بہار کا موسم ہے، سورج آ ب و تاب سے فروزاں ہے، ہر شخص مسرور او رشادماں ہے ، یہاں تک کہ پرانے پتھر کے مکانوں کی کھڑکیاں بھی مسکراتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ۔
تہواری کپڑوں میں ملبوس لوگوں کا مجمع ایک رنگا رنگ دھارے کی طرح شہر کی سڑکوں پر امڈا چلا آ رہا ہے۔ پورا شہر یہاں موجود ہے۔ مزدور ، سپاہی ، درمیانے طبقے والے، پادری ، افسر ، مچھیرے ۔ سبھی نشۂ بہار سے خفیف سا مخمور ہیں، زور زور سے باتیں کر رہے ہیں ، ہنس رہے ہیں اور گا رہے ہیں اور سب۔۔۔ ایک تندرست جسمِ واحد کی طرح ۔۔۔ زندہ ہونے کی مسرت سے پھٹے پڑ رہے ہیں ۔
عورتوں کی رنگ برنگی چھتریاں اور ٹوپیاں او ر بچوں کے ہاتھوں کے لال اور نیلے غبارے عجیب و غریب غیر معمولی پھولوں سے مشابہ ہیں ۔ اور کسی پریوں کی کہانی والے بادشاہ کی بھڑک دار پوشاک میں ٹکے ہو ئے بیش قیمت ہیرے جواہرات کی طرح چمکتے جوت پھیلاتے ہوئے ، ہنستے کھیلتے بچے۔۔۔ وہ دھرتی کے مگن اور مسرور راجہ ۔۔۔ ہر جگہ موجود ہیں ۔
درختوں کی ہلکے سبز رنگ کی کونپلیں ابھی پھوٹی نہیں ہیں ، ننھی منی منہ بند کو نپلیں سورج کی گرم شعاعوں کو بڑے اشتیاق سے پی رہی ہیں۔ دور کہیں سازبج رہے ہیں اور ان کی موسیقی اپنے قریب آ نے کی دعوت دے رہی ہے۔
آ دمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انسانی رنج و مصیبت قصہ پارینہ ہو گیا، گویا اس کٹھن زندگی کا جسے وہ ابھی تک سہہ رہے تھے کل خاتمہ ہو گیا اور آ ج ہر شخص بچوں کی مانند تروتازہ اور بے فکر اٹھا ہے۔ ہر شخص ایک مستحکم اور صحت مند خود اعتمادی کے احساس سے بھر پور ہے۔ ہر شخص کو اپنی ناقابل تسخیر قوت ارادی پر بھروسہ ہے جس کے سامنے ہر چیز کو سر جھکانا پڑے گا اور اب سب پُر یقین اور دوستانہ انداز سے ایک ساتھ مستقبل کی جانب چلے جا رہے ہیں ۔
اور اس خوش باش اور چونچال مجمع میں ایک دراز قد ، مضبوط شخص کا غمگین چہرہ نظر آ نا جو ایک نوجوان عورت کے بازو میں بازو ڈالے جا رہا تھا، ایک عجب اور تکلیف دہ اور افسوسناک سی بات تھی ۔ وہ تیس سال سے زیادہ کا ہرگز نہیں ہو گا لیکن ا س کے بال سفید ہو گئے تھے۔ وہ اپنا ہیٹ ہاتھ میں لئے ہوئے تھا اور اس کا گول نقرئی سر پورا نظر آ ہا تھا ۔ اس کے دبلے پتلے ، صحت مند چہرے پر ایک پر سکون لیکن غمگین رنگ چھایا ہوا تھا اور اس کی بڑی بڑی سیاہ آ نکھیں ، جنہیں ان کی پلکوں نے آ دھے کے قریب چھپا رکھا تھا، ایک ایسے شخص کی آ نکھیں تھیں جو ناقابل فراموش درد والم سہہ چکا ہے۔
’’اس جوڑے کو غور سے دیکھو‘‘ میرے دوست نے مجھ سے کہا ’’خاص طور پر مرد کو۔ یہ ایک ایسے المیے کا شکار ہے جو شمالی اٹلی کے مزدوروں کے درمیان روز افزوں عام ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
اور اس نے مجھے یہ کہانی سنانی شروع کی۔
اس نے بتایا کہ یہ آ دمی سوشلسٹ ہے اور ایک مقامی مزدوروں کے اخبار کا ایڈیٹر ۔ یہ خود بھی ایک مزدور ہی ہے، اس کا پیشہ ہے مکانوں پر رنگ و روغن پھیرنا ۔ یہ اس قسم کے لوگوں میں سے ہے جن کی فطرت علم کو ایمان سمجھتی ہے اور جن کے لئے ایمان علم کی پیاس بڑھاتا ہے ۔ یہ ایک پرجوش اور ذہین دشمنِ کلیسائیت ہے۔ دیکھتے ہو یہ سیاہ پوش پادری اس کی طرف کس قدر قہر آ لود نگاہیں ڈال رہے ہیں !
