میں جاگتے جاگتے کچھ پل سوتا ہوں اور نہ چاہتے ہوئے بھی سوتے میں کچھ پل جاگتا رہتا ہوں. جیسے ٹنڈرا ریجن کے آس پاس برفیلے پانیوں میں کئی فٹ برف کے نیچے پانی بہتا رہتا ہے. اگرچہ معاشی دوڑ دھوپ اور سخت محنت نے میرے ذہن کو منجمد دریا بنا دیا ہے اور اس منجمد دریا پر بھاگتے بھاگتے میرے پاؤں شل ہو چکے ہیں، تیز تر ترقی اور اپنے ماضی کی غربت کے سب آثار مٹانے کے بعد اب مجھ میں پیچھے مڑ کر دیکھنے کی سکت نہیں بچی.
مگر اس منجمد دریا کی ایک زیریں پرت پر خیالات کا سیل رواں مسلسل بہتا رہتا ہے.
ایک مشین کی ابتدائی مکینیکل ڈیزائننگ کرتے ہوئے میرا لیپ ٹاپ گرم ہو گیا تھا میں نے دھیرے سے آنکھیں موند لیں.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وبسیشن کا شکار انجئنیر ہو کچھ کر دکھانے کا جنون یا تو تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا یا بہت بلندیوں تک لے جائے گا.
سر کیا آپ میرے ہارڈ ورک اور ایفرٹس کو اوبسیشن سمجھتے ہیں؟ میں نے اپنے پروفیسر سے سوال کیا.
نہیں محض ہارڈ ورک نہیں. کچھ سائنسدان ایسے ہوتے ہیں جو ہارڈ ورک اپنے اندر کے کسی جذبے کی تسکین کے لیے کرتے ہیں.
بھلے انہیں یا باقی دنیا کو اس سے کوئی فائدہ پہنچے یا نقصان مگر ان کا اوبسیشن انہیں چین نہیں لینے دیتا. وہ اپنی ایجادات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتے.
پروفیسر نے جواب دیا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
اشتہارات کے وقفے کے دوران ٹی وی کے اچانک بڑھنے والے والیم سے اکتا کر میں نے آنکھیں کھولیں اور پھر سے ڈیزائینگ کے کام میں جٹ گیا.
اسی دوران ٹی وی پر نیشنل جیوگرافی کی ڈاکومنٹری چل رہی تھی اور میری آنکھوں کے سامنے سب مناظر دھند میں لپٹے سایوں کی مانند گزرتے جا رہے تھے .کچھ دنوں سے مجھے بہت جلد تھکن ہو جاتی ہے کنپٹیوں سے سفید بال اب پھیلتے پھیلتے پورے سر کو برفانی کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر میری مجموعی صحت ابھی بھی قابل رشک ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
میرے بچپن کے ساتھی یار بیلی تو اب تک اپنے بڑھاپے کو کھلے دل سے تسلیم کر چکے ہوں گے. کیا کیا جائے؟ یہ تیسری دنیا کے لوگ پیدا بھی جلد ہو تے ہیں اور بوڑھے بھی بہت جلدی ہو جاتے ہیں. انسانوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس کا کوئی ساحل نظر نہیں آتا.
مگر کہیں اندر ہی اندر میں ان سب کے لیے کیوں کڑھتا ہوں؟
یہ زرد مدقوق چہروں، الجھے بالوں اور سرانڈ مارتے بدبو دار جسموں والے لوگ ، یہ گوشت پوست سے ہی بنے ہیں. ان کی رگوں میں بھی گرم سرخ لہو بہہ رہا ہے.یہ بھی میری طرح خواب دیکھتے ہونگے ان کے اندر بھی کچھ کر دکھانے کی جستجو ہوگی تو سہی.
۔۔۔۔۔۔…
میں ایک میکینکل ڈیزائین انجئنیر ہوں مجھے ائیر کنڈینشن میں بیٹھنے کی بنسبت مشینوں کے درمیان رہنا پسند ہے. لوہے کی تپتی مشینوں کے بیچ گھومتے کام کرتے جب میرا پورا بدن پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے تو مجھے عجیب سی تسکین ملتی ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ تنخواہ، نہ پینشن، نہ ہی میڈیکل لیو ، سوشل سیکیورٹی اور میڈیکل انشورنس پر اٹھنے والے اخراجات.
