اکتوبر
بلوچستان جو یو ں تو ایک دائمی د کھ میں ہی رہتا ہے اور شال جس کی فطرت میں ہی اداسی ہے، پچھلے چند ماہ سے یہ مزید سوگوار ہو گیا ہے۔ پہلے وکلا کی شہادت نے لوگوں کی روح تک میں دکھ بھر دیا۔ ابھی اس غم سے نکلے بھی نہیں تھے کہ بابا عبداللہ جان جمالدینی صاحب نے اس جہاں سے کوچ کرنے کا اپنا اٹل فیصلہ سنا دیا ،اور پھر ان کی زندگی کی ہم سفر نے بھی اپنا سفر انھی کے ساتھ جاری رکھنے کا فیصلہ صادر کیا۔
سنگت ایک شاہکار ہے۔ ہماری محبت اور دلچسپی کا گراف بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اکتوبر کا ماہتاک سنگت ملا تو سر ورق پر ایک حسین اور پروقار ہستی کی تصویر تھی ، جسے دیکھ کر ایک عجیب خوشی ہوئی کہ ذہن میں تھا کہ بابا عبداللہ جان کی تصویر ہوگی۔ جی ہاں یہ مامی زبیدہ صاحبہ تھیں جو ہم سب کے لیے محترم ہیں ۔ لہٰذا پہلی ہی جست میں شونگال پہنچ گئی جس میں دو مضامین مامی اور با با عبداللہ جان کے لیے عقیدت کے پھول تھے۔
’’مامی‘‘ ایک بہت اچھا مضمون تھا ،جس میں مامی کی میٹھی شخصیت کے بارے میں بڑے اچھے انداز میں بتایا گیا ۔ کس طرح انھوں نے اپنے زندگی کے ساتھی کا ہر مشکل ہر مشن میں ساتھ دیا اور کبھی بھی ان کو اکیلا نہیں چھوڑا ، یہاں تک کہ دنیا سے بھی ساتھ ہی چلی گئیں ۔ اچھا لگا پڑھ کے۔
’’ کچھ نہیں، ایک پہاڑ گر گیا‘‘ شونگال کا دوسرا مضمون۔ بابا عبداللہ جان کی زندگی، ان کی شخصیت، جدوجہد اور سوچ کے بارے میں ایک خوب صورت اور مکمل مضمون تھا کہ کس طرح انھوں نے اپنے سفر کا آغاز لٹ خانے سے کیا، کہاں کہاں پڑاؤ کیا اور کس طرح ان کا آخری پڑاؤ ،’ سنڈے پارٹی‘ کی صورت میں آباد رہا۔ دکھ سے بھرے بوجھل دل کے ساتھ مضمون پڑھا۔
’ اولین لٹ کی یاد میں‘میں عثمان قاضی نے بابا جمالدینی کو اپنے ہی انداز میں یاد کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ،’’ماما کے سدا مسکراتے چہرے پرناگواری کا ہلکا سا سایہ صرف تب نمودار ہوتا جب ان کی محفل میں کسی شخص، گروہ، نسل یا طبقے کا ذکر نفرت کے پیرائے میں کیا جاتا‘‘۔ ایسے بڑے لوگ جن کی شخصیت محبت ہی محبت ہو، وہ کسی سے نفرت کا ذکر کیا سنیں گے۔ عثمان صاحب کا ایک بہت اچھا مضمون جو بنا سانس روکے پڑھتی چلی گئی۔
مشتاق علی شان لکھتے ہیں،’’ عبداللہ جان جمالدینی زندہ رہیں گے‘‘۔ جی بالکل وہ زندہ رہیں گے کیوں کہ طبعی موت اصل موت نہیں ہوتی۔ جب تک ان کا پیغام ، ان کی تعلیمات زندہ رہیں گی، جب تک ان کی جلائی ہوئی مشعل روشن ریے گی، تب تک وہ زندہ رہیں گے اور ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ یہ روشنی کبھی بجھنے نہ دیں۔
