عبداللہ جان جمالدینی ایک ایسے علمی ادارے کے سربراہ تھے کہ ان کی درسگاہ میں یونیورسٹی لیول سے لے کر پرائمری تک کے طالب علم اپنے علم کی پیاس بجھاتے تھے۔ یہ شفیق اور مہربان ایسے تھے کہ نہ کسی طالب کو ڈانٹ دی اور نہ سرزنش کی۔ جو طالب علم ایک دفعہ ان کے درسگاہ میں بھولے سے آتا تو اس درسگاہ کا ہوجاتا کیونکہ استاد ہی ایسا تھا۔
بچے اور بڑے جب ان سے سوا ل کرتے تو وہ ان کا جواب اس معقول انداز میں دیتے تھے کہ وہ جواب ذہن میں اس طرح پیوست ہوجاتا جیسے پتھر پر لکیر۔
خاندان میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تووہ سب سے پہلے بچے کا نام رکھنے کے لیے اُستاد محترم کے پاس آتے تھے ۔ بچے کے نام کے ساتھ اس نام کا ترجمہ وجہ تسمیہ اور تاریخی پس منظر رکھ نام رکھ لیتا تو یقیناً یہ نام گھر والوں کو پسند آتا۔
کوئی تاریخی بات ہوتی یا کوئی تاریخ کے بارے میں علاقائی یا بین الاقوامی معاملات ہوتی۔ اُستاد محترم ایک انسائیکلوپیڈیا کی طرح حرف بہ حرف سمجھاتے تھے جس سے پڑھائی میں اور زیادہ دلچسپی ہوتی تھی ۔ اور یہ سوال جواب ایک پیریڈ نہیں چلتی بلکہ دلچسپی اتنی ہوتی تھی کہ دل کرتا تھا کہ ایک پیریڈ ایک دن کا ہوجائے پھر بھی دل نہیں بھرتا تھا۔
کئی دفعہ ماما جی کے مجالس اتوار پارٹی کا شرف حاصل ہوا تو محفل کا ایک خاص رنگ ہوا کرتا تھا سارے شرکاء مجلس تاریخ ادب رسم و رواج اور حالات حاضرہ پر خاصی عبور رکھتے تھے ۔ جب بھی کوئی موضوع چھڑ جاتا انسان یہ خیا ل کرتا کہ میں اُس زمانے میں اور اُس ماحو ل میں زندگی گزار رہا ہوں جس پر بات ہوتی ہے ماما جی کی مدلل باتیں اور فکر تو اس محفل کو ایک نئی رنگ دیتی تھیں۔
جب کبھی کوئی اُستاد محترم کے ساتھ ہوجاتا اور کسی کا تعارف ہوتا تو اس انداز سے ساتھی کا تعارف کرتا کہ انسان یہ گمان کرتا کہ واقعی میں اس قابل بند ہ ہوں اور کوشش کرتا کہ جس طرح میرا تعارف ہوا ہے باقی زندگی ا س طرح گزار دو جس طرح اُستاد محترم میں بھری محفل میں میرا تعارف کرایا ہے۔
اگر کبھی اکیلے میں ملاقات کا شرف حاصل ہوتا تو خود چپ رہتے تھے جب ان کے ساتھ بات ہوتی توایک شاگرد کی طرح آپ کی بات سن لیتا ایسا لگتا جسے اُستاد محترم کو کچھ معلوم نہیں ہے اور آپ اُس کو پڑھارہے ہو۔ لیکن درحقیقت وہ شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ جس سے ہر آدمی اُس کے ساتھ بات کرنے کو ترجیح دیتا۔