آپ کو ان روبوٹس پر صرف کاسٹ ، مینٹیننس اینڈ ریپئیر یا آخر میں ریپلیسمنٹ پر خرچ کرنا ہوگا. کوئی لیبر یونین کا سر درد نہیں ۔۔۔
ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کا مینیجر سپاٹ اور تاثرات سے عاری چہرے کے ساتھ یہ بریفینگ سن رہا تھا.
میری کمپنی کے سبھی اہم انجئینیر بھی اس بریفینگ میں شامل تھے.
جانے کیوں میرا سر گھوم رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکچر تھیٹر میں پروفیسر کا لیکچر جاری تھا .”ٹیکنالوجی سرمایے کو سپورٹ کرتی ہے ".
لیکن سر اس سے امیر غریب سبھی اپنی اپنی اہلیت کے مطابق فائدہ اٹھاتے ہیں. ٹیکنالوجی غریب کو بھی فائدہ دے گی.
پروفیسر نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا ۔۔۔
ٹیکنالوجی کو اپنی تحقیق اور تکمیل کے لیے سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے.اور سرمایہ دار ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتا ہے. یہ دونوں ایک دوسرے کو براہ راست سپورٹ کرتے ہیں.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد تجارتی منڈیوں میں انسان بھی ایک ریسورس بن کر رہ گیا ہے جسے اس سے طاقتور قوم یا کمپنی اپنے مفادات کے مطابق جہاں چاہتی ہے استعمال میں لاتی ہے. اور اب سرمایے کو بہتر تحفظ دینے کے لیے انسانوں کی جگہ مشینیں لے لیں گی.
انسان کی خصلت میں دوسرے انسانوں کو قابو اور زیردست رکھنے کی خواہش نے ہی شاید روبوٹس کی بنیاد ڈالی. اور روبوٹوں کو بھی وہ کسی نہ کسی سطح پر اس صلاحیت سے لیس کر رہا ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔..
اسپرین کی دو گولیاں نگل کر میں نے پھر سر کرسی کی پشت سے ٹکا دیا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنگ و تاریک گلیوں میں لاتعداد میلے کچیلے بچے کھیل رہے ہیں۔بیروزگار آوارہ نوجوان گلی کی نکڑ پر فضول کھڑے رہے ہیں،جن کی آنکھوں میں خوابوں کی بجائے یاسیت جھلک رہی ہے۔
مختلف اوزار ہاتھ میں تھامے بے شمار مزدور کام ملنے کے منتظر آدھی سے زیادہ سڑک روکے کھڑے ہیں۔خود پر لادا گیا بوجھ سہار نہ سکنے پر کمزور گدھا ریڑھے کے آگے ہوا میں معلق ہے اور اس تکلیف میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے سے بھی عاجز ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔..
میں نے اس اندرونی شور سے اکتا کر لیپ ٹاپ آن کر لیا.
بوسٹن ڈائنامکس کا خوفناک آہنی کتا میرا مونہہ چڑا رہا ہے. یہ مشین ڈیرھ سو کلو وزن اٹھا کر اتنا تیز بھاگ سکے گی جتنا میں بچپن میں دریا کے بند کے ساتھ بھاگا کرتا تھا. پرانے پیپل کی کھوہ سے گانے والے طوطے نکالا کرتا تھا.
نہیں اب میں ایسا گیا گزرا بھی نہیں کہ ایک مشین کے ساتھ اپنا تقابل کروں. ابھی تک میری صحت بہت اچھی ہے. میں باقاعدہ ورزش بھی کرتا ہوں.
بچپن میں ایک بار جب میں نے پرانے درخت کی کھوہ میں طوطے کے گھونسلے میں سے اس کے بچے نکالنے کے لیے ہاتھ ڈالا تو طوطوں کی بجائے کسی چکنی مگر سخت چیز سے ہاتھ ٹکرایا. اور پھر تقریباً پندرہ فٹ لمبا کالا سیاہ پھنیر سانپ جو ان بچوں کا صفایا کر چکا تھا میرے بازو اور پورے جسم سے رینگتا ہوا نیچے جنگلی گھاس میں اتر گیا.
