ہم میں بھی نہیں وہ روشنی اب
اور تم بھی تمام جل بجھے ہو
دونوں سے بچھڑ گئی ہیں کرنیں
ویران اس شہر دِل کی راتیں
شاعر کے مندرجہ بالا اشعار میں مقصد ودرد جو بھی ہو مجھے اُس سے سروکار نہیں، میرا مقصد و درد کچھ اور ہے اُس مقصد و درد کی طرف کچھ سطریں لکھنے کے بعد آؤں گا۔
موت حقیقت ہے بلکہ سچی حقیقت ۔ حضورؐ نے فرمایا دنیا میں سب سے بڑا سچ موت ہے۔ جو جھٹلایانہیں جا سکتا ۔ دانشور علی عزت بیگووچ نے حقیقت کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے۔
زندگی ایک کھیل ہے جس میں کسی کی جیت نہیں ہوتی۔ سوائے اُن لوگوں کے جو مثبت سوچ رکھتے ہیں اور پھر اپنی روشن فکری کی بنیادوں پر اپنے اعمال صالح سے زندگی کی تعمیر کرتے ہیں۔ کیا آرزو کے بغیر زندگی کا تصور کیا جاسکتا ہے؟ کیا زندگی اور آرزو ایک ہی حقیقت کے دوروپ نہیں؟ ۔اگر تم اپنی خواہش پر غلبہ پانا چاہتے ہو یا اِس کی کوشش کرتے ہو تو پھر بھی یہ آرزو اپنی جگہ قائم رہے گی ۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ خیال اور آرزو کو روکا نہیں جاسکتا۔
ماما عبداللہ جا ن جمالدینی کی آرزو و تمنا اپنے اعمال صالح سے زندگی کی تعمیر اور روشن فکری کی بنیادوں پرتھا۔ تادِمِ اَ خیر انہی نقاط پر کوشش کی ۔ جو کہ سچی حقیقت کے لیے آگے کی طرف گامزن تھا ۔ ماما عبداللہ جان جمالدینی ہو، میر گل خان نصیر یا آزات جمالدینی، روشن فکری کی بنیادوں پر اعمال صالح حاصل کرنے کے خواہاں تھے اور اسی کے حاصل کرنے پر تگ و دو کررہے تھے۔
لوگ اور لوگوں کا ہجوم دو مختلف چیزیں ہیں۔ اہلِ بصیرت اِس بات سے بخوبی واقف ہیں جب لوگوں کی بڑی تعداد اپنے مقصد سے ہٹ جاتی ہے اور آگہی، سوز دروں اور اپنے آئیڈیل سے بیگانہ ہوجاتی ہے تو لوگوں کایہ جم غفیر ایک ہجوم میں بدل جاتا ہے ۔ مقصد کے بغیر لوگوں کا ایک ایسا ہجوم بن جاتا ہے۔ جن میں ہر ایک اپنی ذات کے لیے زندہ رہتا ہے ۔ اِس کے سامنے صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کس طرح کرنی ہے اور بس ۔۔۔۔۔۔ ! باقی جہاں تک اجتماعی خودی کی تشکیل اور اعلیٰ مقاصد کا حصول کا تعلق ہے یہ چیزیں خود غرض و کوتاہ بیں لوگوں کی نظر میں بے مقصد ہوجاتی ہیں۔ اِس نازک دور میں زندگی کے تعاقب میں رہنے والے روشن فکر اب بھی اپنے آئیڈیلز اور مقاصدکو ترجیح دیتے ہیں جبکہ لوگوں کا بے مقصد اور بے منزل جمِ غفیر ہر وقت اپنی ہوس کی پو جاکا متمنی رہتا ہے۔
لکھنے اور کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ماما عبداللہ جان اور ان کا بھائی آزات جمالدینی ذمہ داری اور کوششوں کے ساتھ اپنی نظریہ روشن فکری اعمال صالح کے لیے ہی زندہ رہے تھے۔ کسی ایک گھر یا فیملی میں رہنے والوں میں سے سب کے نظریے، سوچ، فکر میں ہم آہنگی نہیں ہوتی یہ دونوں بھائی مثالی ہیں ۔ جہاں دونوں کا ایک ہی نظریہ تھا ۔ فرق نہیں تھا۔ دونوں بھائیوں نے ایک تاریخ رقم کی ہے ادب کی تاریخ وہ بھی روشن فکری کی بنیاد پر۔
