بدین شہر کے بلاول کو کراچی میں ایک کوچ پر کنڈیکٹری کرتے ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا مگر ڈرائیور گْل خان اس سے ذرا بھی خوش نہ تھا۔ وہ اسے گالیوں کے علاوہ مْختلف طریقوں اور حیلے بہانوں سے بار بار ذلیل کرتا کہ تجھ میں کنڈیکٹری کے ذرا بھی لچھن نہیں۔ جس بات کو بس گردن جھکائے وہ خاموشی سے سْنتا رہتا۔ گویا اس کے مْنہ میں زبان ہی نہ تھی۔
کوچ کے آخری اسٹاپ پر ایک مرتبہ پھر گْل خان نے تمام لوگوں کے سامنے جھڑکتے ہوئے کہا تھا ’’ابے جاہل تو سْدھروگے نہیں۔ اتنے دن ہو گئے ہیں تمہیں۔ پچھلے کنڈیکٹر نے بھی تین دن سر کھپایا مگر پھر بھی تجھے آج تک اسٹاپ کا پتا نہیں چلتا۔ تیرے لئے نیپا چورنگی بھی وہی اسٹاپ تو حسن اسکوائر اور جیل چورنگی بھی ایک جیسے ہیں۔ ہر مرتبہ تم اْلجھتے ہو۔ کیسے تمہیں بتاؤں؟ بد بخت جس دن سے بس پے لگے ہو اْسی دن سے گاڑی پچھلے دنوں کے حساب سے ہزار پانچ سو کم کما رہی ہے۔ اب یا تو تم چوری کرتے ہو یا شاید بھیڑ میں حواس باختہ ہو کر لوگوں سے کرایا لینا بھول جاتے ہو۔مسئلا کیا ہے تیرے ساتھ؟ کہتے ہو پانچویں کلاس تک پڑھا ہوں مگر مجھے تو نہیں لگتا۔‘‘
اس دن بلاول نے پہلی مرتبہ ڈرتے ڈرتے انتہائی ادب کے ساتھ زبان کھولی ’’اْستاد! میں جاہل اور ان پڑھ ہوں مگر چور ہرگز نہیں۔ آپ ہر روز بھلے میری آخر میں تلاشی لینا۔‘‘
’’ابے سور کی۔۔۔۔۔۔ پھر میرے سامنے زبان مارتا ہے! آج تو سیٹھ کے پاس چل، ہمیشہ کے لئے تمہاری چھٹی نہ کروائی تو گْل خان میرا نام نہیں۔‘‘ گْل خان نے اس پر ہاتھ اْٹھاتے ہوئے کہا اور پھر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔
اس رات بالآخر گْل خان نے بس مالک ملک رحیم داد کے سامنے اس کی شکایتوں کے انبار لگاتے ہوئے کہا ’’اور تو اور اب تک بسوں کے سٹاپ کی بھی پہچان نہیں ہے۔ بس سٹاپ کی تمیز بھی نہیں کر سکا اور ہاں آواز لگاتے وقت تو گویا سانپ سْونگھ جاتا ہے اس کو۔ اگر اس کے یہی لچھن رہے تو میرے ہاتھوں سے کبھی مارا جائے گا۔‘‘
بلاول سب کچھ خاموشی سے دیکھتا اور سْنتا رہا۔ وہ کر بھی کیا سکتا تھا سِوائے اندر ہی اندر جلنے کڑھنے کے؟ سوچنے لگا ’’گْل خان کی غْصے کے علاوہ باقی ساری شکایتیں جائز ہیں۔ برابر! پہلی مرتبہ کراچی آیا ہوں مگر اتنے دنوں میں بھی بس اسٹاپ کے نام بھی صحیح نہیں لے سکتا۔ میں واقعی ڈانٹ کھانے کے لائق ہوں!‘‘
’’ملک صاحب! میں اب اس لونڈے کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ مْجھ سے اب بالکل برداشت نہیں ہوتا۔ اب یا تو یہ رہے گا یا میں۔ آج تو میرے سامنے زبان بھی چلائی ہے۔ پہلے تو سوچا سامنے کھڑا کرکے گاڑی چڑھا دوں۔‘‘
ملک صاحب نے سب کْچھ سْننے کے بعد گْل خان کو ٹھنڈا پلاکے ٹھنڈا کرنے کے بعد کہا ’’خان صاحب! بچارا شہر میں نیا ہے، سیکھ جائے گا،آئندہ تمہیں شکایت نہیں ملے گی۔
ملک صاحب نے پھر بلاول کو گْل خان کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کی اور اْسے سمجھایا کہ ’’بابا! کم سے کم سٹاپ کے نام تو درست اور زور سے لیا کرو۔‘‘
