کچھ مسائل کا حل آفات میں چھپا ہوا ہے
جو بھی ظالم تھا اب اموات میں چھپا ہوا ہے
پل میں اک بار اسے دیکھنے کی خواہش میں
دل مرا اس کے مضافات میں چھپا ہوا ہے
سارا دن جس کے تعاقب میں گزر جاتا ہے
لمحہ شاید وہ کہیں رات میں چھپا ہوا ہے
سانس لو اتنی کہ اوروں کے لئے بچ جائے
مقصدِ زیست تو اس بات میں چھپا ہوا ہے
پیڑ کو بھی یہ خزاں آنے پر معلوم ہوا
ٍٍٍٍیہ جو سایا ہے گھنا، پات میں چھپا ہوا ہے
اپنی ترشی جو گھٹاؤں تو پھول جھڑتے ہیں
یعنی ہے زہر جو باغات میں چھپا ہوا ہے
کھوکھلی کر گیا تہذیب ہماری اسود
کیا یہ دیمک ہے جو آلات میں چھپا ہوا ہے