سبط حسن کی تعلیمات کے بھرپور اثرات کا تذکرہ ہم آگے کریں گے ہی، مگر پہلے اس کی خدمات میں سے ایک بڑی خدمت کا تذکرہ ضروری ہے۔ حالیہ نصف صدی میں ،اور بالخصوص ستر اور اسی کی دہائی میں بلوچستان کا کوئی گاؤں محلہ ایسا نہ تھا، جہاں تین چار جماعتوں تک پڑھا ہوا انسان موجود ہوتا، اور لینن کی کوئی کتاب موجود نہ ہوتی۔ مگر چونکہ لینن نسبتاً مشکل لکھاری ہے ، اس لیے شروع تولینن سے نہیں کیا جاسکتا ۔ چنانچہ اساتذہ اور سینیئر لوگوں نے اس کی ایک آسان راہ نکالی ۔وہ لینن اور مارکس کی خوبصورت فکری چراگاہ کی طرف جانے سے پہلے ساحرلدھیانوی، کرشن چندر اور سبطِ حسن کو متعارف کراتے تھے۔ اور اس کے بعد لینن کی کوئی کتاب تھما دیتے۔ مطلب یہ ہے کہ سبط حسن انسانوں کو صرف سبط حسن تک محدود نہیں رکھتا بلکہ علم و آگہی کے دوسرے سرچشموں تک لے جانے کا راستہ بن جاتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ محض ایک فرد یا دانشور بلوچستان کے دور افتادہ کونوں علاقوں کو منور نہیں کرسکتا۔ سبط حسن سے پہلے بھی کئی دانشور آئے، کئی فلاسفروں، شاعروں نے فکرِ سبط حسن کی اثر پذیری کو ممکن بنایا۔
اسی طرح یہ بھی معلوم بات ہے کہ جب بھی ہم کسی فرد کے اثرات کا تذکرہ کریں گے تو اُس سماج کو ضرور سامنے رکھیں گے جس پہ اُس کے اثرات کی بات ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں زمین کی ساخت ہی ایسی ہے کہ اس میں نسیم حجازی نہیں اگتا۔ اس سرزمین نے حملہ آوروں کی طویل مزاہمتیں کر کے وہ عمومی فضا قائم کرلی جو بالآخر سامراج دشمنی اور انسان دوستی تک لے گئی۔اس لیے سبطِ حسن کی فکر کی پذیرائی اور اثرات کے سلسلے میں اُس کی محنت اور خوبیوں کے ساتھ ساتھ ،بلوچستان کی اپنی قبولیت اور چاہت کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔
یہ درست ہے کہ اگر سبطِ حسن زندہ ہوتا تو بلوچستان اپنے اس محبوب دانشور سے اُس کی کتاب ’’ پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ‘‘دوبارہ لکھوالیتا۔ اس لیے کہ اُس کے زمانے میں فقط چار پانچ ہزار سال قبل کی تاریخ ہی لکھی جاسکتی تھی۔ سبطِ حسن اپنی تحریروں میں پانچ کروڑ برس قبل حاملہ وہیل مچھلی کے بارے میں کچھ نہیں لکھ سکتا تھا جس کی بلوچستان میں دریافت اُس کی زندگی میں نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح وہ ساڑھے تین کروڑسال قبل کے دیوہیکل بلوچی تھیریم کے ریوڑوں کے بارے میں بھی مکمل طور پر نہیں جانتا تھاجن کی تفصیل اُس کی موت کے بعد آئی۔
مہر گڑھ تہذیب کی دریافت تو ابھی90 کی دہائی میں ہوئی۔ اے کاش وہ کچھ سال مزید زندہ رہتا تو فرانسیسی آرکیالوجسٹ اُسے بتاتے کہ مہر گڑھ کا انسان گیارہ ہزار سال قبل سوتی کپڑا پہنتا تھا، گندم ، جو، کھجور اور چاول کاشت کرتا تھا، حتیٰ کہ دانتوں کی فلنگ بھی کرتا تھا۔ وہ زندہ ہوتا تو بلوچستان کی حالیہ دریافتیں اسے بتاتیں کہ ہم بحیثت قوم یہیں کے اصل باشندے ہیں۔ ہم نہ حلب سے آئے ہیں اور نہ کیسپین سی سے۔
مگر، سبطِ حسن کا کمال یہ ہے کہ اُس نے تاریخی مادیت کی اُس عینک کو صاف کر کے ہمیں پہنا دیا جس سے ہم اِن جدید دریافتوں کو دیکھیں پر کھیں تجزیہ کریں اور نتائج نکا لیں ۔
یوں تو سبطِ حسن کا قلم اور بلوچستان کی لٹ خانہ تحریک ہم عصر ہیں، مگر سبط حسن کی مقبولیت کا اصل زمانہ ستر کی دہائی تھا ۔ بالخصوص اُس دہائی کا آخری نصف۔
یہ کوئٹہ کا ڈسٹرکٹ جیل ہے۔ ضیاء الحق کا مارشل لا ہے ۔ حمید بلوچ کی پھانسی رکوانے کی جدوجہدجاری ہے۔ پاکستان پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس کے نام سے پندرہ طلبا تنظیموں کے متحدہ محاذ نے اپنی سرگرمیوں کا اڈہ بلوچستان کو بنایا تھا۔ جیل کے بیرک بھر چکے تھے۔ قیدیوں کوشام پانچ بجے واپس بیرک میں بند کردیا جاتا تھا۔ جونہی پانچ بجے ہمیں بند کیا جاتا تو ہم دو چار قیدی ڈھلتے دن کی اس نیم روشنی کو غنیمت جان کر آٹھ دس صفحات پڑھنے میں لگ جاتے۔ مطالعے کی لطف اندوزی کے عین عروج پہ اچانک کوئی قیدی سٹوڈنٹ کتاب چھین لیتا اور اپنا پسندیدہ فقرہ بول کر ہمیں ہاتھ سے پکڑ کر اٹھاتا ’’ماما، تھیوری ختم، آؤ اب پریکٹیکل کرتے ہیں‘‘۔ پریکٹیکل کیا تھا۔ ڈھول کے گرد اکیس قیدیوں کا پورا وارڈ رقص کرنے لگ جاتا۔ظاہر ہے کہ جیل میں ڈھول میسرنہ تھا ۔ ہم نے ایک ڈالڈا ڈبہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ ہم اُسے الٹا کر اُس کو ڈھول کے بطور استعمال کرتے۔اور اس کی تھاپ پر نیند اور تھکاوٹ کے مکمل غلبے تک رقص کی پھیریاں لگاتے۔ کتاب چھیننے کے جرمانہ کے بطور اگلے دن باہر نکل کر یہ قیدی سارا دن نظریاتی اور سیاسی بحث مباحثہ کرتے تھے اور ایک کتاب سے سٹڈی سرکل کرتے تھے۔ اور وہ کتاب سبطِ حسن کی ہوتی تھی ۔ جی ہاں اُن اکیس قیدیوں نے ’’ موسیٰ سے مارکس تک‘‘ نامی کتاب حمید بلوچ کو پھانسی سے بچانے کی جدوجہد کے نتیجے میں کوئٹہ جیل میں پڑھی تھی۔
یہ بلوچستان یونیورسٹی ہے۔ لات اور منات کو نہ ماننے والا کرار حسین وائس چانسلر ہے، سرخ دیے کی تب و تاب سلامت رکھنے کے لیے جہداں حسن علی کاظمی لائبریرین ہے، مجتبے حسین اردو ڈپارٹمنٹ میں ہے ، اورپاکستان سٹڈیز میں تیشہِ سردار سے پنجہ آزمائی کرنے والوں کا سپہ سالار،عبداللہ جان جمالدینی ہے ، تو آپ تصور کریں کہ اس یونیورسٹی میں کس دانشورکا راج ہوگا ۔میں شریعت کی رو سے حاصل اپنی’’ پوری ‘‘گواہی کی سہولت کو بروئے کار لا کر کہتا ہوں کہ وہاں سبطِ حسن کا راج تھا۔
