شیکسپیئر نے کہا زندگی ایک سٹیج ہے ہر کوئی آکر اپنا کردار ادا کرتا ہے …..اور ماما جمالدینی نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ۔ زندگی کے اس کٹھن سفر میں نشیب وفراز آتے رہے مگر وہ بغیر تھکے زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔ ماما جمالدینی کی زندگی کے کہیں پہلو ہیں ادب ، صحافت ، سیاست ، سب میں اُن کا حصہ شامل ہے۔ رنگ نسل مذہب سے بالا تر سوچ تھی ۔بائیں بازو کی تحریکوں میں صفِ اول کا کردار ادا کرتے رہے ۔کمیونسٹ نظریات کا حامل اور ’’لٹ خانے کا لٹ ‘‘ ہر جگہ اپنی علمی ، ادبی وسیاسی نقوش چھوڑ گئے…… کئی زبانوں پر عبور حاصل کرنے والا یہ شخص اسلامیہ ہائی اسکول سے ہی متحرک چاک وچوبند انسان رہے ، جہاں اُنہیں کمال خان شیرانی جیسے دوست ملے، خدائیدا د خان ،انجم قزلباش جیسے یاروں سے وابستہ رہا۔ کسے معلوم تھا کہ پشین ہائی سکول کے یہ بچے آگے چل کر سخت کٹھن دور کا مقابلہ اس طرح زندہ دلی اور ثابت قدمی سے کریں گے ۔ مصائب وتکالیف کا بھر پور مقابلہ کرینگے ، سخت دور میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے رہیں گے۔
مطالعہ کرنا، ملنساری اور اُنکے نرم رویے نے کئی مکتبہِ فکر کے لوگوں کو متاثر کیا۔ پڑھے لکھے لوگوں کا حلقہ اُن کے اردگر د ہمیشہ موجود رہا ، بچپن لڑکپن کے یہ دن انتہائی کھٹن اور مالی حوالے سے ناہچ تھے۔ اس کے بعد ماما جمالدینی اور کمال خان شیرانی کا ساتھ اسلامیہ کالج پشاور میں بھی رہا۔ یہاں آکر ان کی ذہنی نشود نما، اور ترقی پسندانہ خیالات کو مزید پروان چڑھنے کا موقعہ ملا۔ گویا زندگی میں اس درسگاہ سے حاصل کئی گئی علمی دولت کو آگے چل کر وہ کس طرح سانچے میں ڈالیں گے یہیں سے مستقبل کا فیصلہ ہوچکا تھا جنہیں آگے چل کر عملی جامہ پہنانے کی ضرورت تھی۔ ماما جمالدینی اور کمال خان شیرانی کی تربیت اور روشن خیالی میں اس درسگاہ کے اساتذہ کا اہم کردار رہا ہے۔
نظریاتی فکر اور ترقی پسندانہ سوچ کو پروان چڑھانے میں ماما جمالدینی نے اپنی کاوشوں اور صلاحیتوں کو ہمہ وقت بروکار لاتے ہوئے علمی وادبی جدو جہد میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے ، تین نسلوں میں اُنہوں نے اس فکری شعور کو منتقل کیا ہے۔ شعور آگہی کے اس عمل میں ہم تیسرے نسل میں شامل ہیں ۔اور یہ فکری عملی جدو جہد اس طرح نسل درنسل چلتی رہے گی بشر طیکہ قلم ہمارا ہتھیار ہو۔
ماما جمالدینی نے صحافت اور ادب کی جتنی خدمت کی ہے اُتنا ہی سیاست میں اُن کا کردار رہا ہے ۔ بائیں بازو کی قوتو ں کے ساتھ مل کر اُنہوں نے بھرپور سیاست کی۔ مشتاق علی شان کہتے ہیں’’ماما جمالدینی ایک خاموش سپاہی تھے۔ اُنہوں نے صرف ادب کی کاکلیں ہی نہیں سنوار یں بلکہ وہ بابا ئے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے کارواں کا حصہ رہے جنہوں نے ون یونٹ کے خلاف جدو جہد میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا اور سرداری نظام کی اصولی مخالفت کی‘‘
بلوچستان یونیورسٹی کالونی میں رہائش پذیر ماما جمالدینی ،پروفیسر نادر جان قمبرانی، پروفیسر بہادر خان رودینی، میر عاقل خان مینگل ، پروفیسر برکت علی، پروفیسر عبدالرحمان فکر، پروفیسر عابد شاہ عابدودیگر شخصیات تھیں جنہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں بلوچستان یونیورسٹی کو کہاں سے کہاں تک پہنچایا۔ فکری، علمی ،ادبی ہر سطح پر وہ طالب علموں کے درمیاں رہے ۔ بلوچستان یونیورسٹی کی ایسی بنیاد رکھی جنہیں آج بھی یاد کیا جاتاہے، موجودہ تعلیمی حالت زار کو دیکھ کر ہمیں اپنے اُن اکا برین پر فخر ہوتا ہے ۔ جن کی دن اور رات کی محنت سے ادارہ بدستور علمی روشنی بکھیرتا رہا۔ جو بیج اُنہوں نے بوئے تھے آج پھل دار درخت بن چکے ہیں۔ کئی نسلیں فیض یاب ہوچکی ہیں اور ہورہی ہیں۔
’’لٹ خانہ‘‘1950ء کی دہائی میں، جس کی بنیاد پڑی یہ ادبی اور سیاسی محفلوں کا آماجگاہ بن گیا۔ یہیں سے عملی طور پر ماما جمالدینی اوران کے دوستوں کی سیاسی اورا دبی محفلوں کا دور شروع ہوتا ہے ۔ جہاں تنگدستی کا عالم تھا مگر سوچ فکر اور اپنے شعوری آگہی کو پختہ ارادے کے ساتھ احسن طریقے سے نبھاتے رہے۔
1993ء کو ماماجمالدینی پر فالج کا حملہ ہوا، ہم ان دنوں BMCمیں (4th Year ) کے طالب علم تھے، پتہ چلا ماما جمالدینی کو سول ہسپتال کے سپیشل کمرے میں داخل کیا گیا ہے ۔کئی دنوں تک وہ ہسپتال میں اس کیفیت کا مقابلہ کرتے رہے اس کے بعد اُنہیں سیاسی ادبی پروگراموں میں جانے سے ڈاکٹروں نے منع کیا۔ لیکن ایسا کہاں ممکن تھا۔ پھر ہر جمعے کو اُن کے گھر پڑھے لکھے وعام لوگوں کا آنا رہا۔ بعد میں اتوار پارٹی (Sunday Party) کے نام سے فورم بنی اور زندگی کے آخری ایام تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ جہاں سیاسی ادبی ملکی وغیر ملکی حوالوں سے بحث ومباحثے ہوتے رہے ہیں۔
فالج کا حملہ ہونے کے بعد جب ماما جمالدینی بلوچستان یونیورسٹی کا لونی میں رہائش پذیر تھے، میں اور ڈاکٹر جنید ایوب گچکی اُن کے پاس گئے اُنہیں کہا ہم ’’بابا بزنجو ‘‘ کی برسی کے سلسلے میں بولان میڈیکل کالج میں پروگرام کر رہے ہیں۔ آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں، ڈاکٹروں نے سیاسی پروگراموں میں جانے سے منع کیا ہے ، تو ماما جمالدینی فوراً بولے ’’میں ضرور آؤں گا ورنہ یہ زندگی کس کام کی ہے‘‘۔ فالج کے حملے کے بعد ماما جمالدینی کا یہ پہلا پروگرام تھا جنہیں ہم BMCلے کر گئے اور وہاں انہوں نے دل کھول سیاسی وفکری گفتگو کی اور پورے حال کو رلایا۔اس کے بعد جشن جمالدینی دو روزہ پروگرام سنگت اکیڈمی کی جانب سے تشکیل دی گئی تھی اُنہوں نے شرکت کی ۔ کہنے کا مقصد ہے فالج جیسی بیماری کے باوجود یہ شخص ہمہ وقت جدو جہد کی کیفیت میں رہے ۔
’’لٹ خانہ‘‘ کتاب لکھ کر اُنہوں نے ثابت کر دیا کہ اس بیماری کی حالت میں بھی اُس کے ارادے کتنے پختہ اور جوان ہیں۔’’لٹ خانہ‘‘ کتاب لکھنے کی ذمہ داری کمال خان شیرانی اور ڈاکٹر خدائیداد کو سونپی گئی تھی لیکن اُن کی خواہش تھی کہ یہ کام ماماجمالدینی سر انجام دیں ۔ اور یہ ذمہ داری پرفیسر شاہ محمد مری کو دی گئی کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے ماما جمالدینی کو ’’لٹ خانہ‘‘ لکھنے پر قائل کریں۔ ماما جمالدینی لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر شاہ محمد مری کی گرفت سے آج تک کون بچا ہے جو میں بچ پاؤں گا اور میری زندگی کا فلسفہ ہی محبت ہے تو میں کیسے ڈاکٹر شاہ محمد مری کو انکار کرسکتا تھا۔ تبھی جا کر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب یہ کام مجھے ہی کرنا ہے‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی کو ماما جمالدینی کی زندگی ، صحافت، ادب وسیاست وکھٹن زندگی کا مطالعہ کرنا ہے تو وہ ’’لٹ خانہ ‘‘ کا ضور مطالعہ کریں تو اُنہیں کھٹن زندگی کا بھی اندازہ ہوگا۔
بڑا کھٹن ہے راستہ جو آسکو تو ساتھ دو
یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو سا تھ دو
بڑے فریب کھاؤ گی ، بڑے ستم اُٹھاوگی
یہ عمر بھر کا ساتھ ہے ، نبھا سکو تو ساتھ دو
ہزار امتحاں یہاں، ہزا ر آ ز مائشیں
ہزار دُکھ ، ہزار غم اُٹھا سکو تو ساتھ دو
آخر میں ۔ میں یہ کہوں گا واقعی ماما جمالدینی زیر زمین ہوگئے۔ ایک باب ختم ہوگیا ۔ مرجانے سے انسانوں کا نام ونشان مٹ جاتا ہے کیا؟ ۔ جسم مرجاتے ہیں سوچ زندہ رہتی ہے۔ باب ختم نہیں شروع ہوا ہے ۔ ماما جمالدینی پیدا ہوگئے ہیں اُن شعور وآگہی کے ساتھ جن کا پرچا ر وہ ہردور میں کرتے آئے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں لٹ خانہ کا لٹ اور لٹ ہوگیاہے….جو پختہ ارادہ اُنہوں نے دیا۔ زندگی میں اُن پر عمل پیرا ہونے کا نام ماما جمالدینی ہے ایسے انسان کیامرسکتے ہیں ۔ ہر گز نہیں ۔بلکہ وہ رہ جاتے ہیں دلوں میں گھر کر جاتے ہیں ۔ یہاں سب کچھ ختم نہیں ہوتا ، اُن کی زندگی ، صحافت ، ادب وسیاست پر بہت کچھ لکھنا اور پڑھنا باقی ہے ۔
چاند مدہم ہے آسمان چُپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چُپ ہے