ڈاکٹر عطااللہ بزنجو صاحب نے ’’ ماما کا آخری سفر‘‘ ایسے دکھی لہجے میں لکھا کہ ہم تو مزید دکھی ہو گئے لیکن یہ تو بہرحال طے ہے کہ دکھ کی انتہا ہی اصل طاقت کا موجب بنتی ہے ۔
’’ ہے بے بختی‘‘ عابدہ رحمان کا مضمون جس میں انھوں نے اپنے بابا سے محبت اور ان کی وفات پر غم کا اظہار کیا۔
ؑ عطاء اللہ بزنجو صاحب اور عابدہ رحمان مجھے پتہ نہیں کیوں اپنے مضامین میں کچھ عجلت میں دکھائی دیئے ۔ ذرا دھیرج دوستو جلدی کاہے کی ہے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے اپنے مضمون ’’عبدَکو‘‘ میں لکھا ہے کہ ماما کے بہت سارے نام تھے اور بے شمار ناموں سے انھیں پکارا جاتا تھا جن میں والدہ صاحبہ پیار سے عبدَ کو کہتی تھیں، لیکن اکثریت انھیں ماما کہتی تھی تو بھئی انٹرنیشنل ماما کو جس نے جو بھی محبت سے پکارا ٹھیک تھا کہ پھول کو جس نام سے بھی پکارو، وہ پھول ہی ہوتا ہے۔ میرے تو وہ بابا ہیں ۔ بہت ہلکا پھلکا مزے کا مضمون تھا۔
ماما پہ ایک مضمون براہوی زبان میں غم خوار حیات نے لکھا۔ انہوں نے بالخصوص ماما کی علمی زندگی کو حوالہ بنایا۔نوشکی کے لیے انہیں قابلِ فخر کہا۔ اچھا کہا۔ باقی باتیں دہرائی ہوئی ہیں۔
بلوچی میں ایک مختصر مضمون محمد رفیق مغیری کا تھا۔ انہوں نے بھی ماماکے علمی اور فکری کردار کو سراہا۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ آج بلوچی میں ایم اے سمیت ایم فل اور پی ایچ ڈی کی جتنی ڈگری دی جا رہی ہیں، وہ سب انہی کی مرہون منت ہیں، کہ اس شعبے کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی۔
غلام نبی ساجد صاحب کا ایک زبردست مضمون ،’’سانحہ کوئٹہ ۸ اگست نہ تو پہلی تباہی، اور نہ آخری‘‘۔ انھوں نے اس میں شہریوں ، عوام اور لکھاریوں کو طنز کرتے ہوئے جھنجھوڑا ہے ۔ لکھتے ہیں کہ ،’’ ہم سے تو جنگل کے قوانین کہیں بہتر ہیں کہ جہاں سیلاب آنے پرایک دوسرے کے ازلی دشمن بھیڑیا، بکری، سانپ اور گلہری ایک ہی درخت کی شاخوں پر پناہ لیتے ہیں،۔‘‘ اشرف المخلوقات اور ایک مہذب دور کے انسان کے لیے یہ طنز ایک بہت بڑی بات ہے۔ باکل ساجد صاحب قلم کاروں ، اہلِ علم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معاشرے کے لیے دیدہ ء بینا بن کر مستقبل کے ادراک کا عزم کر لیں۔
قلا خان خروٹی نے، ’’نیشنل ایکشن پلان ، عمل کے ترازو میں‘‘ میں لکھا ہے کہ اس پربات کرنے کا مطلب ہے چبائے ہوئے نوالے کو دوبارہ چبانا۔ تو چھڈ یار۔۔۔ آخر اب ہم کہاں تک اس چبائے ہوئے نوالے کو بار بار چباتے رہیں گے کہ نیشنل پلانز اور کمیٹیوں کی کارکردگی اور انجام سے ہم ویسے ہی بخوبی واقف ہیں ۔
سنگت ایجوکیشن پالیسی کا مسودہ بھی شامل تھا اس ماہتاک میں، اس میں جو پوائنٹس شامل تھے، اگر ہماری ایجوکیشن اسی پالیسی کے مطابق ہو تو بلوچستان کے تو وارے نیارے ہو جائیں۔
جاوید صاحب،’’ لینن کا نظریہء جمالیات‘‘ بڑی خوبی سے لکھ رہے ہیں ۔ ایک بہت معلوماتی مضمون چل رہا ہے ان کا۔ پڑھ کر یہ بھی محسوس ہوا کہ حسن وجمال کو دیکھو اور محظوظ ہوتے رہو، اس کے بارے میں پڑھنا ایک مشکل کام ہے۔ جیسے مری صاحب کہتے ہیں مائتھالوجی کا مزے لو ،سوال نہ کرو۔۔۔ تو میں کہوں گی حسن و جمال کو سراہو، اس کی تفصیلات میں نہ پڑو۔
کتاب پچار میں عابدہ رحمان کے دو تبصرے شامل تھے؛ جن میں ایک تو ستمبر کے ماہتاک سنگت پر تھا اور دوسرا شاہ محمد مری صاحب کے ترجمہ’سپارٹیکس‘پر غلام بغاوت کی کہانی کے نام سے تھا۔
حال حوال میں ایک رپورٹ سمو راج ونڈ تحریک کی جنرل باڈی کی تھی۔ اس کے علاوہ مجھے نہیں معلوم کہ ایک ہی پوہ زانت کو دو مرتبہ رپورٹ کرنے کا کیا مطلب تھا ۔ کیا قارئین سے چاہا گیا کہ دونوں رپورٹس میں فرق معلوم کیجیے۔۔۔؟!
اب آتے ہیں’ قصہ‘ کی طرف۔ سب سے پہلے ہم جس کہانی پر بات کریں گے وہ ہے، منوج کمارکی جسے ننگر چنا نے ترجمہ کیا،’’ آخر اسے نیند آ گئی‘‘ جو ایک مزدور کے بارے میں تھی۔ ہمارے معاشرے میں ایک غریب کا ایک مزدور کا جو حال ہوتا ہے جس طرح کی کٹھن زندگی وہ گزارتے ہیں، اس کی ایک سادہ سی کہانی تھی یہ۔
مسکان احزم نے’’ ع عورت‘‘ کے نام سے افسانہ لکھا ہے جو کہ افسانے سے زیادہ مضمون لگ رہا تھا۔ اچھی بھلی چلتی ہوئی کہانی میں لکھاری دخل در معقولات کر کے مضمون کی چھری تھامے اسے دو لخت کر دیتیں جس نے افسانے کو کہیں کا رہنے نہیں دیا۔افسانہ پڑھ کرمجھے نہ تو خوشی ہوئی اور نہ غم۔
فرحین جمال کی ’’ دیوی‘‘ نسبتاً ایک اچھا افسانہ تھا جس میں انکیتا نے اپنے گرد ایک غیر ضروری خول چڑھا رکھا تھا، ایک ایسا خول جس میں وہ خود بھی گھٹن کا شکار تھی۔ خواب و حقیقت کا ایک اچھا ربط دکھایا گیا ۔ خواب جس میں وہ ، وہ کچھ دیکھتی ہے جو وہ دیکھنا چاہتی ہے جو اس کی اصل شخصیت ہے۔ حقیقت میں جب وہ خود اختیار کیے ہوئے خول کو اتار لیتی ہے تو نارمل انسانوں کی لائن میں آ جاتی ہے۔ مگرمزید بہتر ہو سکتا تھا یہ افسانہ ۔
’’ بلی اور بوڑھا‘‘ میں منیر احمد بادینی صاحب شروع سے لے کر آخر تک پہلے تو اس بات پر کنفیوز رہے کہ وہ جو تھی وہ بلی تھی کہ بلا۔ پھر مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ وہ اس کہانی میں معاشرے کو بتانا کیا چاہ رہے ہیں۔ بس بوریت کا ایک تلخ جام تھا جو پی لیا۔