کوئی پانچ سا ل کا عرصہ ہوا ایک سٹڈی سر کل میں جسے وہ ایک پرچارک کی حیثیت سے چلا رہا تھا اس کی ملاقات ایک نو عمر لڑکی سے ہوئی ۔ یہاں عورتوں کو خدا پر اندھا اور اٹل ایمان رکھنے کی تعلیم دی جاتی ہے، پادری صدیوں سے ان میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کی سعی کرتے چلے آ ئے ہیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ کیتھولک کلیسا کی تعمیر عورتوں کے سینوں پر ہوئی ہے ۔ کنواری مریم کی پرستش صرف کافرانہ معنی میں خوبصورت ہی نہیں ہے ، یہ ایک بہت ہوشیاری کا مسلک ہے۔ کنواری مریم مسیح سے زیادہ سادہ ہیں ، وہ دلوں سے زیادہ قریب ہیں ، وہ کسی اندرونی کشمکش سے دوچار نہیں ہیں ، وہ ناز جہنم کی دھمکی نہیں دیتیں ، وہ عفو اور محبت اور ترحم کی مورتی ہیں ۔ ان کے لئے کسی عورت کے دل کو زندگی بھر کے لئے مسخر کر لینا بہت آ سان ہے۔
لیکن یہاں وہ ایک لڑکی سے ملا جو سوال کرنے اور اپنی بات کہنے پر قادر تھی اور اس آ دمی نے محسوس کیا کہ اس کے سوالوں میں صرف اس کے ۔ ۔۔پر چارک کے۔۔ ۔ خیالات پر سادہ لوحی کا تحیر اور تعجب ہی نہیں جھلکا تھا بلکہ ان میں اس کے لئے ایک چھپی ہوئی بے اعتمادی بھی ہوتی تھی جس میں اکثر خوف اور کراہیت تک کی آ میزش ہوتی تھی ۔ اطالوی پر چارک اس بات پر مجبور ہے کہ مذہب کے متعلق بہت زیادہ بات چیت کر ے اور اسے اکثر پوپ اور پادریوں کے خلاف سخت الفاظ بھی استعمال کرنے پڑتے ہیں ۔ اور ہر دفعہ جب وہ اس کے متعلق کچھ کہتا تھا تو وہ لڑکی کی نگاہوں میں اپنے لئے نفرت اور حقارت کے جذبات دیکھ سکتا تھا اور جب وہ اس سے کوئی سوال پوچھتی تھی تو اس کے الفاظ میں ایک معاندانہ کھنک ہوتی تھی اور اس کی ملائم آ واز میں زہر بھر جاتا تھا۔ یہ صاف ظاہر تھا کہ وہ کیتھولک کلیسا کی ان تمام کتابوں سے خوب اچھی طرح واقف تھی جو سوشلزم کے خلاف لکھی گئی تھیں ، اور اس سٹڈی سرکل میں ظاہر بظاہر اس کی باتیں خود اس آ دمی کی باتوں سے کم دل چسپی کے ساتھ نہیں سنی جاتی تھیں ۔
یہاں اٹلی میں عورتوں کی طرف روس سے کہیں زیادہ نا شائستہ اور بھونڈا رویہ ہے اور ابھی کچھ ہی دن پہلے تک خود اطالوی عورتیں اس سلسلے میں بڑی حد تک قابل الزام تھیں ۔ وہ کیتھولک کلیسا کے علاوہ اور کسی چیز میں دل چسپی نہیں لیتیں اور اپنے مردوں کے تہذیبی مشاغل کے اگر خلاف نہیں ہیں تو کم از کم اس سے بے نیاز تو ضرور ہیں اور اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتی ہیں ۔
ہمارے دوست کی مردانہ خود پسندی کو ٹھیس پہنچی اور اس کی اس نوجوان لڑکی کے ساتھ جو ٹکریں ہوتی تھیں ان کی وجہ سے اس کی اس شہرت کو کہ وہ ایک مشاق پر چارک ہے نقصان پہنچا ۔ بعض اوقات اسے بہت غصہ آ جاتا تھا ور کئی دفعہ اس نے اس لڑ کی کی دلیلوں کا بڑی کامیابی سے مذاق اڑایا لیکن لڑکی نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا، اور اس کی مرضی کے خلاف اس کے دل میں اپنی عزت پیدا کر دی اور اسے ان کلاسوں کے لئے خاص توجہ سے تیاری کرنے پر مجبور کر دیا جن میں وہ بھی شامل ہوتی تھی۔
لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس آ دمی نے یہ بھی غور کیا کہ جب کبھی بھی وہ موجود زندگی کی شر مناکیوں کے بارے میں بات کرتا تھا اور بتاتا تھا کہ وہ زندگی کس طرح انسان کو پست اور مضمحل کرتی ہے اور کس طرح اس کے جسم و روح کو مفلوج کرتی ہے یا جب وہ مستقبل کی زندگی کی تصویر کھینچتا تھا جب انسان جسمانی و روحانی دونوں اعتبار سے آ زاد ہو گا تو اس وقت اس کی مدمقابل کے اندر ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہو جاتی تھی ۔ وہ اس کی باتیں ایک ایسی مضبوط اور ذہین عورت کے سے غیض و غضب کے ساتھ سنتی تھی جو جانتی ہو کہ زندگی کی زنجیریں کس قدر و زنی ہو سکتی ہیں اور دوسری طرف وہ ایک ایسے بچے کے سے پر اعتماد اشتیاق کے ساتھ اس کی باتیں سنتی تھی جو کوئی بے حد عجیب اور عمدہ پریوں کی داستان سن رہا ہو جو خود اس کی مسحور روح کے ساتھ ہم آ ہنگ ہو۔
تقریباََ سا ل بھر تک ان دونوں میں یہ رسہ کشی چلتی رہی اور دونوں میں سے ایک کے دل میں بھی اس دوران میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ ایک دوسرے سے زیادہ بہتر طور پر واقف ہونے کی کوشش کریں اور اپنے بحث مباحثہ کو روبہ رو ہو کر آ گے چلا ئیں ۔ لیکن آ خر کار وہ شخص ہی اس لڑکی کے پاس پہنچا ۔
’’محترمہ میری مستقل مد مقابل ہیں ‘‘ اس نے کہا ’’کیا محترمہ کا یہ خیال نہیں ہے کہ اس مقصد کے مفاد میں یہ بات اچھی ہو گی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے جانیں ؟‘‘
وہ خوشی سے تیار ہو گئی اور تقریباََ فوراََ ہی ان لوگوں کی جنگ شروع ہو گئی ، وہ جوش و خروش سے کلیسا کی حمایت کر رہی تھی کہ وہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان کی کرب آ شنا روح کو سکون و راحت مل سکتی ہے، جہاں رحیم و کریم کنواری مریم کی نگاہوں میں سب برابر ہیں سب رحم اور عفو کے مستحق ہیں خواہ ان کے لباس ایک دوسرے سے کتنے ہی مختلف ہوں ۔ اوروہ یہ اعتراض کر رہا تھا کہ انسان کو سکون اور آ رام کی ضرورت نہیں ہے ، اسے ضرورت ہے جدوجہد کی ، اوروہ کہہ رہا تھا کہ مادی منافع کی برابری کے بغیر سماجی برابری ناممکن چیز تھی اور کنواری مریم کے پیچھے ایسے انسان گھات لگائے بیٹھے تھے جن کا فائدہ اسی میں تھا کہ لوگوں کو عقل اور مسرت سے محروم رکھا جائے ۔
اس وقت سے یہ بحث و مباحثے ان کی پوری زندگیوں پر چھا گئے ۔ ہر ملاقات اسی ایک جوشیلی دلیل کے سلسلے کی اگلی کڑی ہوتی تھی اور ہر نئے دن کے ساتھ یہ بات روزافزوں طور پر واضح ہوتی چلی گئی کہ ان دونوں کے عقیدے کبھی بھی ہم آ ہنگ نہیں ہو سکتے ۔
اس نوجوان کے لئے زندگی کا مطلب تھا جستجوئے علم اور فطرت کی پر اسرار قوتوں کو ارادہِ انسانی کے تابع کرنے کی جدوجہد ۔ اس کا کہنا تھا کہ سب لوگ اس جدوجہد کے لئے مساوی طور پر مسلح ہونے چاہییں جس کا نقطہ عروج عقل کی فتح اور آزادی ہو گا۔ اس عقل کی جو دنیا کی عظیم ترین قوت ہے اور وہ واحد قوت ہے جو باشعور طور پر عمل کرتی ہے ۔ اس لڑکی کے لئے زند گی ایک انجانی قوت کے حضور میں ایک کرب آ گیں قربانی تھی، عقل کو ایک ایسے مخصوص ارادے کے تابع کر دینے کا نام تھی جس کے قانون اور جس کی منزل مقصودکو صرف پادری ہی جانتے ہیں ۔
’’تو پھر تم میرے لکچر سننے کیوں آتی ہو ؟‘‘۔ اس نے حیران ہو کر دریافت کیا ۔ ’’تمہیں سوشلزم سے کیا توقعات ہیں ؟‘‘
’’اوہ، میں جانتی ہوں کہ میں یہ گناہ کر رہی ہو ں ، مجھے معلوم ہے کہ میں اپنی بہتر اور صائب رائے کے خلاف عمل کر رہی ہوں ‘‘ اس نے غمگین ہو کر اعتراف کیا ۔’’ لیکن تمہاری باتیں سننا اور اس دھرتی کے سارے باسیوں کے لئے خوشی اور مسرت کے امکان کے خواب دیکھنا بڑا اچھا ہوتا ہے!‘‘۔
وہ کوئی خاص خوبصورت نہیں تھی۔ وہ ایک دبلی پتلی ، ذہین چہرے اور بڑی بڑی آ نکھوں والی لڑکی تھی جس کی نگاہیں ملائم اور غضب ناک ، شفقت آمیز اور سخت سبھی ہو سکتی تھیں ۔ وہ ایک ریشم کے کارخانے میں کام کرتی تھی اور اپنی بوڑھی ماں ، اپاہج باپ اور چھوٹی بہن کے ساتھ رہتی تھی جو ایک ٹریڈ سکول میں تعلیم پا رہی تھی۔ بعض اوقات وہ شوخ اور بشاش بھی ہو جاتی تھی ، لیکن پر شور طریقے پر نہیں بلکہ نہایت دلکش انداز سے۔ وہ میوزیموں اور پرانے گرجاؤں کی عاشق تھی، تصویروں اور خوبصورت چیزوں سے اسے ایک خاص حظ حاصل ہوتا تھا اور ان کو دیکھ کر وہ کہا کرتی تھی:
’’یہ سوچ کر بڑا ہی عجیب سا احساس ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں یہ حسین چیزیں لوگوں کے ذاتی گھروں میں مقفل تھیں اور صرف کسی ایک فرد واحد کو ان سے لطف اندوز ہونے کا حق حاصل تھا! ۔حسین چیز سبھی کے دیکھنے کے لئے ہونی چاہیے ، صرف اسی صورت میں وہ اصلی معنی میں جیتی ہے!‘‘۔
وہ اکثرا تنی عجیب طرح سے باتیں کرتی تھی کہ اس پر چارک کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس کے الفاظ کسی پوشیدہ روحانی کرب کے سوتے سے نکلتے ہیں کیونکہ وہ اسے ایک زخمی آ دمی کی کراھوں کی یاد دلاتے تھے۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ اس لڑکی کو زندگی سے اور انسانوں سے ایک ماں کی سی گہری محبت ہے۔ ایک فکر مندی اور خیال اور ترحم سے بھر پور محبت ۔ وہ صبر سے اس لمحے کا انتظار کرتا رہا جبکہ خود اس کا ایمان و یقین اس لڑکی کے دل کی اس چنگاری کو بھڑکا دے گا جو اس کی نرم و ملائم محبت کو ایک جذبہ بے تاب میں تبدیل کر سکے گی۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی باتوں کو رو ز افزوں اشتیاق کے ساتھ سننے لگی تھی اور دل ہی دل میں وہ اس سے متفق ہو چکی تھی۔ اور وہ ہمیشہ سے بھی زیادہ شعلہ نوائی کے ساتھ اسے بتانے لگا کہ انسانیت کو ان پرانی زنجیروں سے آ زاد کرنے کی ان تھک جدوجہد کس قدر ضروری ہے جن کا زنگ انسان کی روح کو تباہ و برباد اور مسموم کر رہاتھا ۔
ایک دن جب وہ لڑکی کو اس کے گھر تک پہنچا رہا تھا اس نے کہہ ہی ڈالا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اور شادی کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس لڑکی پر اپنے الفاظ کا تاثر اور ردعمل دیکھ کر وہ ڈر سا گیا۔ وہ کچھ ا س طرح جھجکی اور گھبرائی جیسے اس نے اس کے تھپڑ مار دیا ہو۔ اس کی آ نکھیں پھیل کر چوڑی ہو گئیں اور چہرہ سفید پڑ گیا۔ وہ سہارے کے لئے دیوار سے لگ گئی، اس کے ہاتھ پیچھے چھپے ہوئے تھے۔
’’مجھے پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا ‘‘۔ اس نے کہا ، اس وقت اس کے چہرے پر کچھ دہشت سے ملتی جلتی کیفیت طاری تھی۔ ’’ میں نے یہ بات محسوس کر لی تھی کیونکہ میں بھی تم سے ایک عرصے سے محبت کر رہی ہوں ۔ لیکن ہم کیا کریں گے، اوہ خدایا !‘‘
’’ہم ، میں اور تم ، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش و خرم رہیں گے اور ہم دونوں شانہ بشانہ کام کریں گے! ‘‘ وہ چلایا ۔
’’نہیں !‘‘ لڑکی نے کہا اور اس کا سر نیچے ڈھلک پڑا۔ ’’نہیں ! ہم دونوں کے درمیان محبت کی بات ہی نہ آ نی چاہیے !‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’کیا تم مجھ سے گرجا میں شادی کرو گے؟‘‘ اس نے دھیرے سے پوچھا ۔
’’نہیں !‘‘
’’تو خدا حافظ !‘‘
اور وہ تیزی سے اس سے دور چلی گئی ۔
وہ اس کے برابر پہنچ گیا اور اس کی منت سماجت کرنے لگا۔ وہ خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی اور پھر بولی :
’’میں ، میری ماں، میرے باپ ہم سب مذہبی لوگ ہیں اور مرتے دم تک مذہبی ہی رہیں گے ۔ مجسٹریٹ کی کرائی ہوئی شادی میرے نزدیک شادی نہیں ہے ۔ میں جانتی ہوں کہ ایسی شادی کے بعد پیدا ہونے والے بچے لازمی طور پر بد قسمت ہوں گے۔ فقط گرجا میں کی ہوئی شادی محبت کو پاک اور پوتر کر سکتی ہے ، صرف ایسی ہی شادی سکون اور مسرت بخش سکتی ہے۔‘‘
اس نے دیکھ لیا کہ وہ آ سانی سے ہار ماننے والی نہیں ہے لیکن اس سوال پر خود وہ بھی نہیں جھک سکتا تھا۔ وہ ایک دوسرے سے رخصت ہو گئے ۔ اس کو خدا حافظ کہتے وقت لڑکی نے کہا:
’’ہم ایک دوسرے کو کیوں دکھ دیں ! آ ئندہ مجھ سے ملنے کی کوشش نہ کرنا۔ اوہ، کاش تم یہاں سے چلے جاؤ ! میں تو جا نہیں سکتی ، میں بہت غریب ہوں ۔۔۔‘‘
’’میں تم سے کسی قسم کا وعدہ نہیں کر سکتا ۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔
اور ان دو مضبوط افراد کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی۔ ظاہر ہے وہ ملتے رہے اور پہلے سے بھی زیادہ ملتے رہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے تھے کیونکہ وہ ملاقات کے خواہش مند تھے ۔دونوں کو اپنی اپنی جگہ یہ امید تھی کہ شاید دوسرا فریق اس محروم صلہ ، روز افزوں بھڑکتے اور بڑھتے ہوئے جذبے کے جاں کاہ درد کی تاب نہ لا سکے۔ ان کی ملاقاتیں کرب اور مایوسیوں سے پر ہوتی تھیں ۔ ہر دفعہ اس آ دمی کو تو بے بسی اور شکستگی کا احساس ہوتا تھا اور وہ روتی ہوئی اعتراف کرنے گرجا چلی جاتی تھی۔ اور اس نوجوان کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ سر منڈے پادریوں کی سیاہ دیواردن بہ دن اونچی اور خوفناک ہوتی جا رہی ہے اور اس سے اندیشہ ہے کہ ان کو ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے جدا کر دے گی۔