ریڑھ کی ہڈی سے شروع ہو کرایک سرد لہر میرے جسم میں سرایت کر گئی. میرا پورا وجود سن ہو چکا تھا حتٰی کہ میں اس دوران پلک جھپکنا تک بھول گیا.
چند ثانیوں بعد اوسان بحال ہوئے تو میں نے درخت سے نیچے چھلانگ لگائی میرے دوست سانپ سے بے خبر میرا ذرد چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگے کہ کیا ہوا؟
پھپ ۔۔۔.. پھپ ۔۔۔. میرے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی.
شاید میں خوش قسمت ہوں ، طوطے کے بچے نگل کر سانپ کی بھوک مٹ چکی تھی جو اس نے مجھے ڈسنے کی کوشش نہیں کی.
مکینیکل ڈیزائینگ میں میرا بہترین ڈیزائین ہونے کے باوجود جانے کیوں مجھے کبھی کبھی سنیک روبوٹ بہت بدشکل لگتا ہے. اسے دیکھ کر کچھ دنوں سے مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ میرے جسم پر رینگ رہا ہے.
۔۔۔…
اوں ہوں ۔۔۔..اب میں ایسا بزدل بھی نہیں. سب منفی خیالات و جھٹک کر میں نے سوچا۔۔۔..
یہ مشینیں ہم نے خود بنائی ہیں.یہ ہمیں بہت سے فوائد پہنچائیں گی ہمارا کام آسان کریں گی.
ٹیکنالوجی نیوز کی سرخیاں میری ای میل میں پہنچ چکی تھیں .
"بوسٹن ڈائنامکس گوگل نے خرید لی ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
مجھے گوگل سے ڈر لگنے لگا ہے آخر یہ چاہتا کیا ہے؟
تم اوبسیشن کا شکار انجینئیر ہو۔۔۔.. مجھے ڈر ہے ۔۔۔..
پروفیسر کی آواز ذہن کے دریچوں میں گونجی۔۔۔..
اففف اگر کل کلاں کو واقعی یہ مشینیں انسانوں کی جگہ لے لیں گی تو کیا ہو گا؟
جب یہ آہنی مشینیں کالے، بھورے، پیلے انسانوں کے مقابل آ جائیں گی. ترقی یافتہ اقوام کی آدھی سے زیادہ افواج روبوٹوں پر مشتمل ہونگی۔کیا مشینیں انسانوں کو زیردست کر لیں گی؟
ای میل میں اگلی خبر چمک رہی تھی ۔۔۔.
دو ہزار پچاس تک روبوٹس پر مشتمل ٹیم فیفا کے رولز کے مطابق اس وقت کی عالمی چیمپیئن فٹبال ٹیم کو شکست دے دے گی.
پروفیسر ڈینئل لی کیا چاہتا ہے؟ میں کیا چاہتا ہوں؟ یہ ساری ترقی یافتہ اقوام اس تماشے کا حصہ کیوں بن رہی ہیں؟؟؟
میرے سامنے ہزاروں سوالیہ نشان فضا میں دھوئیں کے مرغولوں کی طرح رقصاں ہونے لگتے ہیں.
دنیا کا پہلا فٹ بال یقیناًکسی انسان کی کھوپڑی ہی تھی .
۔۔۔…
چالیس پچاس سال بعد روبو کپ جیتنے والی ٹیم کے قدموں میں میری یا ڈینیل لی کی کھوپڑی بھی ہو سکتی ہے.
______________________________________________________
پس نوشت : اس افسانے میں شامل کچھ اصطلاحات کی وضاحت
بوسٹن ڈائنامکس: سونی کارپوریشن اور امریکن آرمی کے لیے روبوٹس تیار کرنے والا ادارہ.
بگ ڈاگ : بوسٹن کا آہنی کتا نما روبوٹ
روبو کپ: ہر سال منعقد ہونے والا روبوٹس فٹ بال ٹیموں کا عالمی مقابلہ
ڈینیل لی:2050روبو کپ ٹرسٹی