’’ٹاور صاحب‘‘ میں بھی ڈاکٹر سجاد احمد صدیقی کیا بتانا چاہ رہے ہیں ۔۔۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ کہانی کیا تھی بس مضمون تھا جو ٹاور صاحب کی وفات کے بعد لکھا گیا اور اس میں ان صاحب کی خوبیاں اور خامیاں گنوائی گئیں۔لکھاری نے کہانی اپنی وسعت کے مطابق کھینچی اور خوب کھینچی۔
یہ کہنا پڑے گا کہ مجموعی طور پر اس دفعہ کے قصے خاصے کم زور رہے۔
البتہ قصے کے حصے میں بلوچی کا حصہ نسبتاً بہتر رہا ۔ گوہر ملک کی دو مختصر کہانیاں شامل تھیں، ایک پر ’روسی قصہ‘ لکھا گیا تھا۔ اس سے واضح تو نہیں کہ یہ کسی روسی کہانی کا ترجمہ ہے یا مرکزی خیال کسی روسی کہانی سے ماخوذ ہے۔لیکن زبان و بیان سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ گوہر ملک نے براہِ راست ترجمے کی بجائے مرکزی خیال اخذ کر کے اسے بلوچی کے قالب میں ڈھالا ہے، اور اس لحاظ سے یہ ایک کامیاب کوشش تھی۔کریم بلوچ کی مختصرکہانی بھی قابلِ ذکر کہی جا سکتی ہے۔
اور اب باری ہے شاعری کی۔ نور محمد شیخ صاحب نے ’’خراج تحسین‘‘ کے نام سے ماما عبداللہ جان جمالدینی کی خدمت میں بڑی محبت اور خوبصورتی سے عقیدت کے پھول پیش کیے ۔ ایک اچھی نثری نظم تھی۔
دوسری نظم ثروت زہرہ کی تھی، اس کی بھی وہی جگہ تھی جو اسے دی گئی ۔ ایک بہترین نظم۔
بہت دکھ ہے اس میں کہ ،’’ ہمیں زندگی کے نہیں موت کے زرخیز ایجنڈے تحریر کرنے چاہئیں‘‘۔
وفا کے ریگزاروں میں
تھکن اب تک نہیں جاگی
سراب و آب میں تفریق
اب ہے کارِ لا حاصل
بنی ہے تشنگی احساس سیرابی کا
مدت سے

واہ منیر صاحب ۔۔۔ مکرر!!
مست توکلی کی خوب صورت شاعری کے خوبصورت ترجمے۔ "Sammi’s Abode” and ” i Wish a Day”۔
ان کے علاوہ غنی خان کی ، تو سجدہ ریز اور میں۔۔۔حسن جمیل کی غزل اور رحمت سومرو کی نظم،’ غیر نہ بناؤ‘ ، بھی اچھی رہیں ۔
بلوچی شاعری میں میران رند کا سہرا، سانحہ آٹھ اگست پہ ثنا سیا پاد کی سادہ نظم، اور ارمان آزگ کی مختصر مگر بھرپور نظم بلوچی جاننے والے قارئین کے لیے خاصے کی چیز رہیں۔

wwwww

سمو راج ونڈ تحریک کی کابینہ کا اجلاس
رپورٹ: عابدہ رحمان
17 اکتوبر2016 کوسمو راج ونڈ تحریک کی کابینہ کا اجلاس تحریک کی صدر محترمہ نورین لہڑی کی صدارت میں ہوا۔
میٹنگ کے آخر میں چند قراردادیں پاس ہوئیں :
۱۔ سمو راج ونڈ تحریک ہزارہ خواتین کو قتل کرنے کی مذمت کرتی ہے اور ہر قسم کے ظلم کی مذمت کرتی رہے گی۔
۲۔سمو راج ونڈ تحریک قلات میں ہونے والے کاروکاری کے واقعے کی مذمت کرتی ہے۔
۳۔سمو راج ونڈ تحریک کامریڈ واحد بلوچ کی گم شدگی کی مذمت کرتی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے