اُس نے ہمیں اِس دنیا میں چلنے پھرنے اور جینے جاگنے کا طریقہ بتایا۔ اُسی کی وجہ سے آج ہمارے گوٹھ کے لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ پتھروں کے زمانے سے نکال کر ہمیں زمین پر چلانا سکھایا ۔وہ شخص ساون کی برسات کی طرح تھا ۔خوبصورت اور بہار کے پھول کی طرح خوشبودار تروتازہ شخصیت تھا۔ وہ سب کا دوست تھا اور سب اس کو پیار کرتے تھے۔ اُس نے امن اور محبت کا بیج بویا اور دلوں کو نفرت سے پاک کیا۔ جی ہاں یہ کوئی نہیں جانتا تھاکہ 1952ء میں ایسا شخص پیدا ہوگا جو پورے گاؤں کے ماحول کو بدل ڈالے گا۔ اُس نے یہ نام بہت کم عمری میں کمایا ۔جی ہاں وہ عظیم شخص میرے ماموں پیرا میڈیکل اسٹاف کے سابقہ صدر اور روشن فکر رہنما سکندر علی ہے۔ کوئی یہ نہیں جانتا تھاکہ یہ شخص ہمیں اِس طرح اکیلے چھوڑ کر اکیلے چلا جائے گا۔ اُس دن درختوں نے سسکیاں لیں۔قبر پر بچھے سنگ ریزوں کو دیکھیے کہ ندامتوں اورحسرتوں کی کڑی دھوپ میں ان پر چلنے سے تلوے جلتے تھے۔ یادوں کے آئینوں میں صرف اُس کا چہرہ یوں چمک رہا ہے جیسے اُس پر چاند کی کرنیں نثار ہو رہی ہوں۔ 19مئی کا دن تھا جب سانسوں کی ڈوری اور دنیاوی تعلق ایک جھٹکے کے ساتھ ٹوٹ گیا ۔
سکندر علی جمالی پٹ فیڈر تحریک کی اہم کڑی تھی ۔پٹ فیڈر کسان تحریک کتاب میں لکھا ہے کہ ہم طبقاتی نظام کے خلاف اپنی طاقت کے مطابق جدوجہد کر رہے تھے ۔اِس تحریک کے شروع کرنے میں سائیں عزیز اللہ کا اہم کردار تھا ۔سائیں عزیز اللہ اُس وقت جیکب آباد میں اپنے بھائی کے گھر رہتے تھے۔ سائیں عزیز اللہ نے ہمیں پٹ فیڈر تحریک کے حولے سے لوگوں کو موبلائیز کرنے کے لئے کہا ۔ پٹ فیڈر کے کسانوں کی شہادت کے بعد رمضان میمن جاوید شکور مجید بھائی اور حمیدہ گھانگرواس واقعہ کی ابتداء میں ہی پہنچ گئے تھے کا مریڈ رمضان کی گرفتاری کے بعد کسانوں کومنظم کرنے کیلئے مجید بھائی نے کسانوں کو یکجا کیا۔ اس دوران کئی بائیں بازوں کے لوگوں کے لیے غلام محمد جمالی اور مینگل کوٹ اور ماما خیر بخش کے پاس جھٹ پٹ میں رہائش کا انتظام کیا گیا تاکہ سرپرستی کیلئے کوئی نہ کوئی کامریڈ آگے بڑھ سکیں۔اسی دوران کا مریڈ رمضان اکبر عمر دین اور پیر بخش سامت کو مچھ جیل میں ایک سال کی سزا دی گئی ۔اس وقت وڈیروں اور جاگیر داروں کی مخالفت میں بلوچ سٹوڈنٹ نے بھی کسانوں کا ساتھ دیا ۔ بائیں بازوں کے کراچی کے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد کوئٹہ کی تنظیموں نے ہمارا ساتھ دیا اُس دوران کوئٹہ میں ایک میٹنگ کی گئی جس میں محمد خان مینگل بھی شامل تھے جس میں یہ فیصلہ کیا گیاکہ طلبہ فیڈریشن اورلیبر فیڈریشن کو بھی اس جدوجہد میں شامل کیا جائے ۔ڈیرہ مراد میں نور پندرانی کی رہائش گاہ پر بائیں بازوں کے سب لوگ اکٹھے ہوئے اور پٹ فیڈر تحریک پر تبادلہ خیال کرتے رہے ۔ماموں سکندر کا یہ کردار پٹ فیڈر تحریک میں تھا کہ سب باہر کے لوگوں کو بحفاظت مقامی دوستوں کے ساتھ رابطے کروانا تھا۔ اس تحریک کی سچائی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس تحریک میں سکندر علی فرنٹ مین کے طور پر رہاحتاکہ سکندر علی کا تعلق جمالی قبیلے سے ہونے کی وجہ سکندر علی کو مارنے کی دھمکیاں روز ملتی تھی اور اس تحریک سے نکلنے کیلئے کئی طریقے آزمائے گئے جو سب کے سب ناکام ہوئے تو میرے دادا کو ایک پیغام بھیجا گیا کہ مرحوم سکندر کو سمجھاؤ کہ وہ اس تحریک کو چھوڑ دیں ورنہ گاڑی کے پہیوں میں دے دوں گا۔اُس ٹائم دادا نے جواب دیا کہ ہم کسان ہیں، کسانوں کا ساتھ دینا ہمارا فرض ہے۔ ایک سکندر کو مارو گے تو کتنے سکندر اور نکل آئیں گے ۔کتنے لوگوں کو مارو گے۔ پھر جاکر جمالی خاندان کے جاگیرداروں نے خاموشی اختیار کی۔ اِس تحریک کے ختم ہوتے ہی سکندر علی جمالی نے ایک جاب بھی کیا۔ محکمہ ہیلتھ میں وہ مسلسل سات سال تک ملیر یاسپروائیزر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ۔اور اسی دوران وہ محکمہ ہیلتھ پیرامیڈیکل اسٹاف فیڈریشن کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد محکمہ ڈبلیو ایچ او میں ایک سال تک مانیٹر کا کام کرتے رہے ۔26اگست2015 کوبیٹے کی اچانک موت نے اُسے نڈھال کر دیا ۔اُس کے بعد مسلسل بیماریوں سے لڑتے لڑتے 19مئی کو رات دوبجے اِس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔ آبائی گاؤں گوٹھ غلام محمد جمالی میں انہیں دفن کیا گیا ۔سوگواروں میں ایک بیوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے شامل ہیں۔ ان کی پوری زندگی ایک مثال ہے جو رہتی دنیا تک سب کو یاد رہے گی۔