مثلاً بالزاک کو ہی لے لیجیے جس خوبصورتی اور فنکاری سے اس نے اپنے عہد کے فرانس کا نقشہ کھینچا ہے شاید اُس دور سے متعلق بیسوں کتابیں پڑھ کر بھی آپ کو اتنا مواد نہ ملے۔ وجہ یہ ہے کہ مورخ جب کسی دور کے بارے میں قلم اٹھاتا ہے تو اُس کے سامنے صرف بڑے بڑے واقعات، اِتفاقات، حادثات اور معاہدات ہوتے ہیں جن کا سہارا لے کر وہ اُس دور کی عکاسی کرتا ہے ۔ لیکن اِس کے برعکس ایک ادیب اپنے ناول میں اُس قوم کی معاشرت پر جس خوبصورتی سے نظر ڈالتا ہے اِسی مہارت سے اُس کے بارے میں لکھتا ہے۔ تاریخ میں سیاسی و معاشی صورتحال اہم تصور کی جاتی ہیں جبکہ ادیب کے سامنے واقعات کے بجائے افراد، اُن کے باہمی تعلقات نفسیاتی میلانات اور معاشرتی رویے ہوتے ہیں۔ جو مل کر اُس عہد کی تخلیق کرتے ہیں۔ ماما عبداللہ جان کی فکر انسان اور بلوچ معاشرے کے لیے تھا اور ہے۔ سرکاری دانشور جو وقتی مفادات کے لیے اپنے علم و دانش کو فروخت کرتے ہیں وہ وقت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں ۔ان کا کیریئر ان کے موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے مگر مزاحمتی دانشور کی زندگی اِس کے موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔
ماما عبداللہ جان جمالدینی ایک پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیق والا تھا ۔کسی دانشورنے کہا ہے زندگی میں ہر کھیل کے کوئی نہ کوئی اصول ہوتے ہیں جن کی پابندی کرنا لازمی ہے۔ اگر آپ زندگی کی دوڑمیں حصہ لینے کی متمنی رہیں۔ تو اس کے دو ہی راستے ہیں کہ یا پہلے سے وضع کردہ اصولوں پر کار بند رہیں یا پھر اپنی جدت کردار سے نئی دنیا تعمیر کریں۔
اِس دانشور نے آگے لکھ کر کہا ہے انسان کا مل نہیں ہوسکتا لیکن اِس کے حصول کے لیے جہدِ مسلسل تو کرسکتا ہے اور یہی اِس کے بڑے پن کا ثبوت ہے۔
ایک ادیب نے کہا ہے کہ مجھے کسی نے پوچھا اچھے مصنف کی خوبی کیا ہے ۔ میں نے کہا میرے نزدیک یہ بینائی اورPerceptiveness یعنی قوت مشاہدہ ہے۔
دنیا میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو آنکھیں بند کرکے تمام عمر گزار دیتے ہیں۔ وہ اِس بات سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے اردگرد کیا ہورہا ہے ۔ اِس کے برعکس ایک حقیقی مصنف کا رویہ اِس سے بالکل مختلف ہوتا ہے یعنی حساس جیسے کیمرے کی فوٹو پلیٹ۔
ماما عبداللہ جان ایک سیاستدان ہونے کے ناطے ایک روشن فکر ایک تخلیقی و تعمیر ی دانشورکا مطلب دوسرے عام دربار شاہی والے و حکمرانوں کے تنخواہ خوار والے دانشوروشاعر کے برعکس ہوتا ہے۔اس طرح کے معاشرے میں دانشورکا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔کیونکہ اس کے پاس علم کی طاقت ہوتی ہے ذہنی ، فکری اور شعوری پختگی ہوتی ہے اور اُن کی مدد سے وہ معاشرہ کی تبدیلیوں کا تجزیہ کرسکتا ہے۔ ایک معاشرہ کے لیے ایک آزاد دانشور ترقی پسند تحریکوں میں شامل ہوکر تبدیلی کے عمل کو تیز کرتا ہے اور حالات اور تاریخی عمل کا مشاہدہ کرکے اِسے مثبت انداز میں سیدھی سمت پر لے جانے کی حمایت کرتا ہے ۔ لٹ خانہ سے لے کر سنڈے پارٹی وہی تحریک کامحرک رہا۔