ایک دفعہ کسی چھٹی کے دن، جب وہ شہر سے باہر ایک مرغزار میں ٹہل رہے تھے تو اس نے لڑکی سے کہا:
’’بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں تمہیں قتل کر سکتا ہوں ۔‘‘ یہ دھمکی نہیں تھی ، وہ محض بہ آ واز بلند سوچ رہا تھا ۔
وہ خاموش رہی
’’تم نے سنا میں نے کیا کہا؟ ‘‘
’’ہاں ۔‘‘ وہ اس کے چہرے کو محبت بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی ۔
اور اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ لڑکی مر جائے گی مگر اس کے سامنے ہار ماننے کوتیار نہیں ہو گی۔ اس ’’ہاں‘‘ سے پہلے اس نے کبھی کبھی اسے آ غوش میں لیا تھا اور پیار کیا تھا۔ وہ تھوڑی مزاحمت ضرور کرتی تھی لیکن اس کی مزاحمت اور مخالفت کچھ کمزور پڑ جاتی تھی اور اسے یہ امید ہونے لگی تھی کہ ایک نہ ایک دن وہ اس کی بات مان جائے گی ور اسے خیال تھا کہ لڑکی کی نسوانی جبلت خود اس کو مسخر کرنے میں اس کی مد دگار ثابت ہوگی ۔ لیکن اب اس نے سمجھ لیا کہ وہ فتح نہیں ہو گی، حلقہ بگوشی ہو گی اور اس کے بعد سے اس نے لڑکی کی نسوانیت کو بیدار نے کی کوشش چھوڑ دی۔
اس طرح وہ اس لڑکی ساتھ اس کے تنگ تصور زندگی کے تاریک راستوں پر چلتا رہا۔ وہ اس تاریکی کو علم کی روشنی سے منور کر دینا چاہتا تھا، لیکن وہ ایک اندھے شخص کی طرح ، اپنے ہونٹوں پر ایک خواب آ لود سا تبسم اور دل میں بے یقینی لئے اس کی باتیں سنتی تھی۔
’’بعض دفعہ میں سوچتی ہوں کہ وہ سب کچھ جو تم مجھے بتاتے ہو واقعی ممکن ہے ۔‘‘ اس نے ایک دفعہ کہا۔ ’’لیکن پھر میں یہ سوچتی ہوں کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ میں تم سے پریم کرتی ہوں ۔ میں سمجھتی ہوں لیکن یقین نہیں کرتی ، یقین نہیں کر سکتی ! اور تم میرے پاس سے جاتے ہو تو ہر وہ چیز جو تمہاری ہے تمہارے ساتھ ہی چلی جاتی ہے۔ ‘‘
یہ قصہ تقریباََ دو سال چلتا رہا اور پھر ایک دن لڑکی بیمار پڑ گئی ۔ اس نوجوان نے اپنا کام چھوڑ دیا، اپنی تنظیم کی مشغولیات ترک کر دیں ، لوگوں کا قرض دار ہو گیا اور اپنے ساتھیوں سے دامن بچاتے ہوئے ، وہ اپنا تمام تر وقت اس لڑکی کے مکان کے باہر یا اس کی پٹی سے لگ کر گزارنے لگا جہاں وہ اسے بخار میں بھنتے ، بیماری میں گھلتے اور دن بدن اس کی حالت بد سے بدتر ہوتے دیکھتا تھا اور جہاں اسے اس کی آ نکھوں میں مرض کے شعلے روز افزوں بھڑکتے اور لپکتے ہوئے نظر آ تے تھے ۔
’’مجھے مستقبل کے بارے میں بتاؤ ۔‘‘ وہ اس سے درخواست کرتی تھی۔
لیکن وہ اسے حال کے بارے میں بتاتا تھا اور بہت تندی اور جوش سے ہر اس چیز کا ذکر کرتا تھا جو ہمیں تباہ کر رہی رہے، جس کے خلاف وہ ہمیشہ جہاد کرے گا اور جسے انسانوں کی زندگیوں سے سڑے ہوئے ، کثیف چیتھڑوں کی مانند نکال کر پھینک دینا چاہئے ۔
وہ سنتی رہتی تھی اور جب اس کا درد نا قابل برداشت ہو جاتا تھا تو وہ اس کا ہاتھ چھو کر اور اس کی آ نکھوں کو التجا بھری نظروں سے دیکھ کر اسے روک دیتی تھی۔
’’کیا میں مر رہی ہوں ؟‘‘ ایک دفعہ اس نے پوچھا ۔ یہ اس کے بہت دن بعد کی بات ہے جب ڈاکٹر اس نوجوان کو بتا چکا تھا کہ اس کو بہت جلدختم کرنے والی تپ دق ہے اور اس کی حالت بہت نازک ہے۔
اس نے اپنی نظریں ہٹا لیں اور کوئی جواب نہیں دیا۔
’’میں جانتی ہوں کہ میں بہت جلد مر جاؤں گی ۔ ‘‘اس نے کہا ’’مجھے اپنا ہاتھ دو۔‘‘
اور جب اس نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو لڑکی نے اپنے جلتے جلتے ہونٹ اس پر رکھ دئے ۔
’’مجھے معاف کرو‘‘ اس نے کہا ’’ میں تمہاری خطا وار ہوں ، میں نے غلطی کی اور تمہیں دکھ پہنچایا ۔ اب مجھے نظر آ رہا ہے کہ میرا ایمان و یقین اس چیز کے خوف کے سوا اور کچھ نہیں تھا جسے میں اپنی خواہش اور تمہاری کوشش کے باوجود سمجھ نہیں سکتی تھی ۔ یہ سب خوف تھا لیکن خوف میرے خون میں ملا ہوا ہے ، میں پیدا ہی اس کو لے کر ہوئی تھی۔ میرے پاس میرا اپنا ذہن ہے۔ یا شاید تمہارا ہے۔ لیکن میرا دل میرے قبضے میں نہیں ہے ۔ تم حق پر ہو ، اور یہ میں جانتی بھی تھی لیکن میرا دل تمہارے ساتھ اتفاق نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
چند دن بعد وہ مر گئی اور اس کے موت کے کرب کو دیکھتے دیکھتے اس نوجوان کے بال سفید ہو گئے ۔ ستائیس سا ل کی عمر میں سب بال سفید ۔
ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا اس نے اس لڑکی کی واحد سہیلی سے شادی کر لی ، وہ بھی اس کی شاگرد ہی تھی۔ اس وقت یہ دونوں قبرستان جا رہے ہیں ۔ یہ ہر اتوار کو اس کی قبر پر پھول چڑھانے وہاں جاتے ہیں ۔
اسے اپنی فتح پر ایمان نہیں رہا ہے ۔ اسے یقین ہے کہ جب اس لڑکی نے کہا تھا کہ وہ حق پر ہے تو ہ اسے تسلی دینے کی خاطر جھوٹ بول رہی تھی ۔ اس کی بیوی کا بھی یہی خیال ہے۔ دونوں اس کی یاد کو دل سے لگائے ہوئے ہیں اور اس کی الم ناک داستان ان دونوں کو ایک اتنے عمدہ انسان کی موت کا انتقام لینے کے لئے ابھارتی اور اکساتی ہے اور ان کی مشترکہ مساعی کو ایک خاص خوبصورتی دیتی ہے۔۔۔
۔۔۔انسانوں کا خوش باش ، مسرورا ور رنگین انبوہ سورج کے نیچے ایک تابندہ ندی کی طرح بہہ رہا ہے ، قہقہوں چہچہوں کی آ وازیں بھی اس کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ رواں دواں ہیں ، بچے چلتے ہوئے ہنستے بولتے اور چیختے بھی جا رہے ہیں یہ درست ہے کہ ہر شخص فکر سے آزاد اور مسرور و دلشاد نہیں ہے ، بلا شبہ بہت سے دلوں پر غم کا بوجھ رکھا ہوا ہے، بہت سے ذہنوں کو شکوک اور شبہات نے پست اور مضمحل کر رکھا ہے، لیکن ہم سب آ زادی کی جانب بڑھے چلے جا رہے ہیں ، آ زادی کی !
اور ہم جتنے زیادہ دوستانہ طریقے سے چلیں گے اتنی ہی زیادہ تیزی سے آ گے بڑھیں گے !۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے