لٹ خانہ داستان ہے بلوچستان میں ترقی پسند ی اور روشن خیالی کی تحریک کی۔ جس کا آغاز 1950 میں ہوا تھا۔ جہاں سے یہ چشمہ پھوٹا، اس کا نام لٹ خانہ پڑ گیا ۔ برسوں سے یہ مطالبہ ہورہا ہے کہ اس داستان کو تحریری صورت میں بیان کیا جائے جس کا ذکر بیشتر مقالوں اور سیمیناروں میں ہوتا رہا ہے ۔مگر اسے کون تحریر کرے؟ یہ سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ سب سے پہلا مطالبہ کمال خان شیرانی سے ہوا جو اس فکری مرکز کے سب سے اہم بنیاد گزار تھے مگر انہوں نے معذرت کی اور انہوں نے مجھے اس کام کو انجام دینے کے لیے کہا۔ ازاں بعد لٹ خانہ کی تحریک کو شہہ دینے والے اور اس کے روحِ رواں انجم قزلباش تھے۔ ان کی جانب نگاہیں اٹھیں مگر بلوچستان میں اردو کے یہ نامور ادیب اور صحافی، جس کی تحریر میں قوت و زور کے علاوہ دلکشی تھی غربت اور کسمپرسی کے سبب ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوئے جس نے ان سے قلم چھیننے کے علاوہ قوت گویائی بھی چھین لی ہے۔ انجم قزلباش کے بعد اس کام کو بہتر سر انجام دینے والے ڈاکٹر خدائیداد خان ہیں۔ میری خواہش تھی کہ ان کے قلم سے یہ داستان تحریر ہو مگر انہوں نے بھی معذرت کی۔ رہ گیا میں ‘اور سب احباب کا مطالبہ بھی یہی رہا ہے کہ میں ہی اس کام کو صورت دوں ۔میں نے بھی معذرت بہت کی مگر میری کون سنے؟ بہر کیف اب قرعہِ فال میرے نام نکلا ہے۔ میں جو ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا۔ ایک دو سال سے عذر لنگ کرتا چلا آرہا ہوں مگر اب مجھے مجبور کرنے کے لیے ڈاکٹر شاہ محمد مری جیسے جابر کمدار کو مقرر کیا گیا ہے جو خود تو مشینی صفات کا مالک ہے، بھلامیں کیونکر اس کی گرفت سے نکل سکتا ہوں۔
تو قارئین! بالآخر میں ’’ لٹ خانہ‘‘ کی داستان لکھنے پر آمادہ ہوا ہوں۔’’ لٹ خانہ‘‘ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، ایک تحریک کا نام ہے؛فکری اور شعوری تحریک ۔ بہت عرصہ گزرا جب اس کی بنیاد پڑی یعنی1950کی ابتدا کا زمانہ تھا۔ گویا اب اسے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہواہے۔ اس وقت میری عمر28سال تھی۔ میری یادداشت تو اس وقت بھی بہت اچھی نہ تھی۔ بھلا اب کیونکر اس قابل ہوگی کہ میں سب کچھ از سر نو یاد کرکے اسے بیان کرسکوں۔ تاریخ کی ترتیب میں(In Chronological Order)حالات کو بیان کرنا میرے بس میں نہیں۔ بہر کیف نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
دوسر ی اہم بات اس تحریک کا پس منظر ہے۔ اس عالمِ اسباب میں تو علل و معلول کا قانون ابدی معلوم ہوتا ہے۔ یقیناً کچھ ایسے اسباب تھے جن کا نتیجہ ’’ لٹ خانہ‘‘ کی تحریک کی صورت میں نکلا اور پھر اسے جنم دینے والی شخصیت کمال خان شیرانی اس پس منظر میں سب سے نمایاں ہے۔
1939کا سال میرے لیے اس لیے اہم ہے کہ اس سال پہلی مرتبہ میری ملاقات کمال خان شیرانی سے ہوئی۔ اسے میں اپنی زندگی میں ایک حادثہ کہوں گا کیونکہ کمال خان سے ملنے کا تو میرا کوئی منصوبہ نہ تھا اور زندگی میں ایسے حوادث ہی واقعات اور حالات کا رخ بدل دیتے ہیں۔ مارچ کا مبارک مہینہ جس میں جشن نوروز منایا جاتا ہے ، میرے لیے یقیناً ’’ نوروز‘‘ ثابت ہوا۔ مار چ کا مہینہ میرے لیے اس لیے بھی اہم ہے کہ1950 کو اسی مہینہ ’’ لٹ خانہ‘‘ کی بنیاد پڑی۔
بات ہورہی تھی میری ملاقات کی،کمال خان شیرانی سے۔۔۔ تو جائے ملاقات تھی سنڈیمن ہائی سکول پشین۔۔۔۔۔۔ایک (یعنی کمال خان) نمودار ہوا شمال مشرق سے کیسہ غر(کوہ سلیمان) یعنی تخت سلیمان کے دامن سے۔۔۔۔۔۔سبزہ زاروں اور دیو مالائی ماحول سے۔ اور دوسرا (یعنی میں)جنوب مغرب سے ۔ چاغی کے دشت بیابان اور ریگ زاروں کی سرزمین سے۔اس سرزمین سے جہاں ریگستانوں اور کوہستانوں کا سنگم ہے۔سرزمین بے آب و گیاہ مگر میرے لیے ایک مخصوص دلکشی اور حوصلے کا باعث۔۔۔۔۔۔سنڈیمن ہائی سکول پشین واحد سرکاری ہائی سکول جہاں وظیفہ یافتہ طلبا کو داخلہ ملتا تھا۔ وہ سال کثرتِ باران کا سال تھا۔ ژوب اور چاغی کی راہیں سیلاب کی وجہ سے آب برد ہوچکی تھیں۔ ہم دونوں نے داخلہ لینے میں تاخیر کی۔ لہٰذا ہم دونوں کے لیے جنہیں سرکاری وظیفہ ملتا تھا، داخلہ مسئلہ بنا ۔ کسی نہ کسی طرح یہ مسئلہ حل ہوا اور ہم دونوں ایک ہی کلاس میں بیٹھنے لگے۔ دونوں انتہائی دیہی اور قبائلی ماحول سے آئے تھے۔ تنہا پسندی اور شہری طلبا کی موجودگی میں احساس کمتری میں مبتلا تھے ۔ ان مسائل نے ہمیں قربت بخشی اور ہم دوست ہوگئے ۔ اور ایسے دوست ہوگئے کہ ایک کا دوسرے کے بغیر گزارہ نا ممکن ہوگیا۔ اسی رفاقت نے ہمیں خوش قسمتی سے اسلامیہ کالج پہنچایا، جس میں داخلہ لینے کا مشورہ ہمارے مہربان استاد محمد ہاشم خان غلزئی نے دیا تھا۔ کس قدر صحیح مشورہ دیا تھا ۔ جس سے ہمارے مستقبل کی راہیں صحیح سمت متعین ہوگئیں۔ اسلامیہ کالج پشاور میں تو ہم دونوں اتنے قریب ہوئے کہ ساتھ ساتھ دو کمرے ہاسٹل میں ملنے کے باوجود ہم ایک ہی کمرے میں رہنے لگے اور دوسرے کمرے کو سٹور بنا دیا۔ ہماری اس ذہنی رفاقت نے کالج کے طلبا اور اساتذہ دونوں کو حیران کردیا۔ ہم ایک دوسرے کے بغیرکہیں بھی نہیں دیکھے جاسکتے تھے۔ اسلامیہ کالج کے آئیڈیل ماحول اور دانشمندانہ اور پدرانہ شفقت سے پیش آنے والے اساتذہ نے ہمیں زندگی کا صحیح راستہ بتایا اور اس سے ہماری ذہنی پرورش خوش بختانہ نہایت خوبصورتی سے ہوئی ۔ گریجویشن ایک ساتھ کیا۔ اکٹھے سڑک کے راستے کوہ سلیمان کے دامن میں پہنچے۔ دیوتاؤں کی حسین وادی میں کمال خان کے گاؤں شنہ پونگہ میں رہے۔ میں کبھی کمال خان کو دیکھتا اور کبھی ان چٹانوں کو دیکھتا اور کبھی انسانوں کے اس سماج کو دیکھتا جو ہنوز بربریت کے سٹیج سے آگے نہیں بڑھاتھا۔
ہمیں ملازمتیں بھی ایک ساتھ ملیں ۔ ہم دونوں نائب تحصیلدار ہوئے۔ ملازمت کے دوران بھی ایک دوسرے کے بغیر گزارہ مشکل تھا۔ کمال خان مقنا طیس کی مانندمجھے اپنے قریب کھینچ لیتا ۔ پانچ سال کی ملازمت کے دوران دونوں نے محسوس کیا کہ ملازمت کو جاری رکھنا دونوں کے بس میں نہ تھا۔ کمال خان کی آزاد منشی نے اسے ملازمت سے علیحدگی میں پہل کرنے کو آمادہ کیا۔ چنانچہ ملازمت سے علیحدگی کا منصوبہ تیار ہونے لگا۔ اسی دوران مارچ کا مہینہ جو آغاز بہار کا مہینہ ہے،کوئٹہ میں جا بجارنگ بہ رنگ بے پناہ کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں۔ ہم دیگر ہم خیال نائب تحصیلدار احباب کے ساتھ کوئٹہ میں اکٹھے ہوئے۔ جائے رہائش کی ضرورت پڑی۔پہلے ہی ایک دوست نائب تحصیلدار نے بلوچی سٹریٹ میں ایک خوبصورت Hut ( ایک ہی کمرے کامکان) کرایہ پر لیا تھا۔ کرایہ بھی کچھ زیادہ نہ تھا۔ شاید ماہانہ دس روپیہ۔ ہم نے وہاں ڈیرہ ڈال دیا اور سوچنے لگے مستقبل کے بارے میں ، اوراس طرح سے یہ جگہ مستقبل میں ’’ لٹ خانہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
قارئین! مجھے حکم ہوا کہ اس داستان کو قلمبند کروں تو سنئیے لٹ خانہ کی داستان۔۔۔
ماہنامہ ’’ نوکیں دور‘‘ کوئٹہ۔ مارچ1991