ماما عبداللہ جان نے سرکاری ملازمت(تحصیلداری) جو اُس وقت ایوبی دور میں اہم مقام (ملازمت سمجھا جاتا تھا،ٹھکرادی ۔
ہمارے معاشرے کی موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے ماما عبداللہ جان کی خدمات بحیثیت ایک روشن فکرانسان کے ناقابل فراموش ہونگی۔ سب سے بڑھ کر ایک بیوروکریٹ ہونے کی بجائے انہوں نے پروفیسر ہونے کو ترجیح دی اور ایسا سوچ و فکر کے مطابق بحیثیت ایک پروفیسر ہونے کو پسند کیا جو کہ فرسودہ روایات کے خلاف آواز بلند کرتا رہا۔
یہ تھا ماما عبداللہ جان کی عملی زندگی کا روشن پہلو ۔ نئی نسل کو روشن فکر کے حوالے سے ڈھیر مقدار میں ایندھن فراہم کیا جو کہ روبہ عمل ہے اوررہے گا ۔آنے والی نسل اِن جیسے لوگوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرے گی۔۔۔۔۔۔۔
غالباً 1990 تا1991 میں یعنی آج سے کوئی 25 یا 26 سال پہلے کا واقعہ ہے۔ 1991میں افغانستان کا مشہور و عظیم گلوکار ڈاکٹر محمد صادق ناشناس ایک گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ اول لیکچرار اور بعد میں پروفیسر ہونے کے مقام پر تعینات ہوا اور بعد میں پی ا یچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر صادق فطرت ناشناس اپنی جلا وطنی کے وقت افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آیا۔ پاکستان اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس میں جس میں ماما عبداللہ جان بھی مدعو تھا۔دوران کانفرنس ماما عبداللہ جان کی ملاقات ڈاکٹر ناشناس سے ہوئی ۔ جہاں دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ بہت جلد under standingکا ماحول پیدا ہوگیا۔ شاید یہ قربت و میل جول ماما عبداللہ کے ( مرحوم بھائی) عبدالواحد آزاد جمالدینی کی وجہ سے ہوئی ہوگی۔ کیونکہ ریڈیو کا بل کے اُس وقت کے بلوچی پروگرام میں بانک پروین اور دوسرے گلوکارآزاد جمالدینی کے اشعار کو سوت و زیمل کے ساتھ گاتے تھے۔ اسی طرح آزاد جمالدینی و گل خان نصیر کے ترانوں کو نشر کرتے۔ بہر حال ڈاکٹر ناشناس کے امریکہ جانے کے بعد ماما عبداللہ جان اور ڈاکٹر ناشناس کا میل جو ل خط و کتابت کی شکل میں پروان چڑھا۔ امریکہ سے ڈاکٹر صادق فطرت ناشناس نے ماما عبداللہ جان کے لیے دو عدد افغانی کیسٹ بطور عطیہ بھیجے۔ انہی کیسٹوں میں ایک افغانی رباب کا کیسٹ ماما عبداللہ جان نے مجھ نا چیز کے لیے بمعہ اُن کی لکھی کتاب ’’مُرگ مینا ‘‘کے نام سے عنایت کی۔ یہ آج سے کوئی پچیس چھبیس سال پہلے کی بات ہے ۔یہ آڈیو کیسٹ میں تقریباً تقریباً بھول چکا تھا۔ جس دن ماما عبداللہ جان اِس دنیا فانی سے کوچ کر گیا ان کے جانے کے ایک دو دن بعد وہ تحفہ مجھے ایسے یاد آگیا جسے اُسی دن ماما نے مجھے اپنے ہاتھوں سے تھما دیا ہو۔
اب میں کبھی بھی اُس تحفہ( کیسٹ) کو نہیں فراموش کرسکتا۔ کبھی بھی نہیں ۔