’’جی جناب!‘‘ اس نے معصومیت اور شرمندگی سے جواب دیا۔
’’اب اگر گْل خان نے تمہاری شکایت کی تو وہ تمہارا آخری دن ہو گا۔ تم گاؤں گوٹھ والوں کو ویسے بھی کام کرنے سے تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
وہ کچھ نہ بولا مگر دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ جب تک کو ئی دوسری نوکری نہ ملی تب تک گْل خان کو وہ شکایت کا کو ئی موقع نہیں دے گا۔ وہ رات کو سوچتے سوچتے ایک مرتبہ پھر سے بس سٹاپ کے نام یاد کرنے لگا مگر یاد نہیں کر پایا، جس کی وجہ سے وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ میرا حافظہ تو کبھی اتنا کمزور نہ تھا پھر یہ آسان نام مْجھے کیوں یاد نہیں ہو رہے؟ یہ میرے ساتھ آج کیا ہو رہا ہے؟ کافی سوچنے کے بعد اسے سمجھ میں آیا کہ وہ یاد کر بھی لے مگر گْل خان کا برتاؤ جو اْس کے ساتھ رہا ہے، وہ جو روز اْس کی بے عزتی کرتا ہے اور گالیاں دیتا ہے اْس وجہ سے بھی وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ وہ ایک مرتبہ پھر سے سٹاپ کے نام یاد کرنے لگا۔ چھے نمبر چیک پوسٹ، صفوراں چورنگی، جوہر کامپلیکس، موسمیات، کراچی یونیورسٹی، سماما، نیپا چورنگی، حسن اسکوائر، نیو ٹاؤن، نمائش چورنگی، رمپا پلازا، تبت سینٹر، ریڈیو پاکستان، جامع کلاتھ، سول ہاسپیٹل، لائٹ ہاؤس، سٹی کورٹ، نیو چالی، جوڑیا بازار، ٹاور! وہ کاغذ پہ لکھے اسٹاپ کے نام یاد کرنے لگا مگر صفوراں چورنگی اور حسن اسکوائر کے علاوہ اسے کو ئی نام یاد نہ ہو سکا۔ وہ بھی اس لئے کہ حسن اس کے ماموں کا نام تھا اور اس کے ساتھ جڑا ہوا اسکوائر کہہ نہ پایا یا زبان پہ چڑھ نہ سکا۔باقی صفوراں کا نام تو اْس کے دل پہ لکھا تھا۔ وہ نام کیسے بھول سکتا تھا؟ وہ نام اْس کی دادی کا تھا، جس نے ماں کی وفات کے بعد اْسے پال پوس کر جوان کیا تھا، وہ اکثر اسے بتاتی رہتی تھی کہ اْس کے دادا سے شادی سے پہلے صفوراں کے علاقے میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی تھی۔ وہ اْسے ہمیشہ فخر سے بتاتی تھی کہ وہ علاقہ اْس کے آباؤ اجداد نے آباد کیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ پورے کراچی کو آباد کرنے والے بھی اس کے آباؤ اجداد تھے۔ کراچی کے اصل وارث بھی وہ ہیں۔ یہی سبب تھا جو وہ ہمیشہ اْسے کہتی رہتی تھی شہزادے! کراچی جب بھی جانا شیر بن کر جانا، کراچی اپنا ہے اور اب حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر جب اس نے کراچی کا رْخ کیا تھا تو چونک گیا تھا۔ اس کے تصور میں جو دادی والا کراچی تھا اْس کا تو نام و نشان بھی نظر نہ آیا۔ اْسے قدم قدم پہ مختلف قوموں کے لوگ نظر آئے، جن کے اْٹھنے، بیٹھنے اور باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس کے قبیلے کے لوگ نہیں تھے۔ اسی وجہ سے ہر وقت خوف میں مْبتلا اور بے قرار رہتا تھا۔ اْسے اگر سکون ملتا بھی تھا تو وہ صفوراں چورنگی پر سارے سٹاپوں کے ناموں میں سے نام بھی فقط اسے وہی اچھا لگتا تھا۔ باقی سٹاپ کے نام ہی نہیں اْسے عجیب لگ رہے تھے مگر ایک جیسے ہونے کی وجہ سے پہچاننے میں بھی دِقت ہو رہی تھی۔ خاص کرکہ نیپا، حسن اسکوائر، جیل چورنگی پر بنے ہوئے پْلز نے اْسے پریشان کر رکھا تھا۔ کافی رات گزر جانے کے باوجود جب اسے نام یاد نہیں رہے تو! اللہ پہ توکل کرکے وہ سو گیا۔
دوسرے دن چھے نمبر چیک پوسٹ سے بس نے مسافروں کو سوار کرنا شروع کیا تو اْس نے کوشش کی کہ آج پوری خبرداری سے نام لے گا۔ کچھ بھی ہو جائے مگر وہ گْل خان کو شکایت کا موقع نہیں دے گا۔ کوچ اب صفوراں چورنگی کراس کرتے ہوئے یونیورسٹی روڈ پر تیزی سے چلنے لگی، وہ اب صحیح صحیح اسٹاپ کے نام لے رہا تھا مگر سفاری پارک سے گزرتے وقت وہ بھول گیا کہ پتا نہیں نیپا چورنگی پہلے ہے یا حسن اسکوائر؟ کوچ اب کالا بورڈ سے آگے نکل گئی مگر بلاول ابھی تک کو ئی فیصلا نہ کر سکا کہ یہ کو ن سا سٹاپ ہے؟ بالاآخر خْدا پہ بھروسہ کرکے حسن اسکوائر کا نام لیا تو لوگ حیران تو ہوئے مگر وہ سمجھ گئے کہ بچارا نیا لگتا ہے مگر گْل خان آگ بگولا ہو گیا اور اْسے جھڑکنے کے ساتھ بْرا بھلا کہا تو وہ بچارا ڈر گیا جس کی وجہ سے وہ باقی اسٹاپ کے نام بھی بھلا بیٹھا۔
اْس نے اپنے حساب سے پوری پوری کوشش کی تھی کہ اسٹاپ کے نام صحیح لے مگر وہ اس میں ناکام رہا۔ ادھر بار بار گْل خان اسے آئینے میں سے قاتل نظروں سے گھور رہا تھا۔ گاڑی اب نمائش چورنگی سے گزرتی ہوئی ایم اے جناح روڈ پر دوڑنے لگی۔ اسی وقت گْل خان نے اْسے چلاکر کہا ’’آگے بولٹن کے بعد سب سے بڑا اور مین اسٹاپ ’ٹاور‘ ہے، اگر وہ نام درست اور تیز آواز میں نہ لیا تو تیری خیر نہیں۔‘‘
اْسے یقین تھا کہ گْل خان جو کہہ رہا ہے وہ کر بھی دکھائے گا اس لئے وہ دل میں بار بار ٹاور 150 ٹاور دْہرانے لگا۔ خوف کے مارے اسے ہوش تک نہ رہا کہ ابھی کوچ کس اسٹاپ پر پہنچی تھی؟ اسی دوران لوگ اْترتے گئے مگر رش ابھی موجود تھا۔ گْل خان ابھی تک اسے مْسلسل خون خوار نظروں سے سامنے سے دیکھ رہا تھا جس سے وہ آنکھیں چْرا رہا تھا۔ وہ اب پوری کوشش کر رہا تھا کہ آج کسی بھی حالت میں صحیح وقت پہ ٹاور کا نام لے گا۔ کوچ میں سے جس وقت لائٹ ہاؤس پر لوگ اْترے تو گْل خان نے کوچ کی رفتار تیز کر دی۔ گویا ایسا لگا جیسے اب اس کو کو ئی آدمی اتارنا، اْٹھانا نہیں تھا، لوگوں نے چلاکے بس روکنے کو کہا مگر ایسا لگا کہ اس نے سْنا ہی نہیں۔ اسی دوران ایک آدمی نے گاڑی روکنے کے لئے آواز دی تو گْل خان نے اچانک گاڑی کو بریک لگائی۔ بلاول نے سوچا کہ ٹاور آنے والا ہے مگر وہ اْس کا نام لینا بھول گیا۔ تب ہی گْل خان نے غْصے میں آکر زور سے بریک ماری۔ اسی سوچ کے دوران اْس کے ہاتھ ڈالے سے نکل گئے اور وہ زمین پہ مْنہ کے بل گِرا۔
جب تک کسی ہسپتال میں اْسے لے جانے کا بندوبست ہوتا اس سے پہلے ہی اس کی سانس رْک گئی۔ وہ جب آخری سانسیں لے رہا تھا تو اس کے گرد گھیرا بنائے کھڑے لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کی زبان سے جوآخری الفاظ نکل رہے تھے وہ تھے ’’ٹاور۔۔۔ ٹاور۔۔۔۔۔‘‘