سنگت اکیڈمی آف سائنسزکی ماہانہ نشست پوہ زانت مورخہ16 اکتوبر2016 کو چار بجے شام عابدہ رحمن کی زیرصدارت پروفیشنل اکیڈمی میں منعقد ہوئی ۔ نظامت کے فرائض عصمت خروٹی نے انجام دیے۔ اس نشست میں آغا سرور، ڈاکٹر شاہ محمد مری، جاوید اختر، وحید زہیر، افضل مراد، عصمت خروٹی، عابدہ رحمن، مسرور شاد، آزات جمالدینی، ساجد بزدار، خیر محمد ، ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں ، بیرم غوری اور دیگر نے شرکت کی۔
نشست کا آغاز ماما عبداللہ جان اور اس کی اہلیہ کی رحلت پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرکے کیا گیا۔ اس کے بعد آغا سرور نے ماما عبداللہ جان کی شخصیت پر ایک مضمون پڑھا۔ جس میں اس نے ماما سے اپنی گذشتہ تیس سالہ دوستی کا ذکر کیا اور اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔جس میں اس کی مرنجاں مرنج شخصیت ، اس کی پشتو زبان و ادب سے گہری وابستگی ، ترقی پسند سوچ، بلوچی زبان و ادب کی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ ماما عبداللہ جان جمالدینی ایک انسان دوست شخصیت کا حامل تھااس کی محفل میں کسی زبان، قوم، مذہب ، قبیلے اور علاقے کی تفریق و تمیز کے بغیر لوگ شریک ہوتے تھے اور جوایک دفعہ اس سے ملتا تھا اس کی مقناطیسی شخصیت کا ہمیشہ گرویدہ ہوجاتا تھا۔ ماما علامہ اقبال، فیض، آزات جمالدینی، گل خان نصیر، شہ مرید، مست توکلی، سعدی اور حافظ شیرازی کی شاعری سے بے حد متاثر تھا۔
سرور نے ماما کی زندگی کے کچھ اور گوشے بھی بتائیے۔ مثلاً وہ نائب تحصیل دار تعینات ہوا پھر اس نوکری سے مستعفی ہو گیا اور لٹ خانہ نامی تحریک کی بنیاد رکھی جس میں اس کے ساتھ سائیں کمال خان شیرانڑیں ، ڈاکٹر خدائے داد شامل تھے اور یہ قافلہ پھر بڑھتا چلا گیا اور اس میں کئی اور مفکرین ، ادیب ، شاعر، سیاست دان اور صحافی بھی شامل ہوگئے ۔ اس نے فی الحال سٹیشنری سے اپنا گزر بسر شروع کیا اور یہاں ترقی پسند موضوعات پر کتابوں کی فروخت شروع کی اور خود بھی ان سے مستفید ہوا ۔ اس نے یہاں بلوچی اور پشتو زبان و ادب کی نشر و اشاعت بھی شروع کی۔ بعد ازاں وہ کراچی میں سوویت کلچرل سنٹرسے وابستہ ہوگیا اورپھر بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ بلوچی سے وابستہ ہوگیا اور اپنی ریٹائرمنٹ تک وہیں رہا۔
ماما جب پشاور میں اسلامیہ کالج میں طالب علم تھا اس کے ایک استاد ادریس صاحب نے اسے پڑھنے لکھنے،ترقی پسند موضوعات اور مارکسز م سے متعارف کرایا۔ ماما کی مارکسزم سے گہری وابستگی پوری زندگی تادم مرگ قائم رہی۔ سرور نے مضمون میں مامی کی ایثار پیشہ شخصیت پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔
سرور نے اپنے مضمون میں سول ہسپتال کوئٹہ میں8مارچ کو ہونے والے انسانیت سوز اور خونیں دہشت گردی کے واقعے کو بھی بھرپور ہدف تنقید بنایا اور اسے انسانیت کے قتل سے موسوم کیا۔
اس کے بعد پروفیسر بیرم غوری نے ماما عبداللہ جان جمالدینی پر اپنا مقالہ پیش کیا جس میں اس نے ماما کی فکر کو برصغیر کی تحریک آزادی، ترقی پسند تحریک، کمیونسٹ پارٹی اور بلوچستان کی فکری تحریکوں میں تلاش کیا۔یہ مضمون فصاحت و بلاغت کا بہترین ادب پارہ تھا۔
اس کے بعد وحید زہیر نے اپنا مختصر سا مضمون ماما پر پڑھا جس کا عنوان تھا ’’ بولتا استاد اور بیدار انسان‘‘۔ اس مضمون میں وحید نے ماما سے اپنی وابستگی کا ذکر کیا جو 1985 سے شروع ہوئی۔ پھر وہ ماما کی زیر قیادت1985 میں کراچی میں ترقی پسند تحریک کی گولڈن جوبلی میں شریک ہوا۔ یہ وابستگی ماما کی وفات تک قائم رہی اور اس نے اسے ایک بہترین استاد اور رہنما پایا۔
اس کے بعد مسرور شاد نے کوئٹہ کے آٹھ اگست2016 کے سانحہ پر اپنی اردو نظم پیش کی ، جس میں اس نے اس وحشیانہ دہشت گردی اور معصوم لوگوں کی جانوں کے زیاں پر افسوس کا اظہار کیا ۔ نظم بے حد متاثر کن تھی ۔
اس کے بعد2 قراردادیں پیش کی گئیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
-1 کامریڈ واحد بلوچ گذشتہ کئی ماہ سے حکومتی اداروں کی قید میں ہے۔ اس کی ساری شہرت اس بات پہ ہے کہ وہ کتابوں کا دلدادہ ہے۔ وہ کتابیں پڑھتا ہے اور دوسروں کو کتابیں چھپوانے اور ان کی فروخت میں مددکرتا ہے۔ادبی میلوں میں بک سٹال لگاتا ہے۔ وہ ایک بے تعصب، انسان دوست شخص ہے۔ غریبوں کا ہمدرد اور بے ضرر انسان ہے۔
ہم سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے ارکان اس کی گرفتاری پر دکھی ہیں۔ ہم نے اپنی محفلوں اجلاسوں میں قراردادیں بھی منظور کی ہیں، حکام سے رابطہ اور درخواست بھی کی ہے ۔مگر اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے بس میں تو یہی طریقے ہیں ، جو ہم نے استعمال کیے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
ہم ایک بار پھر حکومت اور حکومتی اداروں اور ان اداروں کے سربراہوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کتاب دوست انسان کو رہا کیا جائے۔
-2 ہم اہل قلم ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں اور خاص طور پر مذہبی فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اورگذشتہ دنوں کوئٹہ میں لوکل بس میں عورتوں کے فرقہ وارانہ قتل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
ان قراردادوں کو نشست میں شرکاء نے منظور کیا۔
آخر میں عابدہ رحمن نے خطبہ صدارت دیتے ہوئے کہا کہ میں بہت افسوس کرتی ہوں کہ میں ماما عبداللہ جان سے مستفید نہیں ہوسکی لیکن میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ ماما کے ساتھیوں سے میرا رابطہ اور تعلق ہے ، جن کے ذریعے ماما کے افکار مجھ تک منتقل ہوئے ہیں۔ میں اتنا جانتی ہوں کہ ماما ایک بلا تعصب انسان تھا اور عظیم شخص تھا، اس کے تمام ساتھی بھی ایسے ہیں ۔ وہ کسی سے زبان، مذہب، قوم، قبیلے اور علاقے کی بنیا د پر تعصب نہیں کرتے اور نہ ہی ان بنیادوں پر کسی سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے