوستان کے چند نوجوان جو اعلیٰ تعلیم کی غرض سے انگلستان چلے گئے تھے ، لندن میں ’’ہندوستانی ترقی پسند مُصنفین کی انجمن ‘‘کے نا م سے ایک انجمن 1935میں قائم کی تھی، یہ ادبی تحریک جلد تمام ادبی حلقوں میں معروف ہوگئی۔
ٍ اس زمانے میں برصغیر میں رابندر ناتھ ٹیگور ، جو اہرلال نہرو، مولانا حسرت موہانی ، قاضی نذر الاسلام ، منشی پریم چند، مولوی عبدالحق ، سجاد ظہیر اور قاضی عبدالغفار جیسے نابغۂ روزگار اور قدآور ادیبوں اور مشاہیرنے ترقی پسندوں کی رہنمائی اور سرپرستی کی ۔دوسری جانب سوشلسٹ ، کمیونسٹ ، کانگریسی ، مسلم لیگی اور لبرل غرضیکہ ہر مکتبہ فکر اور علم ودانش رکھنے والے ادبیوں اور شاعروں نے ’’انجمن ترقی پسند مصنفین ‘‘کو خوش آمدید کہا اور ان کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لیے شب و روز کام کیا۔
تقسیم ہند کے بعد ترقی پسندوں کے کار وان میں احمد ندیم قاسمی ؔ ، ظہیر کا شمیری، شورش ملک، فیض احمد فیض ، سبط حسن ، حبیب جالب اور دوسرے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کے نام اس میں شامل ہیں۔ انہوں نے ترقی پسندی کے اس رجحان کو آگے بڑھانے کے لیے نہ صرف لاہور اور کراچی جیسے بڑوں شہروں بلکہ پاکستان کے تمام خطوں اور علاقوں میں اس فکر کو وسعت دینے کے لیے بے شمار کام کیے۔
یوں تو بلوچستان میں ترقی پسندانہ سوچ کو پروان چڑھانا ، انگریز استعماریت کے خلاف آواز بلند کرنا، سرداری اور فرسودہ نظام کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور بلوچستان کے غریب اور غیور عوام کے اندر شعور بیدار کرنا ، سماجی اور معاشرتی ناانصافیوں اور ظلم وجبر کے خلاف آواز بلند کرنے کا اعزازپروگریسوز کے عظیم سپہ سالار ، ادیب اور سماجی کارکن میر یوسف عزیزمگسی کو مانا اور یاد کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد میر محمد حسین عنقاؔ اور میر گل خان نصیر اس کا روان میں شامل ہوگئے ۔ میر یوسف عزیز مگسی نے لوگوں میں قومی شعور اور جوش وولولہ پیدا کرنے کے لیے اردو او رفارسی کو شاعری کا وسیلہ بنایا اور ساتھ ساتھ وہ اردو کو صحافتی میڈیم استعمال کرتے تھے۔
میر گل خان نصیر اور محمد حسین عنقاؔ نے بھی سب سے پہلے اردو اور فارسی میں شاعری کی۔ لیکن بعدمیں وہ اپنی سرزمین سے والہانہ محبت اور اپنی مادری زبان بلوچی کی پسماندگی کو دیکھ کر یک دم بلو چی شاعری کی طرف راغب ہوگئے۔
چونکہ اس زمانے میں برصغیر اور بالخصوص اس خطے کے تمام ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں نے اپنی مادری زبانوں کو خاصی اہمیت دی ، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک پسماندہ قوموں کی زبانوں کو اہمیت نہیں دی جاتی ، تب تک اُن کی سیاسی ، سماجی اور معاشی ترقی ناممکن ہوگی۔
بنیادی طورپر میر گل خان نصیر اور محمد حسین عنقاؔ دونوں سوویت انقلاب اورشوشلسٹ نظریہ سے بے حد متاثر تھے۔ محمد حسین عنقاؔ تو کچھ مدت کے لیے کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن بھی رہے۔
بلوچستان کے ادیبوں اور شاعروں نے بھی معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لانے اور سماجی اور اقتصادی مساوات پر مبنی ایک غیر استحصالی اور غیر طبقاتی معاشرہ قائم کرنے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔ طبقاتی اورسرداری نظام کو تہہ وبالا کرنے کے متعلق نہ صرف سوچا بلکہ یہاں کے باشعور لوگوں نے قربانیاں دیں۔
بلوچی اد یبوں اور شاعروں نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کے لیے نہ صرف اپنے جو ہر دکھائے بلکہ ترقی پسند ی اور روشن فکری میں کسی سے پیچھے نہ رہے ۔
لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ بلوچی شاعری کی سات سو سالہ ادبی تاریخ مقصدیت ، حقیقت پسندی، روشن خیالی اور دیانت داری کی تاریخ ہے ۔ جس نے بعد میں ترقی پسند شعری تصور کے زیر اثر سماجی حقیقت نگاری کی صورت اختیار کی۔
جیسے ہندوستان میں اور بعد میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں ہر شہروں میں’’ انجمن ترقی پسند مصنفین ‘‘ کی شاخیں قائم ہوئیں اور وہاں کے ادیبوں اور مثاہیر نے منظم ہو کر ایک منشور اور مینی فیسٹو کے تحت ترقی پسند تحریک کی آبیاری کی اور اُسے پروان چڑھایا ۔ لیکن بلوچستان میں اس تحریک کی شاخ بہت بعد میں قائم کی گئی۔ جب پاکستان کے دوسرے علاقوں میں ا نجمن اپنی تنگ نظری کے باعث سُکڑتی جارہی تھی اس وقت بلوچستان میں اس کی شاخ قائم کی گئی۔ یعنی انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ 1952ء میں بلوچستان (کوئٹہ) میں قائم کی گئی۔اس انجمن کے روحِ رواں معروف ترقی پسند شاعر وادیب انجم قز لباش اور جناب کامل القادری تھے۔
لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی آمد سے پہلے یہاں ترقی پسندوں کا ایک سرگرم ٹولہ موجو د تھا۔ جن کو’’ لٹ خانہ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ لٹ خانہ اپنی نوعیت کی ایک ایسی اد بی سیاسی آماجگاہ تھی، جہاں بلوچستان کے نامور ادیبوں اور دانشوروں نے بلوچستان میں روشن فکری، ترقی پسندی اور سوشلزم کے فلسفے کو آگے بڑھایا۔ 1950میں کچھ نوجوانوں نے اپنی سرکاری ملازمت چھوڑ کر اس انقلابی تحریک کو منظم اور متحرک کرنے کا عہد وپیمان باندھا۔ اس زمانے میں مشہور ومعروف کمیونسٹ اور سوشلسٹ رہنما سجاد ظہیر کبھی کبھار جب بلوچستان (کوئٹہ )تشریف لاتے تو لٹ خانہ ضرور تشریف لاتے اور دوستوں سے حال حوال کرتے ۔
’’لٹ خانہ‘‘دراصل ایک نیم نیشنلسٹ اور نیم کمیونسٹ قسم کا ’’پلیٹ فارم‘‘ تھا، جس میں بلوچستان کے باشعور اور پڑھے لکھے ادیب اور مشاہیر جمع تھے۔
ؒ لٹ خانہ کرائے کا ایک مکان تھی، جس میں بلوچی کے نامور روشن خیال ادیب اور ترقی پسند دانشور عبداللہ جان جمالدینی کے علاوہ اس کے دوسرے روشن خیال رفقا اور ہم خیال رہائش رکھتے تھے۔
’’لٹ خانہ‘‘کی سیاسی اور ادبی سرگرمیوں میں مشہور ترقی پسند شاعروادیب انجم قزلباش ، کامل القادری ، عین سلام ، سائیں کمال خان شیرانی ، ڈاکٹر خدائے داد، لالہ غلام محمد شاہوانی ، ملک محمد پناہ ، عبدالکریم شورش ، آزات جمالدینی ، میر گل خان نصیر ، بہادر خان بنگلزئی اور بلوچی ، پشتو اور اردو کے ادبااور شعرا ہمہ وقت مصروف عمل رہتے تھے۔
’’لٹ خانہ‘‘ کے ’’اوتاخ ‘‘میں بلوچی اور پشتو زبان کے علاوہ اردو کے ادبی بحث ومباحثے ہوا کرتے تھے۔ اس کے پیش نظر لٹ خانہ کے ترقی پسندا دیبوں اور دانشوروں نے بلوچستان کے کونے کونے میں روشن خیالی کی تحریک کو پھیلانے میں اہم اور خاص کردار ادا کیا ۔ لٹ خانہ کی ادبی، سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں سے متاثر ہوکر عبدالواحد آزات جمالدینی نے اپنی بلوچی شاعری میں ترقی پسندانہ اور آزادنہ سوچ کو اجاگر کرنا شروع کیا۔ یہاں سے اس کو باقاعدہ ایک ماہنامہ بلوچی ادبی جریدہ’’ماھتاک بلوچی‘‘ کا اجراء کرنے کا دوستوں نے مشورہ دیا۔ اس نے ماہنامہ بلوچی کی ڈیکلر یشن کے لیے درخواست دی اور بہت تگ ودو کی لیکن اس کو ڈیکلریشن نہیں مل سکا۔ وہ ڈیکلریشن کی حصول کے لیے پیچھے نہیں ہٹا اور تب جاکے مئی1956کو اسے ڈیکلریشن مل گیا۔
دوسری طرف اس کا روان کے ایک اہم مسافر جناب ڈاکٹر خدائیداد نے پشتو زبان اور ادب کی ترقی کے لیے ایک ماہنامہ جریدہ ’’ماہنامہ پشتو‘‘ کے لیے بھی ڈیکلریشن کی درخواست دی تھی جو منظور ہوئی۔
’’لٹ خانہ‘‘ کے اوتاخ میں ایک مرد مجاہد واجہ عبداللہ جان جمالدینی بھی تھے۔ جو ستمبر کے مہینے ہم سب کو داغ مفارقت دے کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ وہ نہ صرف بلوچی زبان وادب کے ایک عظیم اُستاد تھے۔ بلکہ مہربان ، شفیق ، قوم پرست ، زبان دوست اور پورے عالم انسانیت کے لیے دُکھ اور درد رکھنے والے انسان تھے۔ وہ اپنی پوری زندگی میں لوگوں کو محبت ، ایمانداری ، رواداری اور علم وادب کا درس دیتے رہے۔ ’’لٹ خانہ‘‘ سے لیکر ’’سنڈے پارٹی ‘‘تک اس کے لاکھوں نہ سہی تو ہزاروں شاگرد تو ضرور ہوں گے ۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک اس کے مداح ہزاروں کے حساب سے ہوں گے۔
پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی بلوچستان میں ترقی پسندادیبوں کے پہلے کاروان سے تعلق رکھنے والے آخری شخصیت تھے جو اپنی پیراں سالی اور عاجزی کے باوجود نوجوانوں کو علم وشعور اور سماج میں نابرابری اور ظلم وزیادتی کے خلاف درس دینے کے لیے کم بستہ تھے۔
اس کی زندگی ایک انسٹیٹیوٹ سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ جب وہ بلوچستان یونیورسٹی میں پروفیسرتھے تو طالب علموں کو نہ صرف علمی وادبی درس دیتے تھے بلکہ روشن فکری ، ترقی پسندی اور خوش اخلاقی کا درس دیتے تھے ۔ بے شمار غریب طالب علموں کے فیس معاف کرواتے یا تو اپنی جیب سے دیتے ، بہت سے نوجوانوں کو کھینچ کھینچ کر یونیورسٹی میں داخلہ دلواتے، جس کی بدولت آج وہ اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔
پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی نے اپنی پوری زندگی میں بلوچی زبان وادب کی سبزہ زار کی نہ صرف آبیاری کی بلکہ اس کی نشود نما کے لیے بے حد جفاکشی کی۔ اس کا شمار جدید بلوچی ادب کے بانیوں اور نثری ادب میں ترقی پسندانہ رنگ اور جدت لانے والوں میں ہوتا ہے۔ اُس نے بلوچی نثری ادب کی ترقی و ترویج کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس کی زندہ مثال بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کی جانب سے اُن کی نثر ی اثاثہ ’’ اوپار‘‘ ہیں ۔ جسے سنگت رفیق نے مرتب کر کے بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کی طرف سے شائع کروایاہے۔ اس کتاب کی ضخامت چار سو صفحات سے زیادہ ہے۔ اس میں بلوچی لڑیچر سے متعلق بے حد مفید اور معنی خیزمواد شامل ہے۔ یہ کتاب جدید بلوچی نثر ادب کے لیے ایک قیمتی اثاثہ سے کم نہیں ہے
پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی جس وقت ’’لٹ خانہ‘‘ سے وابستہ تھے۔ اس وقت وہ بلوچی کلاسیکل داستان کو نثری شکل دے کر بلوچی زبان میں اخباروں میں چھپواتے تھے۔ اس میں حانی وشہ مرید، چاکرو گوہرام اور بیبگر کے داستان قابل ذکر ہیں۔ 1951ء میں بلوچی اور اردو کا واحد اخبار ’’مُعلم ‘‘ جو سریاب روڈ کوئٹہ سے چھپتا تھا ۔ اردو کے علاوہ ایک آدھ بلوچی نثر یا کلا سیکل ادب سے متعلق کوئی شعر چھپتا تھا۔ اس اخبار میں عبداللہ جان جمالدینی کے بے شمار بلوچی داستانوں کے نثری رنگ چھپتے تھے جو بلو چی کلاسیکل یا عہد کی شاعری کے متعلق تھے۔
پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی نے بلوچی کے ترقی پسند شاعر اور اپنے بڑے بھائی عبدالواحد آزات جمالدینی کے ادبی پر چے ’’ماہنامہ بلوچی‘‘ جو جون1956ء میں منظر عام پر آیا تھا، اپنے بھائی کے معاون رہے اور بلوچی کی ترقی وترویج کے لیے شب وروز کام کیا۔ جب آزات جمالدینی نے پہلی دفعہ ماہنامہ بلوچی کراچی کے لیمارکیٹ سے نکالنا شروع کیا تو عبداللہ جان جمالدینی کراچی میں بھی نہ صرف بھائی کا ساتھ دیا بلکہ ماہنامہ بلوچی کے کاموں میں پڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔
آزات جمالدینی نے کراچی میں ماہنامہ بلوچی کا آفس لیمارکیٹ میں کھولا ۔ یہاں پر وقت بلوچ ادیبوں ، دانشوروں، سیاستدانوں اور نوجوانوں کا تانتا باندھار ہتا تھا ۔ کراچی کے بلوچوں اور خاص کر ادیبوں اور شاعروں کے لیے وہ دن عید کے دنوں سے کم نہیں تھے ۔
مراد ساحرؔ ، عبدالصمد امیریؔ ، قاضی عبدالرحیم صابرؔ ، عبدالحکیم حقگو، محمد اسحاق شمیم، ؔ محمد قاسم ہوت ، محمد یوسف نسکندی ، لالہ لعل بخش رند ، مولوی خیر محمد ندوی ، محمد مراد آوارانی ، محمد عمر بمپوری ، جمعہ خان بلوچ، جان محمد بمپوری ، صالح محمد جمالی،ؔ اکبر بار کزئی ، امان اللہ بار کزئی اور صدیق بلوچ دن میں ایک دفعہ ضرور بلوچی کے آفس لیمارکیٹ میں آتے ۔ لالہ غلام محمد شاہوانی ، سردار خان گشکوری کی کتاب کی چھپائی کے لیے کراچی میں بندر روڈ کے مشہور ہوٹل ’’جاگیردار‘‘ میں ٹھہرے ہوئے تھے ، وہ روزانہ ماہنامہ بلوچی کے دفتر میں تشریف لاتے۔ آزات جمالدینی کا ہاتھ بٹاتے اور بلوچی کے کاموں میں مصروف عمل رہتے ۔ کبھی کبھار کوئٹہ سے’’ لٹ خانہ‘‘کے رفقا کراچی تشریف لاتے تو لیمارکیٹ میں ’’ماہنامہ بلوچی‘‘کے آفس آتے۔
مکران سے بشیر احمد بلوچ او رحبیب اللہ گچکی اس زمانے میں کراچی میں زیر تعلیم تھے اور ریڈیو پاکستان کراچی میں بھی کام کرتے تھے۔ وہ بھی ہر وقت عبدالواحدآزات اور عبداللہ جان سے ملنے بلوچی کے آفس میں نمودار ہوتے تھے۔
عبداللہ جان کے لیے وہ دن سنہری اور یاد گاردن تھے جو بلوچی کی ترقی کی ابتدائی دور میں انہوں نے اپنی آنکھوں میں دیکھے تھے ۔ انہی ایام میں وہ نہ صرف ماہنامہ بلوچی کی ترویج وتشہیر کے لیے اپنے بھائی کا معاون ومددگار رہے۔ بلکہ وہ بلوچی زبان وادب اور صحافت کو ابتدائی ایام میں پھلنے پھولنے کے چشم دیدہ گواہ بھی تھے۔
شعبہ بلوچی کو جامعہ بلوچستان میں متعارف کروانے اور اس کی قیام میں پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ شروع شروع میں شعبہ بلوچی، شعبہ مطالعہ پاکستان کے ساتھ منسلک تھا، عبداللہ جان جمالدینی کی انتھک کوششوں کے بعد شعبہ بلوچی کو اسی کی دہائی میں ایک الگ ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت اور شناخت مل گئی ، وہ شعبہ بلوچی کے پہلے چیئرمین تھے۔ انہوں نے نہ صرف صوبائی بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح تک بلوچی زبان کو متعارف کروایا۔ اس دوڑ میں بہت سے عالمی ریسرچراور محققین بلوچی کی طرف آگئے اور انہوں نے اپنی حقیقی کام کا مجور بھی بلوچی زبان کو بنا لیا۔
کاریناجہانی اور جوزف الغنبائن بین الاقوامی سکالر اور لسانیات کے ماہر ہیں ان دونوں سکالروں نے بلوچی زبان کے لیے گراں قدر کام کیے ہیں۔ یہ دونوں سکالر عبدللہ جان جمالدینی کے شاگرد رہ چکے ہیں اور اس کی سر پرستی ان کو حاصل رہی ہے۔
بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کو ایک قومی ادارہ بنانے ، تحقیق اور جستجو کے کام کو آگے بڑھانے میں پرفیسر عبداللہ جان جمالدینی کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ وہ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کے چیئر مین بھی رہے ہیں ۔ اس نے بے شمار قومی ادبی سیمینار ز اور خاص کر اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد کے بہت سے سیمیناروں میں بلوچی کی نمائندگی کی ہے۔
وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے اعزازی ممبر بھی رہے ہیں۔ اس کے بے شمار مضامین اور نگار شات قومی ادبی رسائل وجرائد میں چھپ چُکے ہیں ۔ وہ بلوچی کے کل وقتی ادیب تھے جو ہر وقت باقاعدگی سے لکھتے رہے۔ اس کی تمام نگار شات میں ترقی پسندی اور جدت پسندی کا رنگ بجا طور پر موجود ہے۔
’’مُرگ مینا ‘‘ ’’بلوچستان میں سرداری نظام ‘‘ ’’لٹ خانہ‘‘(یاد داشتوں پر مبنی کتاب)’’اوپار ‘‘ اور ’’زندگی نامک‘‘ اس کی اہم تصنیفات ہیں۔