یہ کوئٹہ کا رش کش میں ڈوبا اور چائے کے ہوٹلوں سے بھرا جناح روڈہے ۔ یہ ڈان ہوٹل ہے جوصحافیوں دانشوروں کی آماجگاہ ہے۔ یہ ریگل ہوٹل ہے پشتونخواہ پارٹی کا اڈہ ۔ لبرٹی ہوٹل سوشلسٹ سٹوڈنٹس کی شناخت ہے تو فردوسی ہوٹل پیٹی ٹھیکیداروں اور بے راہ رومڈل کلاس کا ٹھکانہ ۔۔۔۔۔۔۔پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ طلبا کا اپنا مخصوص ہوٹل ہے ا ور بی ایس او والوں کا اپنا ۔مگر ان سارے ہوٹلوں کے اندر چار بجے سے لے کر سات بجے شام تک سبطِ حسن کی کسی نئی کتاب پر تبصروں بحثوں کی بادشاہی قائم رہتی۔
یہ خیر بخش مری کی گوریلا تحریک ہے۔ آج کے بر عکس یہ اُس وقت شکست وریخت سے بچی ہوئی تھی۔ عبدالنبی بنگلزئی، واحد کمبر جیسے یونیورسٹی پاس لوگ اس میں آن ملے تھے۔ وہاں ہر ماہ دو ماہ بعد، پہاڑوں پر لڑنے والوں کے لیے چار چھ اونٹ، راشن سامان لے کر جاتے۔ گڑ ، آٹا، جوتے، ملیشیا کے کپڑے، بیٹری سیل وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ نا ممکن ہوتا تھا کہ اس consignment میں سبطِ حسن موجود نہ ہو۔
یہیں کہیں بولان میڈیکل کالج کے کسی ہاسٹل میں ،ایک اردو کتابچہ بلوچی زبان میں ترجمہ ہورہا تھا۔ شاید پاکستان کی قومی زبانوں میں اولین زبان بلوچی تھی جس میں یہ کتابچہ ترجمہ ہورہا تھا۔ اصطلاحات کو جوں کا توں رکھنے، یا انھیں بلوچی میں ترجمہ کرنے کی بڑے پیمانے کی بحث اسی کتابچے نے بھڑکائی تھی۔ نام تھا سیکولرزم کیوں؟۔مصنف ،سبطِ حسن۔
یہ لاہور کا صفاں والا چوک ہے جہاں سی آر اسلم نام کا ایک بوڑھا دانا رہتاہے۔ کوئٹہ سے اس کا شاگرد، نور محمد ترہ کی کی لکھی کتاب’’ زندگیِ نوین‘‘ اُس کو تحفہ کرتا ہے۔ یہ معمر استاد جواب میں اسے سبطِ حسن کی کتاب یہ کہہ تحفہ کر دیتا ہے کہ ابھی ابھی آئی ہے میں نے پڑھی تم پڑھو۔ جی ہاں، آج سے چالیس سال قبل فکرِ سبطِ حسن کا ،تحائف میں تبادلہ ہوتا تھا۔
70 اور80 کی دہائیوں میں ایک پاک اور قابلِ تقلید فیشن عام ہوا کرتا تھا۔ اُس زمانے میں لوگ ہاتھ میں موبائل فون، یا کارموٹر کی چابی، یا بے نظیر والی تسبیح لے کر نہیں چلتے تھے، بلکہ ہاتھ میں کتاب لیے گھوما کرتے تھے ۔ بلوچستان میں ادیبوں کی جو پود ابھی زندہ ہے وہ سب کا سب اُسی فیشن کے زمانے سے گزری ہے۔ آج کے سارے ادھیڑ عمر دانشوروں میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھوں میں دانیال سے چھپی ہوئی سبطِ حسن کی کوئی کتاب ضرور ہوا کرتی تھی۔
یہ بلوچستان کی تیرہ بخت ٹریڈ یونین تحریک ہے۔ ابھی یہ مکمل طور پر رحلت نہیں کر چکی تھی۔ بس لیڈروں کے نام کی فرقہ واریت موجود تھی۔ ٹریڈ یونین تحریک کی یہ الگ الگ یونینین فیڈریشنیں فکری تعلیم و تازگی کے لیے جن دانشوروں سے مدد لیتی تھیں وہ انہیں علی عباس جلالپوری ، گل خان نصیر اور سبطِ حسن کی کتابوں سے لیکچر دیا کرتا تھے۔
کوئٹہ سے 100 کلومیٹر دور مسلم باغ میں ایک نائی ہے ۔ اسے سبطِ حسن تیس برس قبل سولہ فروری1986 کو خط میں لکھ رہا تھا کہ:
’’جہاں تک مذہبی عقائد کا سوال ہے تو آپ ان بحثوں میں نہ پڑا کریں۔ ملک کا اصل مسئلہ اقتصادی اور سیاسی ہے اور جو طبقے ان مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتے وہ عوام کو مذہبی مسائل میں اُلجھا کر اُن کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ آ پ اگر ان مذہبی مسائل میں اُلجھے تو آپ اُن منصوبوں کو طاقت پہنچائیں گے‘‘ ۔
میںآپ کو زورِ باطل کے سامنے کھڑے، بڑے بزنجو ،کے گھر نال نہیں لے جاؤں گا۔ اس لیے کہ آپ ویسے ہی یقین کرلیں گے کہ ، سفید پتھر سے بنی قبر کے مالک کی لائبریری میں ،سبطِ حسن کی کتابوں کا پورا سیٹ رکھا ہے۔ اس کی یہ کتابیں سلامت نہیں بلکہ زخمی زخمی ہیں۔ اس لیے کہ بزنجو صاحب تو انڈر لائن کرتا تھا، سوالیہ نشان لگاتا تھااورحاشیوں پر اپنا تبصرہ لکھتا تھا۔ہمارا بابااپنے حامیوں ساتھیوں کو، لیکچر نما گفتگو میں اُس کی کتابوں کے حوالے دیتا تھا،فقرے کوٹ کرتا تھا۔ کتنا اچھا تھا سبط حسن ،جو بزنجو کی مقدس زبان کی سواری کرتا ہوابلوچ کے دل دماغ پہ جاگزیں ہوجاتا۔
ہمارے شاعرِ اعظم نصیرِخوش کلام نے تیس برس کی جیل کاٹی۔ اسے جب بھی جیل سے فرصت ملتی، تو اس کی شام زمرد حسین کی کتابوں کی دکان میں گزرتی۔ اور اس دکان کی شیلفیں مہینے میں کئی بار سبط حسن کی تصانیف سے بھرجاتیں اور پھر خالی ہوجاتیں۔ اور ہر خریدار، میرگل خان نصیر سے سبط حسن کی کون سی کتاب پہلے پڑھنے کا مشورہ ضرور لیتا۔۔۔ گل خان، سبط حسن ، بلوچستان۔
دور کیوں جائیں۔ آج کی بلوچستان کابینہ میں جھانکیں ،25 فیصد سے زائد وزیروں کو سیاست پر بات کرنا تک سبط حسن والوں نے سکھا رکھا ہے۔آج کی بلوچستان صوبائی اسمبلی ، اور وہاں سے سینٹ، اورقومی اسمبلی کے ممبروں میں سبطِ حسن کو پڑھے ہوئے کئی لوگ شامل ہیں۔ ہمارے سول سیکرٹریٹ کے سیکریٹری لیول کے کئی افسراپنی کرتوتیں چھپانے کو سبط حسن سے کوٹیشنیں آپ کے کانوں میں پھونکیں گے۔بلوچستان ہائی کورٹ میں موجود ایک آدھ جج سبطِ حسن کے شاگردوں کے بطور موجود ہے۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی،اورنیشنل پارٹی جو کہ حکمران پارٹیاں ہیں سبطِ حسن کی پیروکاری پر فخر کرتی ہیں، اسی طرح سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے افراد حزب اختلاف کے لوگ ہیں مگر اُن کی قیادت بھی سبطِ حسن اور اس کی تصانیف سے روشنی لیتی ہے۔اسی طرح وہاں پہاڑوں میں موجود گوریلا کمانڈ میں سبطِ حسن کی کوئی ایک بات،کوئی ایک فقرہ ضرور ٹمٹماتا ملتا ہے۔میں نے تو سبطِ حسن کی تعلیمات کے الٹ چلنے والی سیاسی پارٹیوں کی مرکزی کمیٹیوں میں بھی اُس کے شاگرد دیکھے ہیں۔ دلچسپ ہے کہ بلوچستان میں بندوق اور بانسری بردار دونوں کے ہاتھوں میں سبطِ حسن رہاہے۔
مزیدماضی قریب کی طرف آئیے تو آپ کو بتاؤں کہ ابھی دو ماہ قبل ہمارا ایک دانشور ایسکائی لس کے شاہکار ڈرامے ’’ پرومیتھی اس باؤنڈ ‘‘ کے بلوچی ترجمہ میں مشکل محسوس کررہا تھا۔قدیم انگریزی کے موٹے اور نا آشنا الفاظ کے علاوہ وہ اس بات پہ سرگرداں تھا کہ ڈرامے میں دو کردار تھے، ایک کا نام فورس تھا اور دوسرے کا پاور۔۔ ان کا بلوچی میں بھلا کیا ترجمہ ہو۔ اس کی یہ پریشانی جلد ہی دور ہو گئی اس لیے، کہ اُسے کسی نے بتایا کہ وہ اِس ڈرامے کے آسان اردو ترجمہ سے مدد لے ،جو اُسے، نویدِ فکر نامی کتاب میں ملے گا۔
میں نے نئی نسل کی نوشین قمبرانی سے اچانک پوچھا کہ اس نے سبط حسن کو پڑھا؟ ، جواب تھا : ’’ ہاں ناں، موسی سے مارکس ، نہیں پڑھا ہوگا میں نے‘‘؟۔۔ مکران کے بوڑھے پروفیسر غنی پرواز نے کہا : ’’ جس قدر تیزرفتاری، جامعیت اور دلجمعی سے وہ لکھتا تھا، اسی قدر تیز رفتاری سے وہ مقبول ہو گیا‘‘ ۔ ۔۔۔ میرا اضافہ’’ سبط حسن نے پڑھنے کی اس وبا کو اور بڑھادیا جو کرشن چندر ، ساحر، جالب، فیض اور گل خان نے برپا کی تھی‘‘۔
سید سبطِ حسن جسمانی طور پر آسمان بلوچ کا تارا نہ تھا۔ وہ ہمارے کوہساروں کی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ نہ رکھتا تھا۔ مگر بلوچستان کا کونا کونا اس سخن دان سے بخوبی واقف تھا۔یہ شخص ہمارے صحرا کا آہو رہا، ہمارے موسم کا چکور بنا رہا ، ہمارے نظریات کا حوالہ بنا رہا۔۔
وجہ صرف یہ ہے کہ اس نے خاک میں پڑے لوگوں کو آگے کی جانب چلتے رہنے کی ترغیب دی۔ آگے کی جانب بڑھتے رہنے کے لیے راستہ دکھانے والے سکاؤٹ کا کام کیا۔ اس نے محکوم کو یقین کا جہاں تھما دیا تھا، قومِ ستم زدہ کے نحیف کنجشک کو شاہیں سے لڑنے کے لیے فکری پنجے مہیا کیے تھے۔ میں بلوچستان کے اندر بھوک اژدھا کے نگلے ہوئے اوربے چارگی میں لپٹے ہوئے بہت سے افراد کو جانتا ہوں ،جن کی اندھیر دنیا کو سبط حسن نے فکری روشنی مہیا کی۔ المیوں اور جبرِ پیہم سے گھرے ہوئے، اپنے آپ سے ناراض ، تشکیک زدہ اورسماج سے اکھڑی ہوئی بے شمار ارواح کو سبطِ حسن نے ،بیگانگی کے ذلت بھرے کھڈ سے نکال باہر کیا اور انھیں واپس اُن کے اپنے سماج کی کھونٹی سے لا کر باندھ لیا۔میں نے دکھ کے پکے رنگوں کو سبطِ حسن کی تعلیمات کے ہاتھوں عزم کے خالص جذبوں میں ڈھلتے دیکھا۔ میں نے اُسے کئی اذہان میں موجود وہم کے محل کو evaporate کراتے دیکھا۔ اس نے بلوچستان میں شعر و کلام کے مالک کو محض جبرِ زماں کے نوحے لکھنے کے بجائے یقینِ منزل کے ترانے لکھنے کا ماحول میسر کیا۔ سبط حسن کی کتابوں سے بلوچ سماج کے قافیے درست ہوئے، ردیفیں مسکرائیں۔مجھے یقین ہے کہ آج بھی روتے گوادر کی آنکھوں کا آنسو چوس، Battle of Ideas کے صفحات ہی میں ملے گا۔
یہ جو ڈنڈا بردار نقاب پوش خواتین کی تعداد کم ہے بلوچستان میں ، تویہ مستیں توکلی سے لے کر سبطِ حسن تک کے قبیل کے لوگوں کی مرہونِ منت ہے۔ یہ جو کوششوں دھمکیوں کے باوجود ہماراسماج، انتہا پسند نہیں ہورہا تو یہ بزنجو اور سبطِ حسن کے پیدا کردہ ماحول کے سبب ہے۔یہ جو ڈالروں ریالوں کی بارش کے باوجود، بلوچ سماج بنیاد پرست نہیں بن رہا ،تو اُس کے پیچھے سبطِ حسن جیسے شاشان پہاڑ کھڑے ہیں۔ یہ جو نیلی پیلی، اور سبز و لال مسجدوں میں، بلوچ کا نہ بٹنا ہے، یہ جو مریدکے نہیں سجتے اب تک میرے وطن میں ، اور یہ جو مزاروں کے غسال سیاست کار، اپنے قدم نہ جما سکے بلوچستان میں ، تو یہ انہی عالموں فلاسفروں کی تعلیمات کی برکت ہے۔ یہ جو کتاب و قلم کے ورکرز ،بلوچ کو آباؤ اجداد کی لوریاں سنا سنا کر شاونزم پھیلانے والوں کی راہ کی دیوار بنے نظر آتے ہیں، اوراپنے عوام کے ہاتھوں میں سائنسی مینی فسٹو تھمانے میں جتے ہوئے ہیں، وہ تصورسبط حسن ہی کا دیا ہوا ہے۔انہی بڑے لوگوں کی محنت کی وجہ سے عوام الناس نے سگ صفتوں کے سامنے گردن نہ جھکانا سیکھا ہے۔ ذہنی آبیاری کیے بغیر وقت کے قیصر سے کوئی نہیں الجھتا، خلعت فاخرہ کو کوئی نہیں ٹھکرا تا۔ افلاس کی ماری مخلوق کو ، فدوی اور فیض گنجور کے الفاظ استعمال نہ کرنے کی ترغیب کسی نے تو دی ہوگی۔۔۔ ہمارے عوام نے مست و گل خان، ساحرو کرشن اور سبط حسن و جلالپوری جیسے لوگوں سے، سمندر فروشوں سے پیار نہ کرنا ،سیکھا ۔ بلا شبہ ہمیں کتاب نے اتنا ہی زیادہ فائدہ دیا جتنا کہ ہماری اپنی سامراج دشمنی کی تاریخ نے۔
1991 کے بعد مجسمے ڈھائے جانے کی جو آندھی دنیا بھر میں چلی، اس نے بڑی بربادی بلوچستان میں کی۔ 2005 کے بعد تو اٹلی کے دانتے والا دوزخ، پورے کا پورا،بلوچستان شفٹ ہو چکا۔ سرکار اور بلوچ کی ہلاکت خیز و خوں افشاں لڑائی میں، لاشیں ماتمیںآنگنوں کا مقدر بنیں۔ متحارب فریق وفاداریوں کے بارے میں بہت حساس ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ جو جو لڑائی میں کام آیا سو آیا۔ مگر مورچے سے باہر’’ تم کس کے ساتھ ہو‘‘ ایک قاتل فقرہ بنا۔ واقعات کی تفصیل میں نہیں جاؤ ں گا بس یہ کہوں گا کہ رازق بگٹی سبطِ حسن سے سٹڈی سرکلیں لیتا تھا، فدا بلوچ سبط حسن کا پیروکار تھا، ، ڈاکٹر مالک بلوچ ابھی حال تک سبط حسن کے بلوچی تراجم کرنے کی مہم چلا رہا تھا، مولا بخش، ڈاکٹر اللہ نذر اور ذاکر مجید سبط حسن کے جملے بولتے تھے۔۔۔ اور ہمارا دلارا ادبی ورکر ، کامریڈ واحد بلوچ اگر لاپتہ نہ کیا جاتا تو وہ آج کسی سمیناری ہال کے باہر سبط حسن کی کتابوں کا سٹال لگایا ملتا۔ سوویت یونین کیا ٹوٹا کہ سبطِ حسن کے بیٹے ’’ وفادار اور غدار ‘‘ کے خونیں خانوں میں پٹخ دیے گئے۔
میں اس حقیقت کو مانتا ہوں کہ جب عوام الناس کی ایک آرگنائزڈ اور مقبول سیاسی پارٹی موجود نہ ہوتو سبطِ حسن اپنے قاری وزیر کو ، بیوروکریٹ کو، گوریلا لیڈر کو، اور ٹھیکیدار کو کرپشن اور ناجائزیت سے نہیں روک سکتا۔نہ ہی وہ اپنے مڈل کلاس دانشور کو موقع پرستی سے باز رکھ سکتا ہے۔ بلا شبہ کتاب کے بغیر انقلاب لانا، سنبھالنا اور اسے ترقی دینا بہت مشکل ہے ۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب محنت کشوں کی ایک منظم و مقبول سیاسی پارٹی موجود نہ ہو توسبطِ حسن کے قاری آپ کو بورژوا پارٹیوں کی منشی گیری کرتے نظر آئیں گے ہی۔ انسانوں کو ،سفر در سفر ریگزار کے دا ئرے سے نجات، تو ایک تحریک دیتی ہے۔ تحریک موجود نہ ہو تو کتاب کا رول گھٹ جاتا ہے۔تحریک موجود نہ ہو تو لوگوں کی حکومت کے بجائے سردار ہی وزارت اعلی کی باریاں لیتے ہیں۔ تحریک نہ ہو ، تو یادرِفتگاں میں فکرِامروز شامل ہی نہ ہو سکے گا۔
آج بلوچستان کی زلفیں ژولیدہ ہیں۔ بلوچ کی داڑھی کو کنگھی کا ہوش نہیں ہے۔ ہم صلیب و وفا کے ابدی دائرے میں، آج ذرا زیادہ غلطاں ہیں۔ہم خودکُشوں کے بموں کا شکار بھی ہیں، اور ہم، برادرکش خانہ جنگی کے خرابے میں بھی ڈوبے ہوئے ہیں۔ہماری سماجی صف بندی ذرا بدک گئی ہے۔ لائنیں کچھ بدنظم ہو گئی ہیں۔بدی کی طاقت عریاں ڈکراتی پھرتی ہے ۔کہکشاؤں کے سفر درپیش لوگ ،کھائیوں گڑھوں میں ،جاں گزیدہ پڑے ہیں۔اِن شب خونیوں ،شکوک و شبہاب ، عیش پرستی، تنہائی بے گانگی، بے توقیری ، اور بے بسی کا راستہ روکنے کے لیے جو لوگ ،محبتوں کا حصار باندھے کھڑے تھے،ایک ایک کرکے مرتے جارہے ہیں۔
چنانچہ خون سے لت پت شہروں وادیوں میں، بادام کے پھول کِھلنے میں ابھی ذرا دیر ہے۔ درد کی تحریک کے انمول موتی منظم ہونے میں ،ابھی کچھ اور دیر لگائیں گے۔
مگر وہ جب بھی رم ہوں گے تو ،تہی داماں ہر گز نہ ہوں گے۔ عشاق کے قافلوں کی گرد، اور حصولِ حسن کے قاتل رستے پر موجود صلیبیں ،اُن کا سنگِ میل ہوں گی۔ طاقِ دلِ خستہ پر پڑے سبطِ حسن کے نسخے اُن کے سپرد ہوں گے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے