بلوچستان اور بلوچستان ریاستی یونین کے متعلق ہفتہِ سبی کے دوران ریاستی یونین کے قبائلی سرداروں کی طرف سے ایجنٹ گورنر جنرل بلوچستان کو جو عرضداشت پیش کی گئی ہے اس سے بلوچستان اور ریاستی یونین کی سیاسیات کا متاثر ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ لیکن اس اہم اور سنگین مسئلہ کو سنجیدہ غورو فکر کی بجائے سطحی اور جس خالص جذباتی انداز میں سلجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے سیاسی شعور کے فقدان اور خلوص و دیانت کے زنگ آلود ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ سرداروں کی اس تحریک سے جس کی تہہ میں خود حکومت کا اشارہ کر فرما ہے والیانِ ریاست کا دو وجوہات کی بناء پر سیخ پا ہونا خلاف توقع نہیں۔ اول تو یہ کہ مجوزہ اتحاد سے والیان ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو شدید خطرہ لا حق ہو گیا ہے ۔ دو ئم یہ کہ وہ ہر قسم کی نمائندگی کو اپنے لئے محفوظ تصور کرتے ہیں لیکن عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے مصلحت بین ‘موقع پرست‘ اور طالع آزما لوگوں کی طرف سے والیان ریاست کے مفاد کی خاطر سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں یقیناً افسوسناک ہیں۔ اس سلسلہ میں مختلف لوگوں کی طرف سے پمفلٹوں کی اشاعت مفاد پرستی اور عوامی مفاد سے مجرمانہ گریز کی بد ترین مثالیں ہیں ۔
بلوچستان اور ریاستی یونین کے اتحاد کی تحریک سے سرکاری حکام کی غیر معمولی دلچسپی کا مقصد اگر بلوچستان میں اصلاحات کے نفاذ اور یونین میں انتخابات کو مزید عرصہ تک التواء کی نذر کرنا نہیں ہے تو پھر اس تجویز کی تفصیلات سے عوام کو بے خبر رکھنا اور بلوچستان کا مستقبل معین کر کے اپنے آپ احساسات سے بے نیاز رہنا ایک ایسی کوتاہی ہے جن سے مفاد پرستوں کو عوام کے ذہنوں کو زہر آلود کر کے حکومت کو اس بات پر مجبور کرنے کا موقع ملتا ہے کہ وہ مفاد پرستوں کی شرائط تسلیم کرے۔ ریاستی یونین کے قیام کے وقت بھی اس قسم کی غٖلطی کا ارتکاب ہوا تھا اس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ والیانِ ریاست اور نوکر شاہی کے گٹھ جوڑ سے یونین کے عارضی آئین کے ان دفعات کو التوا میں ڈال دے گا جن کا تعلق عوامی حقوق یا عوامی فلاح و بہبود سے ہے کیونکہ یونین میں مجلس قانون ساز کا قیام اگر والیان ریاست کو نا گوار ہے تو پبلک سروس کمیشن کے قیام سے نوکر شاہی کی خویش پروری اور اقربا نوازی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ یونین میں دو سال کے طویل عرصے میں والیانِ ریاست کی ہر جائز و نا جائز خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور نوکر شاہی کو بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے مواقع بہم پہنچائے گئے ہیں۔ اگر کوئی چیز تشنہِ تکمیل ہے تو وہ مفلس و بے خانمان عوام کی آبادی اور فلاح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اعتبار سے مطمئن والیانِ ریاست ایک نئی تبدیلی کے خوف سے بوکھلا اٹھے ہیں اور ان کے ترجمان مفلوج ذہنیت کا ثبوت دے کر مضحکہ خیز مطالبات کے ذریعے ان کی تسکین کا سامان فراہم کر رہے ہیں ۔
’’مسئلہ بلوچستان اور اس کا واحد حل اور ریاست ہائے متحدہ بلوچستان کے مستقبل کا سوال مسئلہ کشمیر کی روشنی میں ‘‘کے عنوان سے جو پمفلٹ شائع کئے گئے ہیں ان کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ والیانِ ریاست کا اقتدار بحال رہے، ان کے جبر و سطوت میں فرق نہ آئے اور ان کی مطلق العنانی برقرار رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس جمہوری دور میں کوئی بھی ذی ہوش لاکھوں افراد کی نعشوں سے چند لوگوں کے لئے پر شکوہ محلات کی تعمیر کی حماقت نہیں کر سکتا۔ اس لئے ہمیں یقین ہے کہ کوئی سمجھدار فرد جو والیوں سرداروں اور موجودہ قبائلی نظام کی عوام دشمنی سے واقف ہے ایسے فرسودہ نظام کو مزید ایک لمحہ کے لئے بھی عوام پر تھوپنے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا ۔ والیانِ ریاست ،سرداروں اور اس فرسودہ نظام کے خاتمہ سے یونین کے ننگے ، بھوکے تباہ و برباد عوام کو اپنی غلامی کی زنجیریں کھونے کے علاوہ اور کوئی نقصان نہ ہو گا۔ بھلا زنجیروں کے علاوہ ان کے پاس کھونے کے لئے رکھا ہی کیا ہے جس کا انہیں ڈر ہو ۔ مستجار علاقوں کی واپسی کا جس انداز میں مطالبہ کیا جا رہا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسے حیوانوں کی آبادیاں ہیں جنہیں ان کا مالک جب چاہے گروی رکھے ‘اجارہ پر دے، یا فروخت کر دے۔ لیکن ہمیں ان علاقوں میں آباد انسانوں کے جذبات و احساسات کا احترام ہے۔ ہم نہ تو انہیں کسی فرد کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اس مطالبہ کے ذریعے سودا بازی کو جائز قرار دے سکتے ہیں یا سنڈیمن کا حوالہ دے کر بلوچستان کی نئی تشکیل کا دعویٰ نہیں کرنا ہے۔ ہمارے نزدیک لاکھوں ستمزدہ بلوچ عوام کی مصیبتوں کا واحد حل صحیح معنوں میں عوام کے دکھوں کے علاج کے لیے بلوچستان کی قومی و لسانی بنیادوں پر تشکیل ہے ۔ ہمارا مقصد لوگوں کو کسی پر فریب تخیل سے مسحور کر کے اور ان کے جذبات کو ابھار کر انہیں خود کشی پر آمادہ کرنا نہیں ہے ۔اس لئے ہم الفاظ کا سہارا لے کر عہد ناموں کے حوالے سے چند ایسے با اقتدار لوگوں کی ترجمانی کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں جو لاکھوں انسانوں کی تباہی و بربادی کا موجب‘ ان کی بد حالی و پسماندگی کا سبب اور ان کی ترقی و خوشحالی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم اپنے چند دوستوں سے اختلاف اور خداوندانِ اقتدار کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں جس سے ان کی جبینوں کا شکن آلود ہونا یقینی ہے۔ لیکن ہمیں اپنے موقف کی صحت پر اعتماد اور اپنے خلوص پر یقین ہے ۔ ہمارا موقف کسی تعصب یا طبقاتی منافرت پر مبنی نہیں بلکہ ہمارے نزدیک اس خطہِ ملک کے روشن مستقبل کا انحصار اس پر ہے کہ لسانی اور تہذیبی بنیادوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچ قوم پر مشتمل بلوچستان کے نام سے ایک وحدت قائم کی جائے۔ اس وحدت میں یونین‘ مستجار اور قبائلی علاقوں کی تفریق ختم کی جائے ۔ والیوں ، نوابوں اور سرداروں کے امتیازی حقوق ختم کر کے ان کے وظائف بند کر دیئے جائیں ۔ اس نئی وحدت کو بھی فوری طورپر وہی صوبائی خود مختاری دی جائے جو اس وقت پاکستان کے دوسرے صوبوں کو حاصل ہے۔ لوگوں کی فرسودہ مزاجی‘ کوتاہ بینی ، غلط کاری اور قدامت پرستی نے اس سرزمین کے مصائب میں اضافہ کر دیا ہے۔ ہمیں ان سے کچھ نہیں کہنا ہے۔ ہمارے مخاطب تو وہ نوجوان ہیں جنہیں مستقبل کی تاریکیوں میں اپنے وجود سے اجالا کرنا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اس مسئلہ کی اہمیت اور اس کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے وہی راستہ منتخب کریں گے جو آگے کی طرف بڑھتا ہو۔ دنیا میں سب سے زیادہ جوانمردی یہ ہے کہ جب چند مفاد پرست افراد قوم کو گمراہی کے گڑھے میں دھکیلنا چاہیں تو اس وقت سینہ تان کر سچی بات کہہ دی جائے ۔
(تعمیر بلوچستان 15 اپریل 1954۔ صفحہ 55-58)

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے